تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     13-01-2020

وہی جال‘ وہی شکار

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر ملتے ہی مجھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ''موساد‘‘ کے چیف یو سی کوہن(YOSSI COHEN )کا 24 اکتوبر2019 ء کو دیئے گئے ایک انٹرویو کے الفاظ یاد آ گئے‘اس انٹرویو میں اس نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم ایران کی ''القدس فورس‘‘ کے جنرل قاسم سلیمانی کو جلد ہی نشانہ بنائیں گے۔ اس سے پہلے2006ء میں بھی ''موساد‘‘ نے جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔اسرائیلی حکومت اس حوالے سے بدنام ہے کہ وہ اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کرواتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کے نزدیک مزاحمتی رہنماؤں کو قتل کرنے کے منصوبے میں جنرل قاسم سلیمانی کا نام سرفہرست تھا۔ دنیائے عرب کے تجزیہ نگار عبد الباری عطوان ''رای الیوم‘‘ میں شائع کردہ اپنے ایک تجزیہ کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بارے میں لکھتے ہیں ''اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل بہرصورت جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث رہا ہے اور اسرائیلی میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے ایک رات قبل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلیفونک بات چیت کی تھی‘ جس میں انہوں نے اس قاتلانہ کارروائی سے متعلق گفتگو کی ‘ مگر امریکی میڈیا نے اس گفتگو کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں‘‘۔
دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل منصوبہ بند قتل کے ماسٹر مائنڈزمیں سے ایک ہے۔ فلسطینی تنظیموں جیسے ''جہاد‘‘ اور''حماس‘‘ کے بہت سارے رہنماؤں کو اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے قتل کیا۔ اسرائیلی سپریم کورٹ نے ٹارگٹ کلنگ کو جائز قرار دیا اور اسے فلسطینی کارروائیوں کیخلاف برقرار رکھا ہے۔اسرائیل ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو اپنی سلامتی کے دفاع کی راہ میں جائز سمجھتا ہے؛ حالانکہ بین الاقوامی سماج اسرائیل کے منصوبہ بند قتل کو کسی بھی صورت میں جواز فراہم نہیں کرتا اور آج تک اس کی ہر دہشت گردانہ کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتا آیا ہے۔ ''موساد‘‘ کے پاس کڈن(Kidon) نامی ایک خصوصی یونٹ ہے‘ جو عربوں‘ ایرانیوں اور دیگر اینٹی اسرائیل افرادکے قتل میں ملوث رہا ہے۔ اس یونٹ کے کارندوں کو اسرائیل کی ماہر ترین فوج میں سے انتخاب کیا جاتا ہے۔فلسطین میں یہودی حکمرانوں کے حامیوں کی جانب سے مخالفین پر قاتلانہ حملے روزانہ کا معمول رہا ہے اور ایسی کارروائیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔یہودی حکمرانوں کا یہ نظریہ ہے کہ '' اگر کوئی تمہیں مار ڈالنے آئے‘ تو پہلے اٹھ کر اسے مار ڈالو‘‘ یہ نظریہ یہودیوں‘ بالخصوص اسرائیلیوں کو دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی دلیل فراہم کرتی ہے۔اسرائیل نے 1948ء میں اپنے قیام کے آغاز سے ہی اپنے تحفظ کی خاطر اس نظریہ کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ اس کے وسیع اسلحہ خانے میں ایک ہتھیار ایسا موجود ہے‘ جس پر انہوں نے تازہ ترین خطرات کو بھی دور کرنے کے لیے بھروسہ کیا ہوا ہے اور وہ ہے ''منصوبہ بند قتل‘‘۔ انہوں نے بارہا اس ہتھیار کو اپنے چھوٹے بڑے دشمن کے خلاف استعمال کیا ہے۔ 
اسرائیل کے معروف صحافیRonen Bergman نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ''موساد‘‘ اب تک ایران کے پانچ معروف ترین ایٹمی سائنسدانوں کو قتل کر چکی ہے۔کویت کے معروف اخبار'' الجریدہ‘‘ کی ایک سال پہلے رپورٹ کی جانے والی خبر میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ ''موساد‘‘ نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ایجنٹوں کو گرین سگنل دے دیا ہے۔''الجریدہ‘‘ کی اس چونکا دینے والی رپورٹ میں صاف لکھا ہو اہے کہ جنرل قاسم سلمانی کا قتل '' اسرائیل اور امریکا کا مشترکہ مشن ہو گا‘‘۔ عرب ممالک میں پایا جانے والا یہ عمومی تاثر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ '' الجریدہ‘‘ اسرائیل کے پیغامات ا ور اعلانات کو وقت سے پہلے دنیا تک پہچانے کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ایران کے طاقتورجنرل قاسم سلیمانی کو ریجن میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن گردانا جاتا تھا‘ اس کی سب سے بڑی کامیابی جو امریکا اور ''موساد‘‘ کو کسی طور ہضم نہیں ہو رہی تھی‘ وہ داعش اور امریکا کے عراق میں تیار کئے گئے عسکری گروہوںکا خاتمہ تھا۔ آج جب امریکی سینیٹ اور کانگریس کے کچھ ارکان کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملے کی مذمت کی خبریں دی جا رہی ہیں تو امریکی سینیٹ کا گزشتہ برس پاس کیا گیا ‘وہ بل نہ جانے کیوں نظروں میں کھٹکنے لگتا ہے‘ جس میں پینٹاگان کی مشرق ِ وسطیٰ میںا پنے مقاصد کیلئے بھاری فنڈنگ منظور کی گئی تھی۔ یہ صاف ظاہر ہو چکا کہ امریکا‘ مشرق وسطیٰ کے تمام قدرتی وسائل کو اپنے قبضے میں لینے کا ارادہ کر چکا‘ کیونکہ امریکا کی کمزور مالی حالت اور ادائیگیوں میں عدم توازن کے با وجود دنیا میں امریکا کے پھیلے ہوئے800 فوجی اڈوں کیلئے بھاری اخراجات کا پینٹاگان کو ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے۔
ادھرمشرق ِوسطیٰ میں انسانی حقوق کی عالمی کمیٹی کے رابطہ عامہ کے ایک عہدیدار ہیثم ابو سعید نے ''موساد‘‘ اور یہودیوں کی ایک اورتنظیم کے درمیان ہونے والے خفیہ پیغامات کا انکشاف کیا ہے‘ جس کے مطابق؛ پہلے پیغام میں 200 اسرائیلی فوجی حکام کو یمن میں واقع ایک عرب ملک کے ایئر بیس میں تعینات کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کوڈیڈ پیغام میں کہا گیا ہے کہ اس پیغام کے حصول کے فوراً بعد سپیشل آپریشن کی کمان اور مشترکہ آپریشن کی کمان اس پرعمل درآمد کرے۔ اس پیغام کے ڈی کوڈ ہونے سے سب سے پہلی بات جو واضح ہوتی ہے‘ وہ جنگ ِ یمن میں اسرائیل کی شراکت ہے۔ امریکا بھی یمن کے خلاف جنگ میں شامل ممالک کو وسیع پیمانے پر ہتھیار دے رہا ہے اور ان کی فوجی مدد کر رہا ہے‘ تاہم اسرائیل نے کبھی بھی اس جنگ میں شمولیت اور یمن کے غریب عوام کے قتل عام میں ملوث ہونے کی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے؛حالانکہ یمن کی عوامی تحریک ''انصاراللہ‘‘ کے رہنماؤں نے بارہا جنگ ِیمن میں اسرائیلی فوجیوں کی شمولیت کی بات کہی ہے‘ لیکن عالمی سطح پر کبھی بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ یمن کے خلاف جنگ میں شامل ممالک اسرائیل کے تعاون سے یمنی عوام کی سرکوبی کر رہے ہیں‘ جسے اقوام متحدہ نے تاریخ ِانسانیت کا سب سے خطرناک المیہ قرار دیا ہے۔''موساد‘‘ کے لیک ہونے والے دوسرے پیغام سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل '' حزب اللہ‘‘ سے کس حد تک خوفزدہ ہے۔ اس پیغام میں ''حزب اللہ‘‘ کے میزائلوں کی اپنے ہدف کو دقت سے نشانہ بنانے کی توانائی اور ٹیکنالوجی کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ان میزائلوں کے لانچ پیڈ کی لوکیشن اور ان کی تعداد کے بارے میں صحیح اطلاع حاصل نہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی ایرانی'' القدس فورس‘‘ کے اہم اور با اثر عہد دار تھے اور وہ مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ افغانستان میں بھی جاندار کردار ادا کر رہے تھے ۔ امریکی خفیہ ایجنسیاں ‘ اسرائیلی خفیہ ایجنسی '' موساد‘‘ کے ساتھ ملکرکافی عرصے سے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں کہ ان کو کیسے ختم کیا جا ئے ۔ جنرل قاسم سلیمانی کو قتل کرنے کیلئے ڈرون کیو نائن استعمال کیا گیا ۔ در اصل جنرل قاسم سلیمانی کے اس قتل کے پیچھے ''موساد‘‘ ملوث ہے ‘ صرف ٹریگر امریکا نے دبایا‘ جس ڈرون سے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا‘ وہ صرف اور صرف اسرائیل بناتا ہے۔ 
الغرض '' موساد‘‘ کی اس حالیہ کارروائی میں بھی وہی جال تھا اور وہی شکار ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved