تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-01-2020

دو لگاؤ، تیرہ ملے گا

لاہور جانا تھا ۔ ارشد شریف اور صابر شاکر کے ساتھ پلان بنا اور ہم تینوں اکٹھے ہی نکل پڑے۔ دنیا گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود کے صاحبزادے حمزہ محمود کی شادی تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت بڑے عرصے بعد کسی فنکشن میں دیکھی اور بڑے عرصے بعد ہی کارڈ پر لکھا ہوا تھا: کوئی تحفہ نہ لائیں نہ ہی سلامی‘ آپ کا آنا ہی تحفہ ہے۔ پھر بھی ارشد شریف اور میں نے دولہے کو سلامی دینے کی کوشش کی تو میاں عامر محمود صاحب نے ہنس کر کہا: اسلام آباد آکر لے لوں گا‘ ابھی رہنے دیں۔
سابق پولیس افسر عابد باکسر کو پہلے ٹی وی پر دیکھا تھا یا اخبارات میں ان کی خبریں پڑھی تھیں ۔ ان سے پہلی دفعہ ملاقات ہورہی تھی۔ وہ ہماری ہی میز پر بیٹھ گئے اور اپنے مقدمات کے بارے میں بتانے لگے کہ عدالتوںنے انہیں مقدمات سے بری کر دیا تھا‘ نام ای سی ایل پر تھا وہاں سے عدالت کے حکم سے نکلا تو پھر وزارتِ داخلہ نے پاسپورٹ بلیک لسٹ میں ڈال دیا۔ اسی میز پر ستار خان‘ خاور گھمن‘ محمد عمران ‘ ابوذرسلمان نیازی‘ فضل‘ عدیل وڑائچ اور دیگر دوستوں سے بھی ملاقات ہوگئی۔ مظفرآباد سے آئے صحافی دوست طارق نقاش کے ساتھ گپ شپ لگی ۔ عدلیہ پر کوئی بات چھڑی تو میں نے کہا: ایک بات لکھ کر رکھ لیں کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں بڑھتا جب تک وہاں عدالتیں اور میڈیا ذمہ داری کے ساتھ آزاد نہ ہوں۔ آج کل فیشن چل نکلا ہے کہ میڈیا کو گالی دو اور چند لوگوں کی وجہ سے ایسے ظاہر کرو جیسے آسمان گر پڑا ہے‘ لہٰذا ان کے خلاف مزید کارروائیاں کرو۔ میں نے کہا: یہ کہنا غلط ہے کہ میڈیا مادر پدر آزاد ہے۔ ہمارے لیے بھی قوانین ہیں اور ہم ہر جگہ مقدمات کا سامنا کرتے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں ہر روز پیمرا نے ٹی وی چینلز اور اینکرز کو بلایا ہوا ہوتا تھا اور روز سمری ٹرائل کے بعد سزائیں دینے کا رواج عام تھا۔ عدالتوں میں اس کے علاوہ روز مقدمے ہوتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیں بے قصور ہیں وہ جا کر پیمرا اور عدالتوں سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ عامر متین‘ ارشد شریف اور خود میں نے نواز شریف کے دور میں تیرہ مقدمات پیمرا میں بھگتے‘ درجنوں پیشیاں بھگتائیں‘ گھنٹوں دفاتر کے باہر بٹھا کر انتظار کرایا گیا اور ہم نے کیا‘ لیکن کبھی ہم نے احتجاج نہیں کیا‘ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کسی بھی وزیر یا اہم عہدے دار کا قانونی‘ اخلاقی حق بنتا ہے کہ اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ ہم نے کچھ غلط بولا ہے تو وہ ہمیں عدالتی فورم پر لے کر جائے۔ اگر ہم وہاں اپنی خبر یا اپنا فائل کیا ہوا سکینڈل ثابت کرنے میں ناکام رہیں تو پھر قانونی سزا ملنی چاہیے۔ اللہ کی مہربانی سے عامر متین اور میں خود ہر پیشی پر پیمرا میں پیش ہوتے رہے اور سب مقدمات ہم نے ثبوتوں کی مدد سے جیتے‘ حالانکہ شریف حکومت کی بڑی کوشش تھی کہ کسی طرح ان کو سزائیں دلوائی جائیں۔ ہم نے مظلوم بننے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے خلاف کیوں شکایت فائل کی گئی ہے۔ لیکن کچھ عرصے سے پی ٹی آئی کے وزیروں میں ایک تبدیلی آرہی ہے‘ یہ چاہتے ہیں کہ یہ ایک خط پیمرا کو لکھیں اور فوجی طرز کی عدالتوں پراینکرز یا صحافیوں کو بلا کر دوسرے دن سزا دے دیں۔ ان وزیروں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ اگر پیمرا میں کوئی چینل دفاع نہیں کرسکتا تو وہ عدالت میں کیوں چلا جاتا ہے؟ وہ اس چینل کو عدالتی دفاع کا حق دینے سے بھی انکاری ہیں۔ پیمرا میں ہر مقدمے کا فیصلہ دو تین ماہ کے اندر ہوجاتا ہے‘ اس سے زیادہ سپیڈی عمل اور کیا ہوتا ہے؟ پھر ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ حکمرانوں اور وزیروں کے ایک خط پر اینکر کو اٹھا کر جیل پھینک دیا جائے‘ نہ کسی کو نوٹس ہو اور نہ ہی کوئی وہاں اپنی صفائی پیش کرے۔ کچھ اینکرز حدود کراس کرتے ہیں تو بہتر ہے ان کو قانونی طور پر ڈیل کیا جائے۔ ان کیخلاف قانونی کارروائی کریں‘ لیکن یہ توقع رکھ لینا کہ حکومت کے ہروزیر کے خط پر فوراً بندے کو پھانسی لگا دیں یہ غلط بات ہوگی۔ لیکن ہمارے چند صحافی دوستوں کی وجہ سے میڈیا کیلئے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔اگر اینکر دوستوں کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو پھر انہیں کوئی حق نہیں کہ پروگرام کریں اور اپنے ساتھ دیگر دوستوں اور میٖڈیا کو بھی خراب کریں اور حکومت کو موقع دیں کہ وہ آزادی بھی چھین لے جو تھوڑی بہت ہے۔ یہ میڈیا کیلئے نادان دوست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ دراصل حکومت کاکام آسان کررہے ہیں کہ وہ میڈیا کو دبا دے۔ غلطی دو تین لوگ کریں لیکن بھگتیں گے سب۔ 
ارشد شریف لاہور جانے کے لیے اپنا ٹی وی پروگرام ریکارڈ کرا کے گیا تھا اور وہ اس وقت ہی چل رہا تھا جب ہم شادی میں شریک تھے اور اس وقت ہی سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر میسجز آنے شروع ہوگئے۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ جو گفتگو پروگرام میں کی گئی وہ اصل تھی۔ واقعی ایسے ہی ہوا تھا جیسے بتایا جارہا تھا؟ میں نے فون ارشد شریف کو دکھایا کہ حضور ملاحظہ فرمائیں ‘رولا پڑ گیا ہے۔ لوگ پوچھنے لگے کہ اس ملک کو کب تک نوچا جائے گا اور ان لوگوں کا دل کھا کھا کر کیوں نہیں بھرتا۔ کسی کو مرنا یاد نہیں رہا۔ میں چپ چاپ سنتا رہا ۔ 
ارشد شریف کے پروگرا م میں سابق وفاقی وزیر زبیر خان جو ماہر معیشت بھی ہیں نے انکشاف کیا تھا کہ جب سے حفیظ شیخ مشیرخزانہ بنے ہیں اور سٹیٹ بینک کے نئے گورنر باقر نے چارج سنبھالا ہے‘ ایک نیا کام ہورہا ہے‘ ایک ارب ڈالرز سے زائد پاکستان میں کچھ سرمایہ کاروں نے رکھوایا ہے‘ جس پر پاکستان تیرہ فیصد کے قریب پرافٹ یا مارک اپ دے رہا ہے۔ زبیر خان بولے: ہو یہ رہا ہے کہ دنیا بھر سے جو ایک ارب ڈالر پاکستان میں رکھا ہوا دکھایا گیا ہے وہ چند کمپنیوں کا پیسہ ہے۔ امریکہ میں آپ پونے دو فیصد پر بینک سے قرض لیتے ہیں ‘وہ کمپنیاں دو فیصد کی بجائے پاکستان کو تیرہ فیصد پر قرض دے رہی ہیں یا وہ رقم یہاں سیونگ میں رکھوا رہی ہیں۔ وہ اگر دو فیصد مارک اپ پر قرضہ لے رہی ہیں تو گھر بیٹھے پاکستان سے نو سے دس فیصد پرافٹ کما رہی ہیں ۔ اور وہ جب چاہیں یہ سب ڈالرز نکال کر لے جائیں۔ ان کا کہنا تھا جب بھی ان عالمی اداروںکا دل کرے گا پاکستان کی گردن دبوچنی ہے تو وہ یہ ایک ارب ڈالرز کسی وقت نکال سکتے ہیں اور ڈالر کا ریٹ پھر اوپر چلا جائے گا ۔ 
ارشد شریف نے مجھے یاد دلایا کہ کبھی میں نے اسحاق ڈار پر مسلسل وہ سکینڈلز فائل کیے تھے کہ کیسے انہوں نے نیویارک میں پانچ سو ملین ڈالرز کے یورو بانڈز فلوٹ کیے تھے اور دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ لیا تھا۔اس قرض کا مارک اپ سوا آٹھ فیصد تھا جس پر پورے ملک میں رولا پڑ گیا ۔ اب پتہ چلا ہے کہ انٹرسٹ ریٹ تو تیرہ فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اگر ایک ارب ڈالر اکٹھا کرنے ہی تھے تو دوبارہ بانڈز جاری کیے جاسکتے تھے جس کا پرافٹ یا مارک اپ دو سے تین فیصد تک ہوتا ہے۔ یہ تیرہ فیصد تک کا پرافٹ یا مارک اپ کس کا آئیڈیا تھا اور کون اس میں سے بیٹھے بٹھائے مال بنا رہا ہے؟ زبیر خان کی حیرانی ختم نہیں ہورہی تھی ۔ وہ بولے یہ سب کچھ پاکستان کے خلاف جرم ہے‘ جس نے بھی یہ سکیم بنائی ہے کہ پاکستان کو تیرہ فیصد پرپیسے بھجوا دو۔ دبئی تک نے پاکستان کو تین ارب ڈالرز تین فیصد پر ادھار دیے اور ہم یہاں تیرہ فیصد پر انٹرسٹ ریٹ دے رہے ہیں۔ زبیر خان نے بتایا کہ پاکستان میں لوگوں کی کھال کھینچ کر جو ٹیکس اکٹھا ہورہا ہے اس کا پچاس فیصد ان سود خوروں کی جیب میں جارہا ہے۔ زرداری دور میں سود کی ادائیگی ایک ہزار ارب سالانہ تھی جو پچھلے سال تک انیس سو ارب تھی اور اب تین ہزار ارب تک پہنچ گئی ہے اور یہ سب پیسہ یہی لوگ کھا رہے ہیں جنہیں اتنا مارک اپ دیا جارہا ہے۔ 
ہم منہ میں انگلیاں دبائے حیرانی سے سن رہے تھے۔ اس ملک میں کیسے کیسے فراڈیے آجاتے ہیں اور کیسی کیسی سکیمیں سوچ لیتے ہیں۔ ہم اسحاق ڈار کو بڑا وارداتیہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ سوا آٹھ فیصد پر قرض لے آئے تھے۔ یہاں تو بات تیرہ فیصد تک پہنچ چکی ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ میں شرطیہ کہتا ہوں وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کو بھی علم نہیں ہوگا۔ دو فیصد مارک اپ پر قرض لو اور آگے پاکستان کو تیرہ فیصد پر دے دو۔ دو کا تیرہ... دو کا تیرہ... 
ایسی ڈیل اور ایسا ملک کہاں ملے گا! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved