تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     12-01-2020

امریکہ، عرب نیٹو: مستقبل کیا ہوگا؟؟

بدھ کے روز ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں تعینات امریکی افواج کے دو ٹھکانوں پر میزائل حملے کئے۔ ان حملوں میں ایرانی میڈیا کے دعووں کے برعکس کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایرانی میزائل حملے کے بعد امریکا نے کوئی جنگی کارروائی نہیں کی؛ تاہم ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ 
ایران کی طرف سے امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملوں کو ناکام سمجھا جا رہا ہے اور تاثر یہ ہے کہ ایران نے بائیس میزائل داغ کر اپنی ناک بچانے کی کوشش کی اور اندرونی طور پر مہنگائی اور معاشی پابندیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عوامی بے چینی اور غیظ و غضب کو بھی دبانے میں کامیاب رہا۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ ایران کے ان میزائل حملوں کا خطے میں کوئی بھی نمایاں اثر نہیں ہو گا۔ ایسا سمجھنا غلطی ہو گی۔ ایران نے ان میزائل حملوں میں جان بوجھ کر امریکا کو جانی نقصان پہنچانے سے گریز کیا‘ لیکن چند مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ایران نے میزائل حملوں سے پہلے عراق کو آگاہ کر دیا تھا اور پینٹاگون بھی اس اطلاع سے باخبر تھا۔ امریکی صدر نے ایران کے میزائل حملوں کے بعد خطاب میں کہا کہ ایران پیچھے ہٹ گیا ہے۔ امریکی صدر کا یہ گمان ہے‘ حقیقت میں ایسا نہیں۔ ایرانی میزائل حملے میں دراصل امریکی فوج پیچھے ہٹی اور ایرانی میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی کوشش نہیں ہوئی حالانکہ امریکی فوج اس کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ایرانی پاسداران انقلاب امریکی ہلاکتوں کا ارادہ نہیں رکھتے‘ یہ بھی ثابت ہو گیا۔
ایران نے دراصل ان میزائل حملوں سے امریکا کے خلیجی اتحادیوں، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو پیغام دیا۔ ان تینوں ملکوں نے صدر ٹرمپ کے عرب نیٹو کے تصور کی حمایت کی تھی۔ ایران نے میزائل حملوں کے ذریعے ان تین ملکوں کو پیغام دیا کہ اگر صدر ٹرمپ ایرانی میزائلوں سے اپنے فوجی اڈوں کی حفاظت نہیں کر سکتا تو پھر ان تینوں ملکوں کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ ایران دشمنی رکھنے والے تمام عرب ملکوں کے فوجی اڈے، بندرگاہیں، تیل پائپ لائنیں بھی غیرمحفوظ ہیں۔ ایران نے ان حملوں میں اپنی جنگی صلاحیت اور میزائل نظام کو بھی عربوں پر واضح کر دیا۔ اگر خلیجی ملکوں کو یہ پیغام سمجھ نہیں آیا تو اسے مزید واضح کرنے کے لیے پاسداران انقلاب کے سربراہ نے بیان دیا کہ ایران پر حملے کے لیے اپنی سرزمین دینے والے ملک بھی ایران کے نشانے پر ہوں گے۔ اس حملے سے عرب نیٹو کا تصور عملی روپ اختیار کرنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
ایران کے میزائل حملوں سے علاقائی سکیورٹی نظام کے تصور کو بھی نئی زندگی ملی ہے۔ علاقائی سکیورٹی نظام کے لیے امریکی فورسز کو عرب زمین سے نکلنا ہو گا۔ عراق کی پارلیمنٹ کی قرارداد کے بعد وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ کو فون کر کے اس قرارداد پر عمل کے لیے بات کی اور امریکی فوجی انخلا پر بات چیت کے لیے نمائندے بھجوانے کوکہا۔ حسب توقع امریکا نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ امریکی صدر نے فوکس نیوز سے انٹرویو میں اس مطالبے پر بات کی اور کہا کہ عراق کے پینتیس ارب ڈالر امریکی بینکوں میں رکھے ہیں۔ عراق امریکا کو جنگی اخراجات ادا کر دے تو ٹھیک ہے ورنہ امریکی افواج عراق میں موجود رہیں گی۔
امریکی فوری طور پر اس مطالبے کو ماننے کو تیار نظر نہیں آتے لیکن خطے میں بڑھتی مزاحمت سے پریشان ضرور ہیں۔ امریکا نے نیٹو کو مشرق وسطیٰ میں وسیع کردار دینے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ امریکی صدر نے میزائل حملوں کے بعد خطاب میں بھی نیٹو کا کردار بڑھانے پر بات کی لیکن نیٹو اس کردار پر متفق ہو پائے گا یا نہیں؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے‘ بالخصوص امریکی صدر کی طرف سے نیٹو اخراجات میں یورپی حصہ کم ہونے کے طعنوں کے بعد یورپی لیڈر بہت سوچ بچار کریں گے۔
مشرق وسطیٰ میں علاقائی سکیورٹی نظام کے لیے ایران نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر تجاویز دی تھیں۔ روس اور چین کی اس حوالے سے اپنی سوچ اور تجاویز ہیں۔ جواد ظریف پچھلے چند ماہ میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی ملک یہ سوچنے کی حماقت نہ کرے کہ وہ سکیورٹی خرید سکتا ہے، ایک ریاست کی سکیورٹی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس کی ہمسایہ ریاست محفوظ ہو۔
عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد ایران خاموش نہیں بیٹھے گا۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، صدر حسن روحانی اور لبنان کی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کے بیانات اس پر واضح ہیں، مشرق وسطیٰ میں کہیں بھی تعینات امریکی فوجی ایران اور اس کی حمایت یافتہ ملیشیاز کے نشانے پر ہوں گے۔ عراق کی ملیشیا حشد الشعبی کے بقول اس نے بھی ابھی تک جنرل سلیمانی کے ساتھ قتل ہونے والے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس کا انتقام لینا ہے۔
تہران میں یوکرین کے طیارے کی تباہی پر امریکا، کینیڈا اور یوکرین نے دباؤ بڑھایا تو ایران کو اعتراف کرنا پڑا کہ طیارے کی تباہی اس کی افواج کی اندازے کی غلطی ہے۔ ایران میں انتہائی الرٹ افواج نے طیارے کو فوجی علاقے کے قریب ہونے کی وجہ سے میزائل سے نشانہ بنایا۔ ایرانی افواج کو امریکا کی طرف سے کارروائی کا خدشہ تھا۔ اس اعصابی تناؤ میں یوکرین کا طیارہ نشانہ بن گیا۔ مرنے والوں میں اکثریت ایرانیوں کی ہے۔ کینیڈا کے شہری بھی دراصل ایرانی نژاد کینیڈین ہیں۔ یوکرین کے شہری اور عملہ ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
دو ہزار چودہ میں روس نے بھی ملائیشیا کا ایک مسافر طیارہ یوکرین کی حدود میں مار گرایا تھا۔ اس وقت یوکرین اور روس کریمیا کے معاملے پر حالت جنگ میں تھے، اور کریمیا میں موجود روسی فوجیوں نے طیارہ گرایا تھا۔ جنگی حالات میں اس طرح کے افسوسناک حادثات ہو جاتے ہیں۔ پچھلے سال فروری میں لائن آف کنٹرول پر بھارت نے جارحیت کی اور پاکستانی شاہینوں کی جوابی کارروائی کے دوران بھارت نے گھبرا کر اپنا ہی ہیلی کاپٹر گرا دیا تھا۔
طیارے کے حادثے میں ایک سو چھہتر انسانی جانوں کا ضیاع بہت بڑا واقعہ ہے لیکن امریکا اب اس واقعے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ روس اور یوکرین تنازع کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے کیونکہ امریکی میڈیا بار بار اس طیارے کی تباہی کی رپورٹوں میں روسی میزائل کا ذکر کرتا ہے۔ ایران کی طرف سے غلطی تسلیم کئے جانے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے اعلان کے بعد اب امریکی میڈیا اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یوکرین کا طیارہ درست روٹ پر تھا اور جہاں طیارہ گرایا گیا اس کے آس پاس کوئی فوجی تنصیبات موجود نہیں۔ اس طیارے کی تباہی پر ایران کو دباؤ کا شکار کرنے والے امریکا نے خود جولائی 1988 میں خلیج فارس میں ایرانی ہوائی جہاز کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں 66 بچوں سمیت تمام 290 مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔ یوکرین طیارے کی تباہی میں ایران کی غلطی جنگی ماحول میں فضائی حدود بند نہ کرنا ہے۔ اگر فضائی حدود مسافر طیاروں کے لیے بند کر دی جاتیں تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا۔
یوکرین کے صدر نے ایران کے اعتراف پر جو رد عمل دیا ہے اس سے معاملہ ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ یوکرین کے صدر نے کہا کہ ایران اپنے قصور کا مکمل اعتراف کرتے ہوئے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے اور سفارتی ذرائع کے ذریعے معافی مانگے۔ انکوائری کر کے ذمہ داروں کو سزا دے۔ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں یوکرین کو واپس بھجوائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved