حزب مخالف کی جماعتیں جمہوری عمل کا اٹوٹ انگ ہوتی ہیں؛ چنانچہ اگر حزب اقتدار اور حزب اختلاف پارلیمانی حدود و قیود اور روایات کے اندر رہتے ہوئے ورکنگ ریلیشن شپ بنانے میں ناکام رہیں تو جمہوری نظام ہمواری کے ساتھ نہیں چل پاتا۔ بنیادی طور پر جمہوریت کی خوبی حزب اختلاف کے کردار کی نوعیت اور حکومت و اپوزیشن کے مابین باہمی تال میل کی حرکیات سے متعین ہوتی ہے۔
پاکستان میں حکومت اور حزب مخالف میں تعلقات عموماً باہمی آویزش کا شکار نظر آتے ہیں؛ تاہم جنوری کے پہلے ہفتے میں اس حوالے سے بڑی خوشگوار حیرت کا سامان پیدا ہوا۔ حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اپوزیشن جماعتوں، خصوصاً پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے تینوں سروسز سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری و توسیع کے لیے قانون سازی میں تعاون کا نادر و نایاب نمونہ پیش کیا۔ ان سیاسی جماعتوں نے اپنی شورہ پُشت باہمی سیاست سے فوج کو باہر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے علاوہ یہ جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی جانب سے اچھا پیغام بھی دینا چاہتی تھیں کیونکہ پاکستانی سماج اور ریاستی نظام کی مضبوطی کے لیے اس کا (سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ) کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
پارلیمان اور اس سے باہر حزب اختلاف متنوع سیاسی جماعتوں کا مجموعہ ہے۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں جو دونوں ایوانوں اور پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں میں قابل ذکر موجودگی کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اختلاف میں چھوٹے علاقوں / صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتیں شامل ہیں۔ تیسرے درجے میں اسلامی جماعتیں خصوصاً جماعت اسلامی (جے آئی) اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن (جے یو آئی ایف) شامل ہیں۔
یہ سب سیاسی جماعتیں اپنے راہنمائوں کی دست نگر ہیں اور وہ ان جماعتوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر چلاتے ہیں۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی سے اختلاف ان میں قدرِ مُشترک ہے اور یہ پارلیمان یا گلیوں میں شورش برپا کرکے اس حکومت سے نجات کے خواہاں ہیں۔ ان لوگوں کا مطالبہ ہے کہ نئے قومی انتخابات کراکے نمائندہ حکومت تشکیل دی جائے؛ تاہم اب تک یہ جماعتیں حکومت کے خلاف قومی سطح کی تحریک چلانے کے لیے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہیں اور اس کی وجہ ان کا باہمی عدم اعتماد اور متحارب سیاسی ایجنڈے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کوشش کی کہ وہ سیاست میں اپنے لیے کرئی بڑا کردار حاصل کر سکیں۔ اس کی تہہ میں یہ خیال کارفرما تھا کہ حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں، پی ایم ایل این اور پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے، جو احتسابی عمل کے شکنجے میں یا بیرونی ممالک میں ہے، غیر متحرک ہونے کے باعث جو خلا ہے اسے وہ پُر کر لیں۔ انہوں نے اکتوبر نومبر میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کے لیے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور اسلام آباد دھرنے کے لیے پی ایم ایل این اور پی پی پی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دونوں جماعتوں نے حمایت کا وعدہ کیا اور ان کے کچھ بڑے راہنمائوں نے دھرنے سے خطاب بھی کیا؛ تاہم انہوں نے دھرنے میں فعال حصہ نہیں لیا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا کے پلڑے میں اپنا پورا وزن نہیں ڈالا کیونکہ اس طرح مولانا اپوزیشن میں مرکزی حیثیت حاصل کر لیتے جو ان دونوں جماعتوں کیلئے قابل قبول نہ تھا۔ جے یو آئی کا دھرنا اپنے مقصد یعنی پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں ناکام ہو گیا۔ مولانا نے سروسز چیفس کی تعیناتی و توسیع کے بِل کی مخالفت کرکے ان دونوں جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف غصے کا اظہار کیا ہے۔
گاہے بگاہے پی ایم ایل این اور پی پی پی باہم مل کر پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تنقید کرتی اور اسے بری گورننس اور ناقص سیاسی مینجمنٹ کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کو اشیائے ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور دیگر خدمات کے مہنگے ہونے کا ذمہ دار بھی قرار دیتی ہیں؛ تاہم یہ جماعتیں پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کوئی دیرپا باہمی سیاسی تعلق قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں کیونکہ دونوں جماعتوں کے مابین مخاصمانہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ موجود ہے اور دونوں میں سے کسی ایک جماعت کا دوسرے کی سرکردگی میں کام کرنا اُمیدِ بے کار ہے۔
پی ایم ایل این اور پی پی پی کے مابین مسائل کی ایک وجہ احتساب کا وہ عمل ہے جو قومی احتساب بیورو ان کے مرکزی راہنمائوں کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان جماعتوں کے کچھ راہنما 2008-2018 کے مابین اپنے اقتدار کے دوران مبینہ کرپشن، اقربا پروری اور ریاستی وسائل کے غلط استعمال کے لیے تفتیش، قید، عدالتی کارروائی اور سزائیں بھگت رہے ہیں۔ دونوں جماعتیں اس احتسابی عمل کو اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے حکومت نیب گٹھ جوڑ قرار دیتی ہیں۔ شریف برادران کا علاج کے لیے لندن جانا اور پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی ضمانت ہونے سے کسی نہ کسی حد تک ان کا پارہ نیچے آیا ہے۔احتسابی عمل کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ اس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت اور حزب مخالف کی جماعتوں کے مابین کوئی ورکنگ ریلیشن شپ نہیں بن پایا۔ پارلیمان کے اندر اور باہر ان کے مابین تعلقات اتنے تلخ ہو چکے ہیں کہ یہ مل کر کسی بھی مدعے پر کام کرنے کیلئے تیار نہیں۔ سیاسی مباحثہ تلخ اور غیر پارلیمانی ہو چکا ہے۔
حزب مخالف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اندرونی تنظیمی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ جب سے نواز شریف کا فعال قائد کا کردار محدود ہوا ہے تب سے شاید پی ایم ایل این تبدیلی کے عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ پارٹی کو شہباز شریف اور مریم شریف کی قیادت کے حوالے سے اندرونی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک اور معاملہ یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ یا نئی قیادت اس قابل ہے کہ وہ پنجاب سے باہر بھی جماعت کیلئے انتخابی حمایت پیدا کر سکے۔ پی پی پی کا معاملہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پارٹی میں اپنی قیادت منوانے کیلئے سخت محنت کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے والد، آصف علی زرداری کے سائے سے نکل کر اپنے لیے کوئی آزادانہ کردار پیدا کرنے کے قابل ہو جائیں گے؟ پی پی پی کے لیے ایک اور چیلنج سندھ سے باہر اپنے لیے انتخابی حمایت پیدا کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں، جہاں قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں ہیں، اپنے لیے انتخابی امکانات ممکن بنانا ہوں گے۔
پی ایم ایل این اور پی پی پی کو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے؛ تاہم یہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کے لیے عام انتخابات میں ایک بڑا چیلنج کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مستقبل میں ہم یقینا دونوں جماعتوں میں راہنما خاندانوں کی نئی نسل کو فعال کردار ادا کرتا ہوا دیکھیں گے۔
سیاست کے مایوس کن ماحول میں، حکومت اور حزب اختلاف نے سب لوگوں کو اُس وقت ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا جب انہوں نے فوج کی اعلیٰ سطحی کمان کی تقرری و توسیع کی قانون سازی کے لیے تعاون اور لچک کا مظاہرہ کیا۔ کلیدی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دونوں جماعتیں قومی اہمیت کے دیگر معاملات میں بھی اپنے سیاسی ایجنڈے اور مفادات پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ لچک دار رویے کا مظاہرہ جاری رکھیں گی؟ باہمی تعاون کے رویے کے ساتھ ہی حکومت اور اپوزیشن نیب سے متعلق، چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ممبران کی تقرری جیسے معاملات کا کوئی متفقہ حل نکال سکتی ہیں۔ اس کا بہت انحصار اس بات پر بھی ہے کہ آیا حکومت حزب مخالف سے بات چیت جاری رکھتی ہے یا نہیں۔ حزب مخالف کو بھی پی ٹی آئی حکومت کے سیاسی جواز پر سوال اٹھانے کے رویے میں نرمی لانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی لچک اور مستقل بات چیت حزب مخالف کو اس قابل کرے گی کہ وہ اپنا کردار موثر طور پر نباہے اور اس کے نتیجے میں حکومت کے لیے جگہ بنے گی کہ وہ گورننس کے معیار میں بہتری لانے اور عام لوگوں کی فلاح کی جانب زیادہ توجہ مرکوز کرے۔ اس کی وجہ سے جمہوریت اور سویلین اقتدار کے امکانات بھی بہتر ہوں گے۔