تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-01-2020

گھر تو آخر اپنا ہے!

لفظوں کے لشکری، اوروں کے عسکری ایک بار پھر مایوس ٹھہرے۔ لگتا ہے، 2020 ان کے لئے پانامہ جیسے صدموں کی سیریز لے کر آیا ہے۔
پاکستان نے غیروں کی پراکسی جنگوں میں اُلجھ کر اپنے سینے پر کیا کیا گہرے زخم کھائے‘ یہ کوئی غازیوں سے پوچھے یا شہیدوں کے وارثوں سے۔ فوج کے جرنیل سے سپاہی تک۔ نیوی کے شہدا کیڈٹس سے آفیسرز تک۔ ائیر فورس کے جانباز، جانثار پائلٹ آفیسرز سے سکواڈرن لیڈرز تک۔ پولیس کے فُٹ کانسٹیبل سے ڈی پی او، سی پی او اور ڈی آئی جی تک لیویز، خاصہ دار، رینجرز، پیرا ملٹری فورسز کے جواں سالوں نے قربانیوںکی اس تاریخ میں اپنے لہو سے شجاعت و بے جگری کے علیحدہ علیحدہ روشن باب لکھے۔ 
شہری، بزرگ، بچے، خواتین سمیت۔ بے گناہ اور بے خبر ایسے، جیسے انگریزی محاورے میںکہتے ہیں: At the wrong time at the wrong place.۔ ڈرون حملوں اور خود کش دھماکوں میں جان کی بازی ہارنے والے وہ، وہ معصوم جنہیں معلوم ہی نہیں کہ کس کی جنگ میں اُن کے سروں پر کس کا بارود برس گیا۔
14 سالہ اعتزاز حسن شہید کی کہانی پاکستان کے سینے پر نہ بھرنے والا گھائو بھی ہے اور با افتخار تمغہ بھی۔ مگر اُس سے بھی بہت پہلے واہ آرڈیننس فیکٹری کے گیٹ کے ساتھ سکول کے ننھے منے بچے اور بچیاں خون اور آگ کے شعلوں میں جھلس کر پاکیزگی کی خوشبو کی طرح فضائوں میں بکھر گئے۔ پشاور کے APS میں ظُلم و بربریت کی وحشت ناک داستان لکھی گئی۔ والدین، بھائی بہن، دادا دادی، نانا نانی کے جگر پر لکھی ہوئی اس داستانِ خونچکاں کی ماضی میں کسی بھی جنگ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غیروں کی کرافٹ شدہ پراکسی وار کا ہر شکار کسی نہ کسی کا جگر گوشہ ہی تو تھا‘ بلکہ جگر پارہ بھی اور پاکستان کے ماتھے پر دمکتا ہوا چاند جیسا ستارہ بھی۔
اس لہو ریز تاریخ کے تناظر میں بنیادی سوال یہی بنتا ہے‘ ہم کیوں لڑے؟ کس کے لئے لڑے؟ اور جس کے لئے لڑے، اُس نے پاکستانیوں کے گھروں کے آنگن کو لاشوں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ساتھ معذوریوں اور مجبوریوں کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے؟ وہ بڑے بڑے راہنما جو گُم کردہ راہ تھے‘ اُنہوں نے غیر ملکیوں کی پراکسی جنگوں کو مقدس ناموں میں لپیٹ کر غریبوں کے بچوں کو بَلی چڑھانے کا کاروبار کیا۔ دوسری جانب اُن کے اپنے بچے مدرسوں سے نکل کر امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، بولیویا اور پانامہ کے پاسپورٹ ہولڈرز بن گئے۔ اور ساتھ ہی اُن کی 4 نسلیں چٹائیوں سے اُٹھ کر ارب پتی ہو گئیں۔ لکڑی کے بالے سے بنے ہوئے حجرے، بم پروف قلعوں میں تبدیل ہوتے گئے۔ جو باہر سے شاہی قلعے اور اصل میں اندر سے بادشاہی محل ہیں۔ جو '' تھڑیے‘‘ موٹر سائیکل کو ترستے تھے‘ وہ V8، لکسز (Luxus) اور پورشے میں بیٹھ کر شکمی جہاد کی منزلِ مُراد پا گئے۔ 
سماجی سطح پر وطنِ عزیز کو جدید تاریخ کا سب سے بڑا '' ٹراما‘‘ (Trauma) درپیش ہے۔ 40 سال سے 40 لاکھ افغان مہمانوں کی غیرمشروط میزبانی اور خدمت کا ٹراما۔ ابھی چند سال ہی گزرے ہوں گے، مغربی سرحد کے پڑوسی ملک سے بہت اہم مہمان اسلام آباد پدھارے‘ جن میں پارلیمنٹ کے ممبران بھی شامل تھے۔ ایک پنج ستارہ رہائش گاہ میں ڈائیلاگ برپا ہوا۔ ڈائیلاگ کیا، ایک اُونچے سروں اور چنگھاڑنے والی لَے کاری پہ مبنی قوالی تھی۔ 100 فیصد بے سُری، بے تُکی اور اُتنی ہی بے ہنگم۔ کئی بار جی چاہا اُٹھ کر پوٹھوہاری بولوں مگر ہر بار آدابِ میزبانی آڑے آتے رہے۔ اس اکٹھ میں sub-nationalism کے نام پر سیاست کرنے والے کچھ پاکستانی چہرے بھی تھے۔
جب گفتگو کیلئے میری باری آئی تو میں نے پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے افغان کارپٹس کی دُکانوں کی تعریف سے آغاز کیا۔ ٹھیلوں پہ بکنے والے کابلی پلائو کو لذیذ قرار دیا۔ افغان ریسٹورنٹ کے تِکّے اور کباب کی لذت آفرینی کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ افغان درزی خانوں کے کپڑوں اور کشیدہ کاری کو سراہا۔ ٹرالرز، بلڈوزرز، ہیوی مشینری، دکانوں اور افغانی مال سے اَٹّے ہوئے بازاروں کی مدح سرائی کے بعد Lighter mode میں ایک سوال پوچھا۔ پشتو اور درّی زبانوں میں مِلا جُلا لہجہ اپنا کر۔ عرض کیا: میں آپ کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی معلومات کی کمی پر آپ سے معذرت کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میری معذرت قبول ہے تو ایک سوال پوچھنے کی اجازت دے دیں۔ سب نے ہونٹوں کی زِپ کھول کے بھرپور مسکراہٹ کی عجب کرم فرمائی سے کہا ''پوچھیں، پوچھیں۔ ضرور، ضرور‘‘۔ 
سوال یہ تھا: کابل، زابل، پکتیا، پکتیکا، مزار شریف سے لے کر وادیِ پنچ شیر تک۔ جبلِ سراج سے غزنی تک کسی صوبے یا شہر میں کوئی پاکستانی ریسٹورنٹ آپ نے دیکھا ہے؟ اس پر زور دار قہقہہ پڑا۔ کچھ چہروں پر نا گواری اور سختی اُمڈ آئی۔ میرا نشانہ ٹھیک تھا۔ اس لئے میں نے بِلا اجازت دوسرا سوال بھی پوچھ لیا۔ اور وہ یہ کہ اگر میں کابل کے ظہیرالدین بابر والے باغِ بالا کے سائے میں روٹی پلانٹ یا پھر بگرام ائیر بیس کے راستے میں 10/20کنال کا کوئی پلاٹ خریدنا چاہوں تو زمین کس ریٹ پر ملے گی؟ اس پر ایک صاحب اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ملک بابر ، آپ موضوع سے ہٹ گئے۔ میں نے مسکرا کر عرض کیا: آپ ٹھیک کہتے ہیں‘ لیکن مجھ سے پہلے 7 لوگوں نے جس موضوع پر گفتگو کی‘ وہ تو اس امن جرگے کے کارڈ پر درج ہی نہیں ہے۔ اور یہ کہہ کر اپنی گفتگو ختم کر دی کہ آپ مہمان ہیں‘ جو چاہیں کہہ لیں‘ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ جو کچھ بھی پاکستان نے 40 سال تک مسلسل سُنا ہے‘ اُس میں ایک دن اور سہی۔ یا پھر ایک گناہ اور سہی۔
ہمارے کھیوڑہ پہاڑ سے نکلنے والا گلابی نمک (Pink rock salt) بھارت ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ جو بِن بُلائے مہمان اُسے یہاں کھا کر پاکستان کو گالی بکتے ہیں‘ وہی نمک انڈیا سے امپورٹ کر کے کھاتے ہیں اور انڈیا کے گُن اور بندے ماترم گاتے ہیں۔ یہ سائنس کا کون سا اُصول ہے؟ سمجھنے کے لئے وزیرِ سائنس سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
اپوزیشن کے دنوں میں ہر پاکستانی سائنس دان، بطلِ حریت چی گویرا سے 27 فُٹ آگے اور گلوبل آئی کون (Icon) نیلسن منڈیلا سے صرف 2 انچ پیچھے نظر آتا ہے۔ حکومت میں پہنچ کر جو ہو جاتا ہے وہ آپ سب خوب جانتے ہیں‘ لیکن پاکستان کو نئی امپورٹڈ جنگ میں دھکیلنے کے خواہش مند عمران خان سے سخت مایوس ہوئے ہیں‘ جس نے US-Persia جھگڑے میں فریق بننے سے کھُل کر انکار کر دیا۔ PM نے کہا‘ ہم واضح کرتے ہیں‘ پاکستان اپنی سر زمین کسی غیر مُلکی جنگ میں استعمال نہیں ہونے دے گا۔ پہلے بھی سعودیہ ایران ہائی ٹمپریچر کم کرنے کے لئے کردار ادا کیا۔ اب بھی امن کے قیام اور استحکام کے لئے پاکستان کوششیں جارے رکھے گا۔ گرم بستر میں بیٹھ کر سوشل میڈیا پر جنگ کے نعرے لگانے والے جانتے ہی نہیں کہ جنگ کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے۔ پاکستان پہ سالہا سال تک ڈرون حملے ہوتے رہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے‘ پرشین گلف، عریبین گلف‘ ایفرو (Afro) ایشیائی مسلم ممالک، رابطہ عالمِ اسلامی‘ کس نے پاکستان کے حق میں یا امریکہ کی مخالفت میں کوئی مذمتی بیان جاری کیا؟ کوئی مزاحمتی پالیسی بنائی؟ پراکسیوں کا دُکھ اپنی جگہ لیکن پاکستان تو اپنا گھر ہے۔ جس طرح کوئی بھی اپنے گھر کی ایک اینٹ بھی ہماری مرضی سے نہ لگائے گا‘ نہ ہٹائے گا۔ عین اُسی طرح پاکستان کی پہلی ذمہ داری پاکستان کے مفاد کا خیال رکھنا ہے، کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved