تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-01-2020

وہ وقت یاد کیجیے !

ہم سبھی عمر کے کسی نہ کسی مرحلے میں ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں علم اور عمل دونوں ہی حوالوں سے کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں دوسروں پر انحصار کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ چھوٹی عمر میں ہم دوسروں کے علم کا سہارا لیتے ہوئے عمل کی طرف بڑھتے ہیں۔ ہر معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یوں سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے اور معاشرے پروان چڑھتے رہتے ہیں۔ سیکھنا اور سکھانا انتہائی بنیادی معاشرتی عمل ہے‘ جس کے بہتر انداز سے تکمیل پانے کی صورت میں ہمیں بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ متوازن معاشرے وہی ہیں‘ جن میں سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ یہ عمل زیادہ سے زیادہ معیاری ہو۔ 
بہت سوں کے مزاج میں فطری طور پر کچھ چڑچڑاپن پایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں سے کچھ سیکھنے اور اُنہیں کچھ سکھانے کے معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ انہیں تو میل جول میں بھی الجھن کا سامنا رہتا ہے۔ یہ الجھن بلا جواز ہوتی ہے‘ اگر مزاج میں ٹیڑھ ہو تو اُسے دور کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے‘ اگر میل جول میں الجھن محسوس ہوتی ہو تو متعلقہ معاملات کے ماہرین سے ملنا چاہیے ‘تاکہ وہ معاملات اور شخصیت کا تجزیہ کرکے بہترین مشوروں سے نواز سکیں۔ 
معاشرہ خیر کی طرف اُسی وقت بڑھتا ہے‘ جب ہم آہنگی فروغ پاتی ہے اور لوگ اشتراکِ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہر فرد یہ طے کرلے کہ اُسے کسی سے کوئی مدد نہیں لینی اور کسی کی مدد کرنی بھی نہیں تو پھر معاشروں کا برقرار رہنا محال ہوجائے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں غیر معمولی مسابقت پائی جاتی ہے‘ مگر یہ مسابقت نفرت اور کشیدگی کی بنیاد پر نہیں ‘بلکہ قابلیت اور مہارت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ لوگ قابلیت کا مظاہرہ کرنے کے معاملے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ مثبت رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ کسی کو ہرانے کا مطلب اُس سے انتقام لینا نہیں ‘بلکہ اپنی قابلیت اور مہارت کا بلند معیار تسلیم کرانا ہے۔ 
ہم زندگی بھر اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ ہماری سوچ بھی منفرد ہو اور عمل بھی۔ اور بات صرف اس خواہش و کوشش تک محدود نہیں رہتی‘ بلکہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری سوچ اور اُس سے مطابقت رکھنے والے عمل کو بلند تسلیم کریں۔ جب یہ خواہش پوری نہیں ہوتی‘ یعنی لوگ ہمارے افکار و اعمال سے اتفاق نہیں کرتے‘ تب ہمیں غیر معمولی الجھن محسوس ہوتی ہے۔ یہ فطری ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ بہت حد تک بلا جواز بھی۔ بلا جواز اس لیے کہ اس الجھن سے ہمارا وقت وقت ضائع ہوتا ہے اور اُس کے عوض ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ 
کیا ضروری ہے کہ لوگ ہماری ہر بات سے متفق ہوں اور ہمارے ہر عمل کو درست قرار دیتے ہوئے‘ اُسے سراہیں؟ اگر لوگ ہماری ہر بات کو درست مانیں اور ہمارے ہر عمل کو سراہیں تو ہمیں کیا ملتا ہے؟ اور اگر ایسا نہ ہو تو ہمارا کیا جاتا ہے؟ ان سوالوں پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ بیشتر انسان اپنے طور پر طے کرلیتے ہیں کہ جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں‘ وہ درست ہے اور اس سوچ کے مطابق‘ اُن کا کوئی عمل بھی غلط نہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ کسی جواز کے بغیر اپنی سوچ کے درست ہونے اور درست تسلیم کیے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے کسی عمل کو غلط تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہوتے ہیں۔ جب لوگ اُنہیں اُن کے افکار و اعمال میں پائی جانے والی خرابیوں سے آگاہ کرتے ہیں ‘تب وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنے افکار و اعمال کی غلطی کو بھی درست ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ 
میلکم ایکس کا شمار اُن شخصیات میں ہوتا ہے‘ جنہوں نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ اُنہوں نے اپنے قول و فعل سے اپنے بارے میں ایک ایسا تاثر قائم کیا ‘جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار ہے۔ میلکم ایکس نے کہا تھا؛ اگر اگر کوئی آپ کی طرح نہیں سوچتا اور اُس کا عمل بھی آپ کے عمل سے مطابقت نہیں رکھتا تو اُس پر شدید تنقید کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے وہ وقت یاد کیجیے جب آپ کو بھی بہت کچھ معلوم نہ تھا! 
ہم اس دنیا میں آمد پر علم کے اعتبار سے صفر پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں‘ ہمارے علم کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا جاتا ہے اور عمل کی دنیا بھی وسعت سے ہم کنار ہوتی جاتی ہے۔ یہ عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اگر کوئی سیکھنے سے انکار نہ کرے تو دنیا بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہ دنیا ہر آن تبدیل ہو رہی ہے۔ تبدیل ہوتی ہوئی‘ اس دنیا سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور ہم بھی اسے کچھ نہ کچھ سکھاتے ہیں۔ جب تک انسان نہ سیکھنے کی شعوری کوشش نہ کرے‘ تب تک سیکھتا ہی رہتا ہے۔ ہمارے وجود کا ایک بنیادی مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اپ گریڈ کرتے رہیں‘ یعنی سیکھتے رہیں ‘تاکہ ہمارے افکار و اعمال میں پائی جانے والی ہر نوعیت کی کجی دور ہوتی رہے اور ہم معیاری انداز سے جینے کے قابل ہوتے رہیں۔ 
اس دنیا میں بھرپور اور قابلِ رشک کامیابی صرف اُنہیں ملتی ہے ‘جو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہیں بہت کچھ معلوم نہ تھا اور بہت کچھ معلوم نہیں ہے۔ جب وہ اپنی کم علمی کو تسلیم کرتے ہیں‘ تب کچھ نیا سیکھنے کا ذہن بنتا ہے۔ جب تک ہم اپنی کم علمی کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہوتے ہیں ‘تب تک کچھ نیا سیکھنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر اُس انسان نے بہت کچھ سیکھا ہے‘ جس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ بہت کچھ نہیں جانتا تھا اور مزید بہت کچھ ایسا ہے‘ جو وہ نہیں جانتا۔ 
اپنے خیالات پر اَڑنا اور اُنہیں درست تسلیم کرانے پر بضد رہنا جہالت کی نشانیوں میں سے ہے۔ غلط سوچ کو درست منوانے اور پھر اُس کے مطابق ‘ اعمال کو ڈھالنے کی کوشش کرنے سے ایسی خرابیاں پنپتی ہیں ‘جو پورے وجود کو غیر متوازن کردیتی ہیں۔ زندگی کی سمت درست رکھنے کے لیے لازم ہے کہ حقیقت پسندی کو بنیادی شعار کے طور پر اپنایا جائے۔ ایسا کرنے سے انسان غیر ضروری انا کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہتا ہے۔ 
ہم میں سے کوئی بھی ہر اعتبار سے جامع نہیں۔ ہر انسان میں چند ایک خامیاں ضرور پائی جاتی ہیں۔ ان خامیوں پر قابو پائے بغیر وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ ایک بڑی خامی اپنے خیالات کے درست ہونے پر اصرار کرنا ہے۔ جب کوئی اپنے خیالات کو غلط یا ناقص نہیں مانتا تو پھر یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُس کے کسی عمل میں کوئی نقص پایا جاتا ہے۔ دوسروں سے اپنی ہر بات درست منوانے سے قبل انسان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ جب وہ بہت کچھ نہیں جانتا تھا‘ تب معاملات کیا تھے اور اُس نے دوسروں سے کیا سیکھا۔ کسی کا علم ابھی شیر خوارگی کے مرحلے میں ہے‘ تو کوئی بات نہیں۔ کبھی ہم بھی تو ایسے ہی تھے۔ تب دوسروں نے ہماری مدد کی تھی۔ اب‘ ہمیں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔ جو لوگ کم جانتے ہیں‘ اُن پرخاش رکھنے اور اُن پر تنقید کے تیر برسانے کی بجائے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ بہت کچھ جانیں‘ سیکھیں اور اُسی کے مطابق اپنے عمل کی سمت درست کریں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved