پھر یہ ارشاد کیا: ارادہ تو کرو کہ راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے‘ پہلا قدم! وہی تو نصیب نہیں ہوتا۔ یا رب‘ یا رب! تہران کے افق پر ادھورا چاند ہے اور اداس کرتا ہے۔ گئے زمانے اور گزری ہوئی رتیں یاد آتی ہیں۔ ہوا میں ایسا گداز‘ ایسا رچائو ہے کہ کہانی کہتی ہے۔ وہ منفرد شاعر فراق گورکھپوری یاد آیا‘ جس کی حیات کے آخری ایام اس ملال میں گزرے کہ اردو شاعری کے آفاق پر اقبالؔ کا نہ ختم ہونے والا غلبہ تھا: رات بھی‘ نیند بھی‘ کہانی بھی ہائے کیا چیز تھی جوانی بھی کن چیزوں میں آدمی اپنی زندگی برباد کرتا ہے۔ فراق کو اقبالؔ سے کیا لینا تھا؟ یاس یگانہ چنگیزی کو غالب سے کیوں کد تھی کہ عمر بھر اپنا حریف اسے سمجھتے رہے۔ کیسا جیتا جاگتا کاٹ دار مصرع لکھتے کہ لہو میں برق بن کے تیر جاتا: ؎ کون دیتا ہے دادِ ناکامی خونِ فرہاد‘ برسرِ فرہاد فراقؔ کی طرح ان کی اپنی ہزار رنگوں سے سجی کائنات تھی‘ سہل ممتنع میں جادو جگاتے… حسد! اپنے معدوم ہو جانے کا خوف! آدمی اپنی جبلّتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا اور انہی کی وحشت میں زندگی کرتا ہے‘ حتیٰ کہ سنائونی آ جاتی ہے۔ سورہ التکاثر نے قلب و جاں میں ایک حشر سا برپا کردیا: کثرت کی آرزُو نے تمہیں ہلاک کر ڈالا حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں بے شک جلد تم جان لو گے پھر بے شک جلد تم جان لو گے بے شک جلد تم علم الیقین تک جا پہنچو گے پھر تم جہنم میں ڈالے جائو گے پھر اس روز تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا حیات کیا بجائے خود ایک نعمت نہیں‘ آدمی جس کا انکار کرتا ہے اور کرتا ہی رہتا ہے۔ غورو فکر سے وہ گریز کرتا ہے اور نفس کے فریب میں جیتا رہتا ہے۔ درویش سے پوچھا گیا کہ شیطان آدمی کو گمراہ کرتا ہے یا اس کا نفس؟ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے جو نفس کی زمین میں کاشت کیا کرتا ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے باغ میں ختم المرسلینؐ تشریف لے گئے۔ فاقہ کش‘ نُورِ مجسّم۔ میزبان نے سرکارؐ اور ساتھیوں کے لیے بکری ذبح کی۔ گندم کی چپاتیاں پکائی گئیں جو حجاز کے عرب ضیافت اور تہوار ہی میں گوارا کرتے کہ سخت کوشی کی صحت مند زندگی کو جَو ہی سازگار تھا۔ گوشت کا ایک ٹکڑا آپؐ نے اٹھایا‘ روٹی پر رکھا اور یہ کہا: ’’فاطمہؓ کو دے آئو‘ تین دن سے اس نے بھی کچھ نہیں کھایا۔ پھر یہ ارشاد کیا: ایک زمانہ آئے گا‘ لوگ یہ نعمتیں (فراوانی سے) کھائیں گے اور کفرانِ نعمت کریں گے۔ ایک سوال ہے جو ہمیشہ سے آدمی کے ساتھ لگا ہے۔ زندگی حسنِ ترتیب کے سانچے میں کیوں نہیں ڈھلتی؟ آدم زاد اپنی انفرادی اور اجتماعی ترجیحات طے کیوں نہیں کر چکتا؟ معاشرے یا تو بے مہار آزادی کی طرف جاتے ہیں‘ جیسے قدیم روم اور یونان اور آج کا امریکہ یا پھر ایسے سخت ڈسپلن کی طرف کہ فکرو خیال کے چراغ ہی بجھ جاتے ہیں۔ طالبان کا افغانستان‘ تین صدی پہلے تک چرچ کے تسلّط میں جینے والا یورپ یا قدیم بلکہ جدید دیہی بھارت بھی۔ ایران آ پہنچنے پر یہ سوال مسافر کو اور بھی پریشان کر رہا ہے۔ اچانک اور دفعتاً اس طرح یہاں آنا ہوا کہ گویا ایک صبح نیند سے آدمی اٹھے اور کسی دوسرے دیار میں ہو۔ کل شب شروع ہونے والا سفر ایک سپنے کی طرح لگتا ہے۔ قونصل خانۂ ایران لاہور سے ٹیلی فون آیا۔ پوچھا: کیا آپ 18 مئی کی صبح تہران جانا پسند کریں گے۔ آواز سے جھلکتا ملائم لہجہ! ع یاں شرم آ پڑی ہے کہ تکرار کیا کریں قلب کے نہاں خانوں میں آدمی شکایت پالتا ہے۔ کوئی خواہش کہیں سسکتی رہی۔ 1978ء کے پاکستان میں سب سے پہلے ناچیز نے انقلاب کی اس دھیمی سی دستک پر لکھا جو رضا شاہ پہلوی کے ایران میں سنائی دے رہی تھی۔ اخبار میں میری ذمہ داری عالمی اخبارات کے مطالعہ پر تھی۔ ان میں سب سے اطلاعات کشید کرنے پر۔ نامور شاعر اور سکالر ظہیر کاشمیری اخبار کے مدیر تھے۔ ناکردہ کار اخبار نویس سے ناخوش اور اسے امتحان میں ڈالنے پر تلے ہوئے۔ وہی ظہیر جن کا شعر ضرب المثل ہو گیا ہے: ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں‘ اُجالا ہے ہیرالڈٹربیون سمیت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دفتر سے ہر صبح اخبارات و جرائد کا ایک پلندہ موصول ہوتا اور سب کے سب پڑھنا ہوتے۔ تب خیال تھا کہ یہ سب ایک نا آشنا کو زچ کرنے کا بہانہ ہے۔ آج سوچتا ہوں‘ یہ کتنی بڑی نعمت تھی کہ انگریزی زبان و ادب سے آشنائی ہوئی۔ تحریر اور طرزِ فکر میں اس کا تھوڑا سا رنگ گھلا کہ بوقلمونی سے تنوع ہے۔ تنوع میں وسعت اور وسعت میں بہجت۔ اللہ نے زندگی کو رنگا رنگی اور کشمکش میں پیدا کیا؛ اگرچہ ایک نظم اور ترتیب میں۔ ہم ہی اسے سادہ تر اور سطحی بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے: نظر اٹھا کر رحمن کی کائنات کو دیکھو‘ وہ تھک کر لوٹ آئے گی۔ تم اس میں کوئی خلل نہ پائو گے۔ ملوکیت اور استعمار دشمنی کی چنگاری‘ کچھ اقبالؔ‘ کچھ سوشلزم کی تحریکوں کے طفیل۔ آیت اللہ روح اللہ خمینی طالب علم کے ہیرو ہو گئے۔ ان کی روحانی جہت اور دلدوزی نے اور بھی اکسایا۔ اہلِ وطن کو انقلاب کی خبر دینے کی کوشش کی‘ جتنی کہ ایک معمولی سا اخبار نویس کر سکتا۔ اس پر اطمینان نہ ہوا تو ایرانی انقلاب اور اس کے سربلند اخبار کی شان میں نظمیں لکھیں : ؎ ایک دن تمہارے قدموں کی چاپ نے میرا کھویا ہوا فخر مجھے لوٹا دیا تھا علی شریعتی کو پڑھا اور مسحور ہو رہے ، فکرِ اقبالؔ کی شاخ پر کھلا ہوا ایک پھول۔ اس کی تحریر وں میں حسنِ خطابت کی جلوہ گری، شاعر مشرق کی سی دردمندی اور حیران کن روانی۔ یاد ہے کہ فاروق گیلانی مرحوم کے گھر پہ (یا رب اسے مرحوم بھی لکھنا تھا) ایک بزرگ سفارت کار کو علی شریعتی کے کچھ اقتباسات سنائے تو وہ جھرجھری لے کر سیدھے بیٹھ گئے اور بولے: چھوڑ دو بھائی، چھوڑ دو، ہماری پرسکون زندگی میں چنگاریاں نہ اڑائو، تالاب میں پتھر مت پھینکو۔ یارب‘ یارب! زندگی سکون اور عافیت کیوں طلب کرتی ہے، کشمکش سے گریزاں کیوں رہتی ہے۔ دیکھئے روسی شاعر کب یاد آیا، کیسے دو مختلف منظر، اپنی دو الگ الگ نظموں میں اس نے بیان کیے ہیں: شام ڈھلے نیلی جھیلوں پر میں چلا جاتا ہوں کنکر پھینکتا ہوں اور لہروں میں تمہارا نام سنتا ہوں میں وہ ہوں کہ سرکشی میں الف ہوجانے والے گھوڑے کی کمر اس طرح میں توڑ دیا کرتا ہوں جس طرح کنیز کی مرضی مسترد کردی جائے قصیدے ہم نے بہت لکھے اور ان کا چرچا بھی ہوا مگر ایرانی انقلاب کے علم برداروں نے کچھ زیادہ ہی قابلِ اعتنا سمجھا نہیں۔ دوچار بار سفارت خانے بلائے گئے۔ سادہ مگر دلپذیر پکوان کھائے۔ شامی کباب، زعفرانی چاول، دال اور سلاد، شگفتہ ماحول‘ انقلاب کے چمپئی‘ گلابی اور دھانی رنگوں سے گندھی گفتگو مگر ایران کے دورے کی دعوت کبھی نہ ملی۔ ایک جگ بیت گیا۔ دل کے کسی گوشے میں شاید کوئی خیال جاگتا رہا۔ کچھ تمہارا حق جاناں! اس بے ریا محبت کے صلے میں: ؎ مگر اک بات اے حُسنِ گریزاں جنہوں نے صرف تیری بندگی کی وہ بات جو برنگِ دگر، میں کپتان سے کہتا ہوں مگر شاعری سے نابلد آدمی کے ادراک میں نہیں آتی۔ خواب کی شراکت داری… رومان کے مذہب میں‘ خواب کی شراکت داری کے بعد اجنبیت کفر ہے۔ بے حسی سے بدتر۔ زندگی لیکن ارضی حقائق سے اپنی ردا بُنتی ہے اور بیگانہ ہوجاتی ہے۔ زخم دیتی اور چوٹ لگاتی ہے۔ کسک باقی رہ جاتی ہے اور سپنے کے سنہری رنگ گزرے وقت کی موج میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ پنجاب کی اسی نادر روزگار شاعرہ امرتاپریتم کے کچھ مصرعے منوبھائی نے نقل کیے تھے، جس نے ہمیشہ کہرام برپا کرنے والا وہ مشہور مصرع تراشا تھا: ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ اٹھ قبراں وچوں بول۔‘‘ تہران کے نیلے آسمان تلے، ہوٹل پاسبانِ انقلاب کے کمرہ نمبر 822میں، کشادہ جھروکے سے جڑا بیٹھا، میں یادداشت کی نیم تاریک کان میں سے ان مصرعوں کے ہیرے ڈھونڈتا ہوں: سفنے دا اک تھان اُنایا گزکوکپڑا پاڑ لیا تے عمر دی چولی سیتی (خوابوں کی طویل ردابنوائی گئی لیکن پھر بالشت پھر پارچہ کاٹ کر زندگی کا چھوٹا سا ملبوس سیا)۔ اب اسداللہ غالب آتے ہیں۔ 1857ء کے بعد جداہونے والے ایک ہم نفس کو انہوں نے لکھا تھا: ’’تمہارے خط نے میرے ساتھ وہ کیا، جو پیرہن نے یعقوبؑ کے ساتھ کیا تھا‘‘۔ اس آدمی کے دل کا حال بھی وہی ہے، آغاز شباب میں جس نے انقلاب کی آرزو پالی تھی۔ اپنا خون پسینہ اور آنسو کی قدر کرنے کی قسم کھائی تھی۔ وہ انقلاب کہاں ہے؟ ایران میں؟ پاکستان میں؟ کشمیر میں؟ کہیں بھی نہیں‘ بخدا کہیں بھی نہیں… اے آرزوئے انقلاب تو نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو ازل سے بُت‘ عُشاق کے ساتھ کرتے آئے ہیں: بوئے گل‘ نالۂِ دل‘ دُودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا نہیں، بخدا انقلاب نہیں، زندگی نظم و ترتیب میں ہے۔ تعلیم‘ تربیت‘ تخلیق اور شائستگی میں نموپاتی ہے۔ جدوجہد مگر حسنِ انتظام میں۔ مشکل دوسری ہے، خواب سچا ہو تو آدمی کو خود اپنی جان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ ترک نہیں کیا جا سکتا، جیسے ماں باپ اپنی اولاد کو ترک نہیں کرسکتے، خواہ اولاد انہیں چھوڑدے۔ کل صبح سویرے مشہد جانا ہے۔ امام رضا رحمتہ اللہ علیہ اور عباسی خاندان کے باجبروت حکمران امیرالمومنین ہارون الرشید کا مشہد۔ یارب! آخر کو بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں؟ آخر کو بس قبریں ہی باقی بچتی ہیں؟ پرسوں پرلے روز درویش نے اچانک یہ کہا: عمر بھر کی ریاضت کے بعد اب میں سوچتا ہوں: سب کچھ زائد ہے، حتیٰ کہ تصوف بھی‘ بس ایک یادِ الٰہی، بس اس کے بندے کہ ان سے الفت اور انس کا برتائو کیا جائے۔ پھر یہ ارشاد کیا: ارادہ تو کرو کہ محبت کی راہ میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے۔ پہلا قدم! وہی تو نصیب نہیں ہوتا، یارب، یارب!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved