تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-01-2020

ہر زندہ چیز کا مقدر

آسٹریلیا کے جنگلات میں آگ لگنے سے 48کروڑ جانور جل کر بھسم ہو چکے ۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ شیئر کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نمازِ استسقا ء ادا کرنے کے نتیجے میں اب ‘وہاں بارش شروع ہو گئی ہے ۔ سیکولر اس بات پران کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ دنیا میں اتنی تکلیف کیوں ہے ؟ میں نے کئی بار اس بات پر غور کیا ۔ اس دوران انسان پر بڑے عجیب انکشافات ہوتے ہیں ۔ 
سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندہ چیزیں اور تکلیف یا درد لازم و ملزوم ہے ۔ فرض کریں کہ یہ جانور آگ سے نہ مرتے ‘ پھرکیا ہوتا؟ ایک دن وہ بوڑھے اور بیمار ہو کر مرتے۔ بڑھاپا اپنی جگہ ایک بہت بڑی miseryہے‘ جو کہ انسان کو زندگی سے محظوظ ہونے کے قابل نہیں چھوڑتا ۔ بیس سال کی عمر میں جو شخص دو دو سیڑھیاں پھلانگتا چلا جاتاہے ‘نوّے برس کی عمر میں وہ ایک ایک زینہ رک رک کر طے کر رہا ہوتاہے ۔ تو جوجاندار بھی پیدا ہوا‘ اس نے موت کا مزہ توبہرحال چکھنا ہی ہے۔ چاہے‘ وہ حادثے کی صورت میں ہو یا بڑھاپے اور بیماری کی صورت میں ۔ 
ہر جاندار کے جسم میں نروز کی صورت میں ایسی تاریں بچھائی گئی ہیں کہ جن سے جسم کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچنے کے نتیجے میں وہ درد محسوس کرتاہے ۔ اس درد ہی کے نتیجے میں‘ وہ اپنی جان بچانے کی پوری کرتا ہے ۔ جیسا کہ میرے دوست ناصر افتخار نے اپنی کتاب ''خود سے خدا تک ‘‘میں لکھا ہے کہ لوگ اپنی آنتیں اپنی ہاتھوں سے اپنی گردن میں لٹکا لیتے ۔ درد نہ ہوتا تو لوگ شوقیہ اور تجسس کی وجہ سے خود کشی کر لیتے کہ دیکھیں تو سہی‘مرتے ہوئے انسان بھلا کیا محسوس کرتا ہے۔ یہ درد ہے ‘ جو انسان کو زندہ رہنے کی جدوجہد پر اکساتا ہے ۔ آپ کسی کے جسم میں ان تاروں کو منقطع کر دیں‘ پھر چاہے‘ اس کے جسم کو آرے سے دوٹکڑے کر دیا جائے‘ اسے محسوس بھی نہیں ہوگا۔ انسان اس کام میں اتنی مہارت حاصل کر چکا ہے کہ وہ ریڑھ کی ہڈی میں سے درد کی ترسیل روک دیتاہے اور بچہ جنتی ہوئی ماں سو جاتی ہے ۔ 
آپ کو آسٹریلیا کے 48کروڑ جانوروں پہ ترس تو آرہا ہوگا‘ مجھے بھی آرہا ہے‘ لیکن انجام تو ہمارا بھی یہی ہے ۔ ایک دن ہم سب کو بھی مرجانا ہے ۔ انسان اپنی تمام تر ترقی کے باوجود موت کا تو کوئی علاج ڈھونڈ نہیں سکا ۔ آپ یہ سوچیں کہ جب آپ مر رہے ہوں گے‘ تو کس قدر قابلِ رحم ہوں گے؟ اپنے تمام اہل و عیال سے جدائی کا تصور انسان کو لرزا کر رکھ دیتا ہے ۔
ہر جاندار کو اپنی زندگی میں ایک خاص مقدار میں تکلیف سے گزرنا ہے ۔ انسان چاہے ارب پتی ہو‘ باکسر محمد علی کی طرح ‘ اسے اس تکلیف سے لازماً گزرنا پڑے گا۔ اس کی دولت ‘ اس کے ماں باپ اور بیوی بچّے اسے اس تکلیف سے بچا نہیں سکتے۔ پتے اور گردے میں‘ اگر پتھری اپنی جگہ سے حرکت کر رہی ہو یا سانس کے راستے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہوتو جاندا رکو تکلیف سے بہرحال گزرنا پڑتا ہے ۔گو‘ انسان نے pain killersایجاد کر کے ‘ ریڑھ کی ہڈی میں سے درد کی ترسیل روکنے کی سائنس سمجھ کر بہت بڑے ریلیف کا شارٹ کٹ دریافت کر لیا ہے ۔ بے شمار لوگ ہیں ‘ جو ساری زندگی pain managementپہ گزارتے ہیں اور حتی الامکان تکلیف سے بچے رہتے ہیں ۔ 
دولت مندوں کو بھی تکلیف سے گزرنا پڑتاہے ۔ سونے کی تجارت کرنے والے ایک شخص کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے ۔ اس نے گردہ ٹرانسپلانٹ کرایا۔ ٹرانسپلانٹ کرانے کے بعد امیون سسٹم کو کمزور کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں‘ تاکہ جسم باہر سے آئے ہوئے اس عضو کو مسترد نہ کرے۔ امیون سسٹم کمزور ہونے کے نتیجے میں وہ کئی سال مسلسل بیمار رہا ۔ یہی سب ایک وکیل کے ساتھ ہوا‘ جو بھارت سے جگر ٹرانسپلانٹ کروانے کے بعد اپنی موت تک شدید بیماریوں کا شکار رہا ۔ 
جب ایک جاندار دنیا میں اپنے حصے کا رزق کھا چکا ہو اور وہ موت والی جگہ پر آجائے ‘تو پھر موت کا درد شروع ہو جاتاہے ۔ قرآن میں لکھا ہے کہ زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ‘ جس کا رزق خدا کے ذمے نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں ٹہرے گا اور کہاں سونپا جائے گا ۔ کیا کبھی کوئی تصور بھی کر سکتا تھا کہ معمر قذافی ایک سڑک پر تشدد سے ہلاک ہوگا ؟ 
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے ‘ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک مخلوق کی ہلاکت دوسری مخلوق کے فائدے کا سبب بنتی ہے ۔ آج ہم جو کوئلہ‘ تیل اور گیس استعمال کررہے ہیں ‘ یہ کروڑوں سال پہلے جنگلات اور جانداروں کے زمین میں دفن ہونے سے وجود میں آئے تھے ‘ اسی طرح جب ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ڈائناسار ایک بہت بڑے حادثے (مبینہ طور پر ایک دم دار ستارے کے زمین پر گرنے سے )میں ختم ہوئے تو میملز کا سنہری دور شروع ہوا۔ اس کے بعد میملز پورے کرّہ ٔ ارض میں پھیلتے چلے گئے ۔ اگر آپ تاریخ کے بڑے حادثات دیکھیں ‘ جیسا کہ ڈائناسارز والے عہد میں دم دار ستارے کا گرنا یاآئس ایجز کو دیکھیے تو آپ کو آسٹریلیا کی آگ ناقابلِ ذکر محسوس ہوگی۔ ڈائنا سارز والے حادثے میں کرّہ ء ارض کی ستر فیصد سپیشیز ہی ختم ہو گئی تھیں ۔ اس وقت کا ماحول اگر ہم دیکھ لیتے تو قسم اٹھا کر کہتے کہ اس زمین پر آئندہ کوئی جاندار جنم نہ لے سکے گا۔ آج دیکھیے‘ کیسے یہ سیارہ زندگی سے لبریز ہے ۔ 
کسی کو مرتے ہوئے دیکھیں تو ترس تو بہت آتا ہے ‘لیکن دنیا میں کیا کوئی ایسا جاندار بھی ہے ‘ جسے نہ مرنا ہو ؟ اور سب سے زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے جن بچوں کو سینے سے لگائے پھرتے ہیں‘ انہیں بھی تو ایک دن مرجانا ہے۔اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی متوقع موت کا صدمہ انسان کو نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہی نہ چھوڑے ۔ اس کے باوجود انسان کس طرح اس خوفناک حادثے سے کنی کتراتے ہوئے پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ انسان کس طرح غم سے نظریں چراتے ہوئے دنیا میں خوشی کشید کرنے کی کوشش کرتا ہے ‘ اسے آپ پالتو جانور پالنے کے عمل میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ بلی ‘ کتے اور دوسرے جانوروں کا میٹابولزم ہم سے کہیں تیز ہوتا ہے ۔ انسان جو جانور گھر میں پالتا ہے ‘ اس نے یقیناً دس بارہ سال کے عرصے میں مر جانا ہوتاہے ۔ اس کے باوجود انسان ایک جانورپالتاہے ‘ اس سے محبت کرتاہے اور پھر اس کی بیماری اور موت سے آزردہ ہوتاہے؛حالانکہ انسا ن ویسے تو کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا ۔
وہ ذاتِ قدیم فرماتی ہے : کل من علیہا فان ۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہے ‘ سب فنا ہو جانے والا ہے ۔ اور باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ ‘ عظمت اور بزرگی والا۔
معاملات سارے کے سارے خدا کے ہاتھ میں ہیں ۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں آج جو کچھ ہورہا ہے ‘ اس سے کہیں بڑے واقعات سے کرّہ ٔ ارض کی تاریخ بھری پڑی ہے ۔ آگ بجھانے کی کوشش کی جا سکتی ہے اور جانوروں کی جان بچانے کی بھی ۔ دو عالمی جنگوں میں اپنے جیسے دس کروڑ انسانوں کا خون بہانے والا آدمی ‘لیکن خدا نہیں بن سکتا۔ انسان‘ اگر دُوراندیش ہوتو ہر مرنے والے جاندار میں اسے اپنا آپ نظر آنا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved