تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     11-01-2020

خاموشی اتنی بھی پُراسرار نہیں!

سیاست ہو یا معاشرت، خموشی بھی ذریعۂ اظہار ہوتی ہے۔ جو بات کسی وجہ سے زبان پہ نہیں آ سکتی، یا نہیں لائی جا سکتی، وہ چہرے کے تاثرات اور اشاروں سے بیان کی جا سکتی ہے‘ اور خاموشی کی اس زبان کا اظہار انسان کی فطری صلاحیتوں میں پوشیدہ ہے۔ جو بات چند روز سے ایک سے دوسرے کان میں سرگوشیوں کی صورت میں مسلسل گردش کر رہی ہے، یہ ہے کہ حکومتی جماعت اور حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتوں نے فقیدالمثال یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کے ایوان بالا میں مدت ملازمت میں توسیع کا ترمیمی بل جب پیش کیا گیا تو فقط بیس دقیقوں میں سب نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ کچھ ایسی جماعتیں بھی ایوان میں موجود ہیں جو کبھی اپنے طور پر اقتدار میں آنے کا خواب تو رکھتی ہیں، مگر ان کے خیالات کی پرواز زمینی حقیقتوں سے کہیں دور رہتی ہے۔ ان کی طرف سے خفیف سی آوازیں تو اٹھیں لیکن وہ اتنا بھی بلند نہ ہو سکیں کہ سرکاری چینل کے مائیک کی گرفت میں ہی آ جاتیں۔ عین ممکن ہے‘ ان آوازوں کو کسی حکمتِ عملی کے تحت خاموش کرا دیا گیا ہو یا یہ آوازیں بلند کرنے والے خود ہی نہ چاہتے ہوں کہ ان کی آواز کہیں سنی جائے‘ لیکن جن بڑے سیاسی رہنمائوں اور بڑی جماعتوں نے برسوں سے مزاحمتی بیانیہ اختیار کر رکھا تھا، اور جو نظریاتی روپ دھار کر ایک عرصہ سے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کئے ہوئے تھیں‘ انہیں کیا ہوا کہ ایسا یُو ٹرن لیا‘ جس نے عمران خان کے تمام یُو ٹرنوں کو اگر تحلیل نہیں تو بے رنگ ضرور کر دیا۔
یہ ناچیز ذاتی طور پر میاں نواز شریف کے فیصلے کر درست سمجھتا ہے۔ سیاست زمینی حقیقتوں کی بنیاد پر اور ان حقیقتوں کے مناسب ادراک کے تحت کی جاتی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں نظریاتی سیاست دم توڑ چکی ہے۔ نظریات اب بھی اہم ہیں کہ ان سے سیاست، معاشرت اور معیشت کی تعمیر اور ترویج ہوتی ہے اور نظریات کے بغیر سیاسی مسابقت اقتدار کی جنگ، ذاتی مفادات کے حصول اور مصلحت کیشی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آج کے دور میں اب ایسا ہی ہے، اور وطن عزیز میں تو مفاد پرستی کی سیاست کئی دہائیوں سے غالب آ چکی ہے۔ نظریات کی بات محض ملمع کاری کیلئے رہ گئی ہے۔ عملی سیاست کی حرکیات ایسی ہیں کہ ہمارے قائدین جس طرح کام نکلتا ہے، نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نظریاتی ٹکرائو ہو، تضادات ہوں یا کھلی فریب کاری، وہ سب معاملات کو کچھ مبصرین اور اپنے ہرکاروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ گزشتہ اگست میں جب تحریک انصاف کی حکومت نے سپہ سالار جناب قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے احکامات جاری کیے تھے، تو نہ صرف پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بلکہ اکثر مبصرین کی جانب سے بھی شدید تنقید دیکھنے اور سننے میں آئی تھی۔ معاملات اس وقت زیادہ بگڑے جب کسی کی جانب سے ان احکامات کے خلاف عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کرائی گئی۔ اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے مزید کئی سوالوں کو جنم دیا‘ جن کے جواب کسی سے ابھی تک بن نہیں پا رہے۔ وقت کی گرہیں جب کھلیں گی تو شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ ابھی معاملات کا دھندلکا اور ماحول کی ابر آلودگی قائم ہے۔ اس بارے میں ناچیز کی رائے ہے، مگر کچھ عرصہ اور انتظار کرنا ہو گا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا محدود دورانیہ ہماری تاریخ میں جمہوریت کی بالا دستی کی واحد مثال ہے۔ اس کے بعد نہ چراغوں میں تیل‘ نہ ہی روشنی رہی۔ میاں نواز شریف اور ایسے کئی دوسرے نئے چہروں کو اس وقت کی آمرانہ حکومت نے بھٹو کی سیاسی وراثت کے مقابلے میں تیار کیا تھا۔ ریاست کی طرف سے وسائل اور حمایت جن کو بھی حاصل رہی وہی سیاست میں کامیاب رہے۔ بھٹو صاحب خود بھی ایسی ہی ایک حکومت کے اہلکار کے طور پر ابھرے اور نمایاں ہوئے۔ بھٹو صاحب اور میاں نواز شریف دونوں نے بعد ازاں اپنا الگ سیاسی مقام بنا لیا۔ دونوں کو درپیش حالات، سیاسی ماحول، تضادات اور کشیدگیاں مختلف نوعیت کی تھیں۔ میاں صاحب اور بھٹو صاحب کی سیاست کو اس بنیاد پر قبول یا مسترد کرنا کہ وہ ''فوج کی پیداوار‘‘ تھے، سیاسی حقائق کے خلاف نظر آتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی عوامی جماعت تھی اور مسلم لیگ نون بھی۔ دونوں کو عوامی حمایت کے ساتھ ساتھ نامور سیاسی خاندانوں کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا پاکستان کی سیاست پر چالیس سالہ غلبہ عوامی حلقوں اور انتخابی سیاسی خاندانوں کی حمایت کا مرہونِ منت ہے۔
ضیاالحق کا دور ختم ہوا تو جمہوریت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو نظریات کے بجائے عملیت پسندی کی سیاست کی۔ روٹی، کپڑا اور مکان وغیرہ جیسے نعرے زبان پہ تو رہے مگر یہ دل و دماغ سے ایک خیالِ بد کی طرح نکل چکے تھے۔ مقتدر طاقتوں کی باتوں کو غور سے سنا، انتقام سے اجتناب کیا۔ کچھ شرائط بھی رکھی گئیں۔ سب مان لیں۔ عوامی حکومت والے ہمیشہ کہتے ضرور رہے کہ اقتدار مکمل نہیں ملا، پھر بھی اگر وہ ملک اور عوام کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتے تو نہ ذرائع کی کمی تھی، اور نہ اختیارات کی۔ ان کے پہلے اور دوسرے دور میں جو ترجیحات بنیں، ان کے نشانات، شواہد اور تضادات سب کے سامنے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں جب انہیں موقع ملا، تو فوراً باہمی مفادات کی بنیاد پر تعاون کے لیے تیار ہو گئیں۔ انہیں پاکستان کی سیاسی حسیات کا بے پناہ فہم تھا۔ عالمی اور قومی طاقت کے توازن کو بھی انہوں نے سمجھ لیا تھا، اور اس سے کہیں زیادہ سیاست کا یہ ابدی راز انہوں نے جان لیا تھا کہ سیاست حصول اقتدار کیلئے ہے، خشک نظریاتی جنگیں لڑنے کیلئے نہیں۔ عوام اور عالمی برادری کے سامنے وہ نواز شریف صاحب سے ''معاہدۂ جمہوریت‘‘ پر دستخط کر رہی تھیں اور خفیہ طور پر مشرف کے نمائندوں سے مذاکرات۔ وہ شہید نہ ہو جاتیں، تو مشرف صدر اور وہ وزیر اعظم ہوتیں‘ سب طے تھا۔ ان کی شہادت کے بعد بھی یہی ہوا۔
اب میاں صاحب کی طرف آتے ہیں۔ جلا وطنی سے واپس آئے تو ان کے حمایتی حلقے پنجاب میں بدستور قائم تھے۔ بہت کم وقت میں انہوں نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اقتدار حاصل کر لیا اور پھر تیسری باری میں وفاق میں بھی۔ ظاہر ہے عوامی حمایت کا نشہ، عالمی سطح پر قد و قامت میں اضافہ، اور کچھ کر گزرنے کے خواب غالب آ گئے۔ جمہوری بالا دستی کے دو نسخے تاریخ میں رائج رہے ہیں۔ ایک یہ کہ آئین اور قانون کے سہارے، سب ریاستی اداروں کو اپنے زیر اثر لائیں۔ دوسرے، عوام میں کارکردگی کی بنیاد پر، آپ کا مقام ایسا ہو کہ جمہوریت بالا دست ہو جائے۔ میاں صاحب نے پہلا طریقہ اختیار کیا، اور بے حد ناکام رہے‘ جبکہ ترکی میں اردوان نے دوسرا راستہ چنا اور انہونی کو ہونی کرکے دکھا دیا۔
چار سال میاں صاحب نے ''نظریاتی‘‘ سیاست کی نذر کر دیئے۔ بیانیہ اشاروں کنایوں میں سیاست میں فوج کے کردار کے خلاف رہا۔ ایسے بیانیوں کی حمایت کرنے والوں کی کمی نہیں، مگر نظریاتی لوگ اپنی زندگیاں آرام کرسیوں، قہوہ خانوں اور سگریٹوں کا دھواں اڑانے کی نذر کر دیتے ہیں۔ اس چنائو کا اپنا کیف اور اپنی لذت ہے مگر اقتدار کی سیاست کے بھی اپنے دائمی اصول ہیں، جو رسمی اخلاقیات، فلسفیانہ الجھنوں اور تضادات کے خوف سے متاثر نہیں ہوتے۔
گزشتہ چند سالوں سے اور خصوصاً چھ ماہ سے بہت شور تھا۔ کان پھٹے جا رہے تھے۔ رموزِ سیاست سے جو واقف تھے، وہ کچھ خاموش تماشائی سے تھے۔ اب سمجھ آیا، کیوں ایسا تھا۔ جمہوریت کی بالا دستی سب کی خواہش ہے، وہ قائم بھی ہو سکتی ہے، اور ایک دن ضرور ہو گی، مگر اس کی اساس اور جوہر‘ دونوں کارکردگی میں ہیں، اداروں سے ٹکرائو میں نہیں۔ مسابقت کی سیاست اب تک لفظی، من گھڑت اور افسانوی بیانیوں سے مرتب رہی ہے۔ ترکی ہمارے سامنے مثال ہے، کر دکھائیں گے، تو بہت کچھ کر گزریں گے۔ اچھا ہے، میاں صاحب اور زرداری صاحب نے تعاون کی اہمیت کو پہچان لیا۔ ہو سکتا ہے اب سیاست میں شور اور بے تکے بیانیوں کا زور ختم ہو جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved