ترمیم تعویذوں سے ہوئی: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''آرمی ایکٹ میں ترمیم تعویذوں سے ہوئی‘‘ بلکہ وزیراعظم سمیت ہم سب بھی تعویذوں ہی کی برکت سے آئے ہیں اور اگر اب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو تعویذ ہی کام دیتے ہیں اور ان تعویذوں کے حصول کے لیے ہمیں کچھ زیادہ دُور بھی نہیں جانا پڑتا بلکہ یوں سمجھیے کہ گھر میں ہی گنگا بہہ رہی ہے جبکہ مولانا کی بلا بھی انہی تعویذوں کے طفیل ٹلی تھی، اگرچہ ان کے لیے تعویذ بھی اُسی مقدار میں لانا پڑے تھے اور اب تو وہ بھی ان تعویذوں کے قائل ہو گئے ہیں وہ اَب وزیراعظم کا نام تک نہیں لیتے اور اپنی تقریروں میں اِدھر اُدھر ہی رہتے ہیں، اگرچہ ان تعویذوں کے زور پر ان کی زبان بھی ہمیشہ کے لیے بند کی جا سکتی ہے‘ لیکن ہمارا کیا لیتے ہیں مہنگائی وغیرہ کا رونا روتے رہتے ہیں، تاہم یہ واحد چیز ہے کہ جن پر تعویذوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں غیر یقینی صورتحال کے باعث عوام پریشان ہیں: سراج الحق
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک میں غیر یقینی صورتحال کے باعث عوام پریشان ہیں‘‘ حالانکہ ملک میں جو یقینی صورتحال ہے، عوام کو اس پر زیادہ پریشان ہونا چاہیے جیسا کہ میں دن رات اسی صورتحال کے باعث پریشان رہتا ہوں اور اسی پریشانی میں روزانہ ایک آدھ بیان بھی نکل جاتا ہے جس سے مزید پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہوں کیونکہ ہر روز بیان داغ دینا ایک غیر قدرتی فعل ہے اگرچہ یہ غیر قدرتی کام بھی مجھ سے قدرت ہی کرواتی ہے ورنہ بندہ بشر تو اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتا ،جبکہ یہ تفریق اور تناسب بھی قدرت ہی کا پیدا کردہ ہے کیونکہ میں تو بلا ناغہ بیان سے زیادہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتا اور میری کامیابی کی وجہ بھی یہی ہے اور ناکامی کا سبب بھی۔ آپ اگلے روز پنج پائی کے مقام پر اپنے اعزاز میں دیئے گئے ایک استقبالیے سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران صاحب! تقریروں سے روٹی
روزگار اور کاروبار نہیں ملتا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب! تقریروں سے روٹی، روزگار اور کاروبار نہیں ملتا‘‘ جبکہ ہم اپنے دور میں تقریروں کی بجائے صرف کام کرتے تھے اور وہی ایک کام جو ہمیں آتا ہے؛ چنانچہ ہمارے چپ رہنے سے بھی عوام کو یہ چیزیں میسر نہیں آتی تھیں لیکن ہمارا کاروبار خوب چلا ہوا تھا اب جس پر ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں اور اسی حساب سے ہو رہی ہیں جس حساب سے مذکورہ کاروبار چلا کرتا تھا، اس لیے عمران خان اگر وہ کام نہیں کر سکتے تو کم از کم تقریروں ہی میں وقت ضائع نہ کیا کریں کیونکہ روٹی، روزگار وغیرہ تو عوام کی قسمت ہی میں نہیں ہیں اور یہ ملک جن خوش قسمت لوگوں کے لیے بنا تھا وہ اس کے ثمرات بھی سمیٹتے رہے ہیں، البتہ اب نیب کے پر کاٹنے کے جو ارادے ہو رہے ہیں اس سے بہر حال یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ ہم بھی کسی نہ کسی دن ایک بار پھر اپنے کام پر لگ جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں وزیراعظم کی تقریر پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہی تھیں۔
دین کی بقا کا دارومدار شخصیت پر نہیں عقیدے پر ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''دین کی بقا کا دارومدار شخصیت پر نہیں عقیدے پر ہے‘‘ اور دھرنوں اور مارچ کی ناکامی کے بعد اب یہ احساس ہوا ہے کہ میری شخصیت ہی میں کوئی مسئلہ تھا جس کی وجہ سے اُلٹا لوگوں کی نظر میں ایک مذاق بن کر رہ گیا ہوں اور یہ بھی غنیمت ہے کہ اس افسردہ اور اداس قوم کو قدرے مذاق تو میسر آیا ہے کہ میری ہنسی اڑاتے ہیں اور لوگ کسی قدر موج میلہ کر لیتے ہیں بلکہ اب تو مجھے یاد بھی نہیں ہے کہ جس کے لیے میں نے مارچ اور دھرنے وغیرہ دیئے تھے، وہ کوئی مطالبہ بھی تھا، بس تھوڑا تھوڑا یاد ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے متعلق تھا اور ذہن پر زیادہ زور بھی نہیں دے سکتا ۔ آپ اگلے روز نارتھ کراچی میں تعزیتی ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
کیسی کیسی اپنی دھاک بٹھاتے تھے
جھوٹ کو سچیاتے، سچ کو جھٹلاتے تھے
اب تو ہونا اور نہ ہونا ایک ہوا
ہوتے تھے تو روتے تھے اور گاتے تھے
آنا جانا لگا ہوا تھا ہمارا بھی
جاتے نہیں تھے جہاں وہیں سے آتے تھے
سونے والوں سے تو نہیں تھی کوئی غرض
جاگنے والوں کو ہی اور جگاتے تھے
ساری عمر رہے مصروف، امیدوں کا
کوئی محل بناتے اور گراتے تھے
اب جو ترکِ تعلق ہے تو ہمارے آپ
پہلے بھی کب صدقے واری جاتے تھے
جہاں ہمیں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا
ہم بھی وہیں قدم رنجہ فرماتے تھے
جب بھی ہمیں کچھ چاہیے ہوتا تھا تو ہم
اپنے ہی آگے دامن پھیلاتے تھے
کچھ معلوم نہیں ہے آپ ظفرؔ صاحب
کوئی رنگ جماتے تھے کہ اُڑاتے تھے
آج کا مقطع:
خوش اخلاق تھا، اُس نے انکار بھی
کیا ہے، ظفر مسکراتے ہوئے