مولانا فضل الرحمن کے‘ کُچھ لوگوں کے نزدیک، بظاہر، ناکام دھرنے کے بعد قبل از وقت انتخابات اور اِن ہاؤس تبدیلی کی خبریں مسلسل گردش کر رہی ہیں۔ چونکہ قومی اسمبلی میں انہیں سادہ اکثریت حاصل نہیں ہے اور عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ ق لیگ، اختر مینگل، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ووٹوں کی مرہون منت ہے؛ چنانچہ کُچھ عرصے سے اتحادی جماعتیں بار بار عمران خان کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ چاروں اتحادی بڑے پائے کے منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی ہیں۔ اس لئے ان کی کسی وارننگ یا ناراضی کو بے سبب نہیں سمجھنا چاہئے۔ اختر مینگل کے بعد ایم کیو ایم نے انگڑائی لی اور فی الوقت کابینہ سے نکل آئی ہے۔ اسد عمر کی سربراہی میں بہادر آباد جانے والا وفد مایوس لوٹا اور ایم کیو ایم کو کابینہ میں واپس لانے میں ناکام رہا۔ ایم کیو ایم کے مطالبات کی فہرست کافی طویل ہے۔ اگر وہ مطالبات پورے ہو جائیں تو ان کے وارے نیارے ہیں‘ ورنہ پھر نئی بس تیار ہو رہی ہے کیونکہ بلاول ان کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دے چکے ہیں اور ایم کیو ایم نے اس کا کوئی زیادہ بُرا نہیں منایا تھا۔ اعتزاز احسن کے مسلم لیگ ن کے خلاف بیانات کو پیپلز پارٹی ان کی ذاتی رائے قرار دے چکی ہے‘ جس کا مطلب واضح ہے کہ بلاول بھی مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت ن اور پی پی پی کو عارضی طور پر ہی سہی مل کر کھیلنا پڑ سکتا ہے۔ ق لیگ کی طرف سے بھی ناگواری کا ایک بیان آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔ جی ڈی اے بھی خربوزے کی طرح رنگ پکڑ رہا ہے۔ سو صورتحال ڈانواں ڈول ہے جبکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسی ہے کہ شک کئے بنا رہا نہیں جا سکتا۔
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پارلیمنٹ کا شمار وطن عزیز کے کمزور ترین اداروں میں ہوتا ہے‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ‘ جو بالا دست ادارے کہلاتے ہیں‘ کئی وجوہ کی بنا پر اپنا وجود نہیں منوا سکے اور اس کے سربراہ‘ صدرِ مملکت‘ اس سے بھی زیادہ کمزور تصور کیے جاتے ہیں۔ ماسوائے صدر آصف علی زرداری کے کوئی بھی صدرِ مملکت اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا اور مزید یہ کہ ایوانِ صدر کے مکین کو جب بھی با اختیار بنایا گیا وہ ستم گر نکلا‘ اس نے بار بار اپنے ہی خالق پارلیمان کو کمزور کیا‘ اس پر حملے کئے اور پارلیمنٹ کے ایک حصے یعنی قومی اسمبلی کو متعدد بار تحلیل کیا گیا۔ اس لئے گزشتہ 72 برسوں میں آج تک صرف تین بار پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر سکی اور وزیر اعظم ایک بھی ایسا نہیں ہے‘ جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہو، وجہ کوئی بھی بنی ہو، وزیر اعظم کو قبل از وقت گھر یا جیل جانا پڑا۔ گزشتہ تین پارلیمان میں ایک نیا ماڈل سامنے آیا یا لایا گیا کہ قومی اسمبلی نے تو اپنی مدت پوری کی لیکن اس ایوان کے سربراہ وزیر اعظم کو تبدیل کیا جاتا رہا۔ یہ کامیاب ایکسرسائز سال 2002 سے جاری ہے کہ جس میں صرف وزرائے اعظم تبدیل کئے گئے اور قومی اسمبلی کو کُچھ نہیں کہا گیا۔ میر ظفراللہ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین، شوکت عزیز، سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ ماڈل شاید پاور کوریڈورز کو بھی سُوٹ کر گیا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری اصولوں کے برعکس، وزیر اعظم کی آئینی مدت پوری کرنے کی ضمانت یا انحصار ہرگز ہرگز اس بنیاد پر نہیں ہوتا کہ اس کی جماعت کو ایوان میں اکثریت حاصل ہے‘ اس لئے اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ عہدے پر برقرار رہنے کیلئے لازم ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 پر پورا اترتا ہو اور وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر من و عن عمل کرے‘ جیسا کہ عدالتیں سوچتی اور اپنے فیصلوں کی تشریح کرتی ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالتی فیصلوں کے نتیجے میں فارغ ہونا پڑا تھا۔ دوسرا یہ تاثر بڑا عام ہے کہ جس وزیر اعظم کے انتخاب میں راولپنڈی کی مرضی و منشا اور کوشش شامل ہو اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی عملاً درست نہیں ہے۔1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جنرل ضیاالحق شہید نے اپنے لئے ایک وزیر اعظم کا انتخاب کرنا تھا۔ بہت سے ناموں پر غور کیا گیا۔ کافی تگ و دو اور جانچ پڑتال کے بعد شارٹ لسٹ کر کے جنرل ضیاالحق کو وزارت عظمیٰ کیلئے موزوں ترین امیدواروں پر مشتمل تین ناموں کا پینل پیش کیا گیا۔ پینل میں بلوچستان سے میر ظفراللہ جمالی‘ سندھ سے الٰہی بخش سومرو اور محمد خان جونیجو تھے۔ معلومات حاصل کی گئیں کہ ان تینوں میں سے سب سے زیادہ بے ضرر‘ تابع دار‘ قابل اعتماد‘ قابل اعتبار‘ احسان مند اور وفادار کون سا امیدوار ثابت ہو گا۔ پھر اچھی خاصی عرق ریزی اور سوچ بچار کے بعد اقتدار کا ہُما محمد خان جونیجو کے سر بیٹھا اور انہیں وزیر اعظم بنا دیا گیا‘ لیکن محمد خان جونیجو جیسے شریف النفس اور عاجز وزیر اعظم بھی زیادہ دیر تک نہ چل سکے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کو روکنے میں ناکامی ان کی پہلی غلطی اور افغان امن معاہدہ اور اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کو جاری رکھنا جونیجو کی آخری غلطی شمار کی گئی۔ جونیجو مرحوم کی کُچھ غیر رسمی اور نجی محفلوں میں ہونے والی گفتگو جنرل ضیاالحق تک پہنچائی گئی‘ جس سے جنرل ضیاء نے محسوس کیا کہ جونیجو سرخ لائن کی طرف بڑھ رہے ہیں اور واقعی وزیر اعظم بننے کی کوشش میں ہیں‘ لہٰذا انہیں بر طرف کر کے قومی اسمبلی توڑ دی گئی۔ اس کے بعد جو جو سانحات رونما ہوئے اور ان سانحات میں سے کیا کُچھ برآمد ہوا اس کے نتائج آج تک بُھگتتے چلے آ رہے ہیں۔
2002 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پہلے پہل پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت بنانے کی لا حاصل کوشش کی گئی۔ مخدوم امین فہیم مرحوم کو وزیر اعظم کا پروٹوکول دے دیا گیا۔ ان کی مقتدر اتھارٹیز سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جنرل پرویز مشرف سے مونال کے مقام پر ملاقات ہو چکی تھی۔ پاور شیئرنگ کی جُزیات طے کی جا رہی تھیں‘ لیکن اچانک امین فہیم سے پروٹوکول واپس لے لیا گیا اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی امین فہیم کی نامزدگی واپس لے لی۔ پھر 1985 والا ماڈل لانے کا فیصلہ ہوا کہ ایک کمزور شخص کو وزیر اعظم بنایا جائے۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی وزیر اعظم کی تلاش تھی۔ مسلم لیگ ق کے سربراہ میاں اظہر کو پہلے ہی آؤٹ کر دیا گیا تھا اور وہ الیکشن ہار چکے تھے۔ ان کے بعد قد آور شخصیت چوہدری شجاعت حسین تھے‘ لیکن وہ بھی مطلوبہ معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ بہت سے ارکان اسمبلی کے انٹرویوز کیے گئے۔ جہانگیر ترین بھی موسٹ فیورٹ تھے‘ لیکن 1985 کی شارٹ لسٹ سے ہی استفادہ کیا گیا اور بلوچستان سے میر ظفراللہ جمالی کو وزیر اعظم کے لئے منتخب کیا گیا‘ لیکن جمالی صاحب سے بھی انجانے میں بعض ایسی غلطیاں سرزد ہوئیں کہ وہ جنرل پرویز مشرف کا اعتماد کھو بیٹھے اور ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ہمایوں اختر خان نے وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن چوہدری برادران کی بھرپور مزاحمت کے بعد ہمایوں اختر خان کامیاب نہ ہو سکے اور نیا ماڈل متعارف کرنے کا فیصلہ کیا گیا کہ ایک غیر سیاسی ٹیکنوکریٹ کو وزیر اعظم بنایا جائے۔ اس کے لئے وزیر خزانہ سینیٹر شوکت عزیز پر نظر ٹھہری۔ انہیں رکن قومی اسمبلی منتخب کروایا گیا۔ اس دوران چوہدری شجاعت حسین کو عارضی بندوبست کے تحت 45 دن کا وزیر اعظم بنایا گیا‘ اور بقیہ مدت شوکت عزیز وزیر اعظم رہے اور پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کی۔ اب پھر صورتحال بے یقینی والی ہے۔ عمران خان اس صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں‘ یہ ان کا پہلا سیاسی امتحان ہے کیونکہ اب پارلیمان کی تمام جماعتیں پاور پلیئر پر اپنا احسان کر چکی ہیں۔ عمران صورتحال کو سنبھال نہ پائے تو پھر کوئی بھی سیاسی ماڈل دوبارہ آزمایا جا سکتا ہے۔