عراق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایران کی ''القدس فورس‘‘ کے جنرل قاسم سلیمانی کی اپنے معتمد ساتھیوں سمیت امریکی ڈرون حملہ میں ناگہانی موت نے مڈل ایسٹ کو ایسی ہولناک جنگ کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہے‘ جس کی گونج دوسری عراق جنگ سے زیادہ مہیب سنائی دے رہی ہے۔
ایرانی قیادت کی طرف سے رومانوی شہرت کے حامل میجرجنرل قاسم سلیمانی کی موت کا بدلہ لینے کا عہد اور امریکہ انتظامیہ کی جانب سے مڈل ایسٹ میں اضافی فورسز کی تعیناتی سے خطے میں خوف کی سطح بلند ہوئی ہے‘تاہم اس امر کا اندازہ لگانا دشوار ہے کہ ایران‘ امریکہ کے خلاف کب اور کس نوع کی انتقامی کارروائی کرسکتا ہے؟
پچھلے چالیس سال سے ایران اور امریکہ کے درمیان پروان چڑھنے والی بے اصل کشیدگی کی متغیر صورتیں ہمیشہ التباسات کی دھند میں چھپی رہیں اور ہرامریکی انتظامیہ نے ایک متعین پالیسی کے تحت مشرق ِوسطیٰ کی اسرائیل مخالف عرب مملکتوں کو ایرانیوںکے ساتھ انگیج رکھنے کی غرض سے شعوری طور پہ کسی ایسی کارروائی سے گریز کیا‘ جو ایرانی ریاست کو کمزور کرنے کا سبب بنتی‘یعنی امریکیوں نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ ایران جیسی کمزور فوجی طاقت کو مڈل ایسٹ کی مہمل ریاستوں میں پراکسی جنگجوؤں کے ذریعے اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کا موقعہ دیکر پورے مشرق ِ وسطیٰ کو ایران کے امکانی غلبہ کے خوف میں مبتلا کر کے اپنے حفاظتی کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی کو کامیاب بنایا۔
جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کی اسی وار ڈاکٹرائن پہ عملدرآمد کے ماہر اور خطے میں پراکسی جنگجوؤں کے ذریعے ایرانی مفادات آگے بڑھانے کے ذمہ دار تھے‘انہوں نے انتہائی نفاست کے ساتھ ایک نسبتاً کمزور فوجی قوت کی حامل ایرانی فوج کو براہ راست تصادم سے بچاتے ہوئے اپنے سے بڑی طاقت کے مقابل بقاء کی آزمائش کو بطریق ِاحسن نبھانے کا فرض ادا کیا۔
اس امر میں بھی کوئی شبہ باقی نہیں کہ ایرانی قیادت قاسم سلیمانی کی ناگہانی موت کا انتقام ضرور لے گی اور یہ ردعمل عام لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر محض علامتی کارروائی نہیں ‘بلکہ یہ سٹریٹجک اٹیک اور منصوبہ بندی سے منظم کی گئی بامعنی کارروائی ہو گی‘ جو لامتناہی سلسلہ ہائے علل کا سبب بن سکتی ہے۔بلاشبہ ایران مڈل ایسٹ کی ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت ہے‘ لیکن اس کا امریکی فوجی قوت سے کوئی موازنہ نہیں۔ایران کے پاس تین لاکھ پچاس ہزار ریزرو فورس کے علاوہ پانچ لاکھ تیئس ہزار جوانوں پہ مشتمل دنیا کی 14ویں بڑی آرمی موجود ہے‘ لیکن روایتی ہتھیاروں سے لیس یہ آرمی‘عالمی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے جدید وار ٹیکنالوجی سے محروم ہے۔ایران کا اگرچہ ایٹمی پروگرام جاری ہے‘ لیکن وہ تاحال ایٹمی قوت بن نہیں سکا۔ایران کے پاس بیلسٹک میزائل پروگرام موجود ہے‘ لیکن ایسے میزائل میسر نہیں‘ جو امریکہ کو ہدف بنا سکیں۔
ہرچند کہ ایران کے روس اور چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں‘ لیکن وہ کسی عالمی طاقت کا دفاعی اتحادی نہیں بن سکا۔عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا ‘شام میں بشارالاسد حکومت‘یمن میں حوثی باغیوں اور لبنان میں ''حزب اللہ‘‘ جیسی عسکری تنظیموں پر مشتمل موثر نیٹ ورک اس خطے میں امریکہ اور اس کی اتحادی حکومتوں کو ہدف بنانے کیلئے اس کا مہلک ہتھیار ہے ۔گویا ایرانی اتھارٹی کی اصل طاقت‘ مڈل ایسٹ کے وسیع و عریض میدان جنگ میں‘تیسرے فریق کے ذریعے جنگ لڑنے کی مہارت ہے‘جو نا صرف ایران کیخلاف عالمی ردعمل کی تحلیل کرتی رہی‘ بلکہ یہ بغیر کسی بڑے رسک کے خطے میں اس کے دائمی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کا وسیلہ بھی بنی۔
جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی ایرانی طاقت کی اسی جہت کی اساطیری تمثیل تھی۔ابھی حال ہی میں امریکہ کی ایک ریسرچ سروس نے گزشتہ چالیس سال کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف ایران کے چالیس خفیہ حملوں کی فہرست مرتب کی۔یہ چالیس کارروائیاں حزب اللہ‘پاسدران ِانقلاب گارڈز اور انٹیلی جنس اداروں کی پراکسی کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھیں۔1996ء میں عراق وار کے دوران ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا نے سعودی عرب میں امریکی فورسز کی ہاؤسنگ سکیم میں بم پھوڑکے سینکڑوں امریکی فوجیوں کو ہلاک کیا۔ایران کے غیر مختتم پراکسی رجحانات کو جواز بنا کے امریکی صدر ٹرمپ نے مئی 2018 ء میں اس ایران‘ امریکہ ایٹمی معاہدہ کو یکطرفہ طور پہ منسوخ کر کے ایران پہ عالمی اقتصادی پابندیاں بڑھا دیں‘جسے2015ء میں بارک اوبامہ انتظامیہ نے عملی جامہ پہنایا تھا۔اس ابطال معاہدہ کے ایک سال بعد ایرانی انٹیلی جنس نے گلف آف اومان میں امریکی آئل ٹینکر کو نشانہ بنانے کے علاوہ جون میں نہایت پراسرار انداز میںامریکہ کا بغیر پائلٹ کے چلنے والے ڈرون طیارہ مار گرایا۔ ستمبر2019ء میں ایران کے حمایتی عراقی ملیشیا نے سعودی عرب کی آرمکو آئل فیلڈ پہ راکٹ حملے کئے اور دسمبر میں راکٹ حملوں کی زد میں آ کر ایک امریکن کنٹریکٹر بھی ہلاک ہو گیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ 1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ میں صدام حسین کی کھلی حمایت کے بعد قاسم سلیمانی کا قتل امریکہ کی ایران کیخلاف دوسری براہ راست کارروائی تھی‘جس نے دونوں ملکوں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔1988ء میں امریکی فوج نے ایران کے مسافر بردارطیارہ مار گرایا تھا‘ لیکن بعدازاں ریگن انتظامیہ نے اس کارروائی کو غلطی تسلیم کر کے معافی مانگ لی تھی۔1983ء میں جنگ کے دوران عراق کی مدد کرنے کی پاداش میں ایران کے حمایت یافتہ ملیشیا نے بیروت میں امریکہ کے سفارت خانہ اور امریکی میرین کی بیرکس پہ تباہ کن حملے کئے‘ لیکن مغربی طاقتیں بوجوہ براہ راست تصادم سے ہچکچاتی رہیں۔حیرت انگیز طور پہ اس وقت امریکی فضائیہ کی طرف سے ایرانی ریاست کی دوسری اہم ترین شخصیت کو ہدف بنانے اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے جیسے فیصلہ کی مثال پچھلے چالیس سال کی کشمکش کے دوران نہیں ملتی۔لگتا ہے کہ سعودیہ سمیت دیگرعرب ریاستیں اب اسرائیل کیلئے خطرہ نہیں رہیں‘ اس لیے خطے میں ایران کے پراکسی کردار کی افادیت باقی نہیں رہی؛ اگرچہ ماضی میں ایران بھی اپنی کمزور فوجی حیثیت کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے بچتا تھا‘ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کیخلاف اس کا ردعمل کمزور ہو گا‘جس طرح امریکہ کو موقعہ ملا تو اس نے سلیمانی کو نشانہ بنایا‘ اسی طرح ایران موقعہ پاتے ہی امریکی مفادات کو ہدف بنا سکتا ہے۔
مشرق ِوسطیٰ کے حالات پہ گہری نظر رکھنے والے ماہرین پیش بینی کرتے ہیں کہ اب ‘ عراق وار کے برعکس ایران کے خلاف فوجی کارروائی پورے ایشیا کو جنگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے‘ بلکہ پوری دنیا کی ملٹری تنصیبات‘اقتصادیات اور تہذیب و تمدن بھی جنگ کا ایندھن بن سکتے ہیں۔اہم سوال یہ ہے کہ عام طور پر امریکہ‘ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے ہچکچاتا رہا‘ لیکن اب‘ حیران کن طور پہ امریکہ نے نا صرف سلیمانی کے خلاف ڈائریکٹ کارروائی کرکے ایران کو براہ راست مبارزت کی دعوت دے ڈالی‘ بلکہ اس غیر متوقع حملہ کے بعد امریکی ائیرفورس نے عراقی ملیشیا کیخلاف فضائی حملے بھی بڑھا دیئے ہیں‘جس سے ایران کیخلاف تاریکی میں لڑی جانے والی بے نام جنگ اب ‘دن کی روشنی اورکھلے میدان میں سامنے ابھر آئی ہے۔