امریکی میزائل حملے سے بغداد کے ہوائی اڈے پر ایران کے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جو پورے خطے میں پچھلے کئی مہینوں سے چلنے والے انتشار کو ایک آتش فشاں بنا سکتا ہے‘ لیکن حقائق ایسے ہیں نہیں جیسے سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ ان کو پیش کر رہے ہیں۔ صدام حسین کی آمریت میں بھی عراقی عوام کی اکثریت امریکی سامراج کے خلاف تھی۔ آج صدام حسین کے خاتمے اور امریکہ کے انخلا کے بعد بھی سامراج دشمنی عراق میں بڑھی ہے‘ کم نہیں ہوئی۔ واشنگٹن اور تہران دس ہزار میل کے فاصلے پر ہیں۔ اتنی دور سے آ کر امریکیوں کا ایران پر حملہ کرنا ان کے مفادات کو لاحق خطرات کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہونے کے دعوے کے باوجود ایران جیسی نسبتاً کم طاقت یافتہ ریاست کے خلاف آخر کیوں برسر پیکار ہے؟
امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بھی ہے۔ مہنگائی‘ بیروزگاری اور غربت کے مارے امریکی محنت کش عوام اور نوجوان نہایت ہی تلخ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کسی ملک کے عوام کی اصل حالت کا اندازہ اس کے معاشی اعداد و شمار اور پراپیگنڈے سے نہیں لگایا جا سکتا۔ امریکہ کی سیاست میں پچھلی دو دہائیوں سے پھیلنے والی افراتفری اس کی سماجی بے چینی سے جنم لے رہی ہے۔ امریکی عوام سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا شکار ہیں۔ ان میں شدیدغم و غصہ پایا جاتا ہے اور تمام ترذلتوں کے باوجود ان کو مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ اس دولت کی جمہوریت کے ذریعے صرف یہ چناؤ کرسکیں گے کہ اگلے پانچ سال ان کی حکمرانی بالادست طبقات کا کون سا حصہ کرے گا۔ امریکی سیاست بارے مشہور ڈپلومیٹ اور امریکی سیاستدان جان کینن فلبرائیٹ نے کہا تھا ''امریکہ میں صرف ایک سیاسی پارٹی ہے‘‘۔ بعد میں یہ حقیقت منظر عام پر آئی کہ2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کو (سوشلسٹ) سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر شکست فاش دی جا سکتی تھی‘ لیکن کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی بیوروکریسی (جو امریکی سرمایہ داروں پر مشتمل ہے) نے ایک سازش کے ذریعے خود اپنی پارٹی کو شکست دلوائی۔ امریکی سامراجیوں کو اپنی داخلی اور خارجی برتری اور جبر برقرار رکھنے کیلئے دوسری عالمی جنگ کے بعدویتنام سے لے کر افغانستان تک جارحیت کرنا پڑی۔
عراق‘ شام‘ لیبیا اور دوسرے ممالک میں شکستوں نے اس کی جنگی اور اقتصادی زوال پذیری کی بہت واضح نشاندہی کردی تھی۔ امریکہ نواز رضا شاہ پہلوی کے خلاف انقلاب میں سامراج دشمنی کا عوامی عنصر بہت نمایاں تھا۔ ایران کی اس وقت کی ''تودہ‘‘ (کمیونسٹ) پارٹی‘ جس کے لیڈروں نے انقلاب کو منظم اور متحرک کیا تھا‘ کی قیادت نے مذہبی قوتوں کے آگے سرجھکا دیا۔ اس طرح نہ تو معاشی واقتصادی نظام بدلا‘ نہ ریاستی اداروں اور ڈھانچوں میں کوئی انقلابی تبدیلی آئی اور نہ ہی مذہبی‘ اخلاقی اور فرقہ وارانہ اقدار میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی۔ فارسی قوم کے زوال پذیر ہونے کے ہزار سال بعد اس کو دوبارہ اجاگر کرنے کیلئے ایران پرستی کی سامراج دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے اسے اسلامی مملکت کے ڈھانچے میں نئی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ 1980ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ میں وہاں کی اشرفیہ نے اس شائونزم کو مزید تقویت دلائی۔ صدام کیلئے سامراجی حمایت بھی ان کے بہت کام آئی۔ ایران دوسری حاکمیتوں کی زوال پذیری کی وجہ سے خطے کی بڑی طاقت بن کرابھرا‘ لیکن اس کے وجود اور حاکمیت کیلئے اس کو ایک بیرونی تضاد بھی درکار تھااور امریکہ سے بہتر کیا اوزار ہو سکتا تھا۔
دنیا کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سامراجی طاقت بننا ایک بات ہوتی ہے اور اس کا تسلط قائم رکھنا بالکل مختلف عمل ہوتا ہے۔ روم سے لے کر مصر اور چین سے لے کر یونان تک کی سامراجی سلطنتوں کی یہی تاریخ ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے سامراجیوں کی داستان بھی ان سے مختلف نہیں۔ لیکن ہر سامراجی تسلط ایک مرحلے پر آکر دم توڑنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو برقرار رکھنے کی جستجو میں سامراجیوں کو قبضوں‘ نوآبادیات اور وسائل کی لوٹ مار کے عمل میں بہت کٹھن اور عموماً مکافاتِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج امریکی سامراج کو عالمی طور پر جس زوال اور پسپائی کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ نہ اس کے پاس وہ وسائل ہیں‘ نہ وہ طاقت اور نہ ہی طاقت کے توازن میں اتنی شدید ناہمواری۔ اس گلوبلائزیشن کی دنیا میں ہر روز اربوں کھربوں ڈالر سرحد پار جاتے ہیں‘ لیکن کسی حکومت اور ریاست میں اتنی سکت اور جرأت نہیں کہ اس دولت کی گردش میں کوئی رخنہ اندازی کرسکے۔ آج جبکہ دنیا کی 80 فیصد دولت 62 افراد کے پاس ہے تو اس میں ریاستیں بڑی ہیں یا اجارہ دارانہ سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں؟
امریکی سامراج کا کردار جو عالمی طور پر ہے ایرانی اشرافیہ اس کو اپنے خطے میں ادا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ جہاں امریکی سامراج ناکام ہے وہاں ایرانی اشرافیہ بھی نامراد ہے۔ لیکن جہاں امریکی اور ایرانی حکمرانوں میں شدید تناؤ اور تضادات ظاہر کیے جاتے ہیں وہاں یہ ایک دوسرے کے لیے حکمرانی کا اہم ترین ذریعہ بھی ہیں۔ جہاں امریکی سامراجی جمہوریت اور انسانی حقوق کا ناٹک کرکے بدترین آمریتوں کو مسلط کرتے ہیں وہاں مذہب کو استعمال کرنے والے سرمایہ داروں نے اپنی بغل بچہ حاکمیتوں کو عوام پر مسلط کررکھاہے۔ لیکن آج نہ وہ وقت ہے‘ نہ وہ حالات ہیں‘ نہ وہ مالیات ہیں اور نہ وہ تجارت ہے کہ شرح منافع بھی جاری رہتی اور حاکمیت کیلئے وسائل کاحصول بھی جاری رہ سکتا۔ اگر امریکہ کو شیطان کہہ کر اس کے خلاف عوام میں پیدا ہونے والی نفرت کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے تو خطے میں اور عالمی طور پر ایرانی اشرافیہ بھی امریکی سامراجیوں کی کرتوتوں بارے عوام کے دلوں میں خاطرخواہ نفرت پیدا کرتی رہی ہے‘ لیکن اب وقت اتنا بدل گیا ہے کہ وہ ''پرانے‘‘ حالات اسی طرح چل نہیں سکتے۔ دوسری طرف امریکی سامراجیوں اور ان کے مخالفین کو بھی اس باہمی دشمنی کی شدید ضرورت ہے‘ جس سے وہ اپنے اپنے ملک یا عالمی طور پر محنت کش طبقات اور نوجوانوں کا استحصال اور لوٹ مارجاری رکھ سکیں۔ امریکی اقتصادی پابندیوں کے ایران پر منفی اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں لیکن ان کے اثرات کو عوام پر پہلے سے ہی پڑے بھاری بوجھ میں اضافے کا سبب بنا دیا گیا ہے۔ ظاہری طور پر دشمنی اور خفیہ دوستی ان کی حکمرانی کے لیے کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ حالیہ امریکی جبر سے ٹھونسی گئی اقتصادی پابندیوں سے ایران (جس کی سب سے بڑی پیداوار ہی تیل ہے) میں تیل کی قیمتوں میں 200 فیصد کا اضافہ ہوا ہے لیکن لبنان‘ عراق‘ لیبیا اور شام میں ابھرنے والی بعض حقیقی طبقاتی تحریکوں کو کچلنے میں ان کے مفادات مشترک ہیں۔ اسی طرح 2019ء میں ایران ہڑتالوں اور مزدور تحریکوں کے طوفانوں میں گھرا ہوا تھا۔ 80 شہروں میں تقریباً ایک نیم انقلابی کیفیت تھی۔ حکمرانوں کے ''اصلاح پسند‘‘ اور ''سخت گیر‘‘ دھڑوں کے جعلی تضادات بے نقاب ہو رہے تھے۔ دہائیوں سے مسلط جابرانہ سیاست اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔
دوسری جانب جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف جو آوازیں اٹھیں ان میں امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کی آواز سرفہرست ہے۔ امریکہ اور ایران کے لیے دوستی اور دشمنی حاکمیت کی ضرورتیں ہیں‘ لیکن اب ان کو بیک وقت جاری رکھنا شاید ممکن نہیں رہا۔ یہ سفارتی دھوکے بازیاں‘ اور خطرات کے چیلنج بہت حد تک اپنی افادیت کھوچکے ہیں۔ امریکہ اور ایران میں مفادات کی جڑت اب بہت حد تک بے نقاب ہوچکی ہے۔ اسی لیے اب دونوں اپنے اصلی اور ازلی دشمن یعنی طبقاتی جدوجہد سے خوفزدہ ہیں۔ تحریکیں جب لبنان اور عراق جیسے ممالک میں چلیں تو ان کا خوف بری طرح عیاں ہو گیا۔ وہ وقت شاید قریب آپہنچا ہے جب یہ مذہبی‘ قومی تقسیموں اور منافرتوں کے تضادات اور تعصبات کا باعث نہیں بن سکیں گے۔ حکمران مختلف ہتھکنڈوں سے ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں‘ اس کے باوجود پچھلے کچھ عرصے میں جو تحریکیں ابھری ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ محنت کش طبقات کا شعور بہت اجاگر ہو چکا ہے اور محنت کشوں کے لئے صرف اس بات کے شعور کی اجاگری ہی فتح کا پیام بن سکتی ہے کہ وہ یہ سمجھ جائیں کہ اصل جنگ طبقاتی ہے‘ قومی‘ جنسی‘ لسانی یا مذہبی نہیں ہے۔