تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-05-2013

نوازشریف کے لیے تاریخ بنانے کا موقع

میری رائے میں میاں نواز شریف کی فتح پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا کے لیے مبارک ثابت ہوگی۔ اگر1999ء میں فوج ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹاتی تو اب تک ہندوستان اور پاکستان باہمی رشتوں کے بہت اونچے مقام پر پہنچ چکے ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ 1997ء کے انتخابات میں ووٹنگ سے دو دن قبل انہوں نے رائے ونڈ کے اپنے فارم ہاؤس میں ایک بڑی پریس کانفرنس میں ہندوستان سے تعلقات میں بہتری لانے کا اعلان کیا تھا اور مسئلہ کشمیر کو پرامن طریقہ سے حل کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران میاں صاحب اور مجھے دیگر پاکستانی صحافیوں نے کئی بار ایک ساتھ دیکھا تھا۔ رائے ونڈ کی پریس کانفرنس میں بھی انہوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھا رکھا تھا۔ ان کے ہندوستان سے بہتر تعلقات سے متعلق اعلان کے بعد پاکستانی صحافیوں نے مجھ سے آکر کہا کہ آپ نے آج میاں صاحب کو مروا دیا۔ اب وہ اپنی سیٹ بھی نہیں جیت پائیں گے۔ دوسرے دن پاکستان کے کچھ اخباروں میں میاں نواز شریف کے وہ فوٹو صفحہ اوّل پر چھپے جن میں وہ مجھے(یعنی ہندو صحافی کو) مٹھائی کھلاتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ تیسرے دن کیا ہوا؟ میاں صاحب اور میں ان کے لاہور کے ماڈل ٹاؤن والے بنگلے میں پوری رات انتخابی نتائج کا جائزہ لیتے رہے۔ میاں نواز شریف کو اس انتخاب میں اتنی زیادہ سیٹیں ملیں جتنی پورے جنوبی ایشیا کے کسی بھی لیڈر کو اپنے الیکشن میں کبھی نہیں ملی تھیں‘ یعنی ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے پر پاکستان کے عوام نے مہرلگادی۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ اپنے منشور میں تو ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی بات انہوں نے کہی، اس کے علاوہ اخباروں کو عین ووٹنگ سے قبل صاف صاف کہا کہ ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنا ان کی اوّلین ترجیح ہوگی۔ وہ مسئلہ کشمیر پرامن طریقہ سے حل کریں گے اور ہندوستان کو پاکستان سے ہوکر وسطی ایشیا تک آنے جانے کا راستہ دیں گے‘ ہندوستان سے کاروبار میں بھی اضافہ کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ہندوستانیوں کے لیے کافی محبت ہے۔ اگرچہ سبھی اہم پارٹیوں سے ہندوستان سے تعلقات میں بہتری لانے کی بات کہی ہے، لیکن میاں صاحب نے جس زوروشور سے اپنی بات کہی اس کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ غیرمعمولی اس لیے کہ وہ ایک بڑے لیڈر ہیں اور ان کی جماعت کے اقتدار میں آنے کے پورے امکانات تھے۔ پاکستان میں شدت پسند طالبان کا بھی اثر کم نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں، ہندوستان سے تعلقات میں بہتری لانے کی بات سب سے زیادہ پاکستانی فوج کو زہریلی لگتی رہی ہے؛ حالانکہ اب جنرل کیانی کی قیادت میں فوج نے بہت ہی ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن یہ بڑی حقیقت ہے کہ اگر ہندوستان سے پاکستان کے تعلقات بہتر ہوگئے تو پاکستانی سماج میں سے فوج کا دبدبہ یقینی طور پر کم ہوجائے گا۔ ان حقائق سے نواز شریف واقف ہیں۔ میاں نواز شریف ایک سیاسی لیڈر ہیں‘ ڈبو نہیں ہیں۔ وہ انتخابات میں فتح یاب ہوں یا انہیں شکست ہو، وہ اپنے دل کی بات کہے بغیر نہیں رہیں گے۔ ان کے پرانے تجربوں نے ان کو نئی خوداعتمادی بخشی ہے۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اب ایسی قیادت نصیب ہوئی ہے جو نہ تو فوج سے ڈرتی ہے اور نہ ہی فوج کی مذمت کرتی ہے۔ فتح حاصل کرنے کے بعد نوازشریف نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ انہیں مشرف سے شکایت تھی، فوج سے نہیں۔ یعنی اب پاکستان کے سیاسی لیڈر اور فوج کے درمیان صحت مند تعلقات کی امید پیدا ہوئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ پاکستانی جمہوریت کے مضبوط ہونے کی دلیل ہے۔ اگر عمران خان کامیاب ہوجاتے تو یہ سمجھاجاتا کہ اسلام آباد کے تخت پر فوج دوسرے دروازے سے آبیٹھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے عام آدمی نے سیاست میں آنے والے نئے شخص کے ہاتھ میں اپنی قسمت تھما دینے کی بجائے ایک پرکھے ہوئے لیڈر کو موقع دیا ہے۔ عمران خان کو صحیح معنی میں لیڈر بننے کا موقع اب ملا ہے۔ امید ہے وہ اپنے آپ کو پختونوں کی قیادت تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ پورے پاکستان کی آواز کو پارلیمنٹ میں گونجنے دیں گے۔ جہاں تک آصف زرداری کی پیپلز پارٹی کا سوال ہے، اسے تو ہارنا ہی ہارنا تھا۔ وہ ان کی نہیں، بے نظیر کی پارٹی تھی۔ پاکستان کے عوام نے گزشتہ انتخابات میں انہیں منتخب نہیں کیا تھا، شہید بے نظیر کو منتخب کیا تھا، جیسے 1984ء میں ہندوستان کے عوام نے راجیوگاندھی کو نہیں، آنجہانی مقتول اندراگاندھی کو ووٹ دیا تھا۔ راجیو نے جب اپنے دَم پر انتخاب لڑا تو ان کی سیٹیں آدھی رہ گئیں اور زرداری کی تو ایک تہائی ہوگئیں۔ وہ صرف سندھ میں سمٹ کر رہ گئے! اب صدرکے عہدہ پر بھی ان کے دن گنتی کے ہیں۔ اب انہیں اور بلاول کو اصلی سیاست کے میدان میں اترنا ہوگا۔ میاں نواز شریف کے لیے اس انتخاب کے نتائج سردرد کا ٹوکرا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے چار صوبے ہیں۔ ان چاروں صوبوں میں چار طرح کی الگ الگ پارٹیوں کی حکومتیں ہوں گی۔ بلوچستان تو علیحدگی کی آگ سلگائے ہوئے ہے۔ میاں نواز نے اتفاق رائے کی بات کہہ کر پاکستانی اتحاد کو مضبوطی دی ہے، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سبھی پارٹیاں اب علاقائی پارٹیاں بن گئی ہیں۔ راشٹریہ پارٹی آخر کسے کہیں؟ سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کی پارٹی ہونے کے سبب ہی نواز کی مسلم لیگ اتنی سیٹیں جیت سکی ہے۔ میاں نواز کو اب صرف پنجاب ہی نہیں، پورے پاکستان کے وقار کا ترجمان بننا ہوگا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ 14برس کا بنواس (اقتدار سے دُوری) کاٹنے کے بعد میاں صاحب اپنی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھیں گے۔ ان کے 1997ء کے کرشماتی انتخابی نتائج نے ان کا ماتھا پھرا دیا تھا۔ انہوں نے عدالتوں کے معاملات میں مداخلت شروع کردی۔ وہ جنرلوں کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے لگے۔ انہوں نے مشرف کو بھی الٹا ٹانگنے کی کوشش کی تھی۔ وہ ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کے حامی تھے، لیکن انہوں نے کارگل جنگ ہونے دی، طالبان کو سرچڑھایا۔ ظاہر ہے کہ اس بار وہ توازن برقرار رکھیں گے۔ وہ اپنا ادھورا کام پورا کریں گے اور کچھ ایسا کردکھائیں گے کہ ان کا نام جناح اور نہرو سے بھی بڑا ہوجائے۔ میاں نواز کے والد صاحب مجھ سے اکثر پوچھا کرتے تھے کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا جواب یہی تھا کہ ہند‘ پاک فیڈریشن بن جائے اور اس دو قومی یونین ریاست کے صدرمیاںنواز شریف منتخب ہوں اور پھر اراکان(ورما) سے خراسان(ایران) تک ایک ’اکھنڈ آریانا‘ بنایا جائے جو یورپی یونین سے بھی بہتر ہو۔ ہمارے اس بڑے خواب کی شروعات ہندوستان کا کوئی لیڈر نہیں کرسکتا‘ اسے تو پاکستان کا ہی کوئی لیڈر کرسکتا ہے کیونکہ پاکستان جنوبی ایشیا کے بیچوں بیچ موجود ہے۔ اگر وہ اپنا راستہ کھول دے تو جنوبی ایشیا کے درجن بھر ممالک کے راستے ایک دوسرے کے لیے اپنے آپ کھل جائیں گے۔ جنگوں اور غریبی کے دن لد جائیں گے۔ دیکھنا ہے کہ میاں نواز شریف محض وزیراعظم کے عہدہ سے مطمئن ہوجاتے ہیں یا تاریخ کی دیوار پر کوئی لمبی لکیر کھینچتے ہیں؟ (ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک دِلّی میں مقیم معروف بھارتی صحافی ہیں۔ اس مضمون میں انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved