تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     14-01-2020

بعد از نیو کان دنیا

ایران اور امریکہ کے مابین موجودہ مخاصمتی واقعات معاصر عالمی سیاست کو سمجھنے میں بہت معاون ہیں۔ ان کے سبب عالمی قوتوں کے اس خطے میں موجود مخفی مفادات طشت از بام ہو گئے ہیں، ایک نئی 'گریٹ گیم‘ کی آوازِ جرس ہمارے ہمسائے سے آنا شروع ہو چکی ہے۔ اور شاید اس سے بھی اہم چیز یہ ہے کہ جنرل سلیمانی کی شہادت پر ایران کی جانب سے امریکی فوجی دھونس کوللکارے جانے نے مشرقِ وُسطیٰ میں امریکہ کو ایک اور طویل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
آئیے ان معاملات کو ایک ایک کرکے کھولتے ہیں۔ اسّی کی دہائی میں روسی فوجوں کی افغانستان میں شکست، اس کے نتیجے میں نومبر1991ء میں دیوارِ برلن کا انہدام اور اسی سال دسمبر میں سوویت یونین کے اپنے انجام کو پہنچ جانے کی وجہ سے دنیا یک قطبی ہو گئی۔ سلطنتِ روما کے زوال کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا پر کسی ایک مُلک کی 'اجارہ داری‘ قائم ہوئی۔ اس بار یہ ملک امریکہ تھا۔ ان غیرمعمولی واقعات کا نتیجہ، 90 کی دہائی میں امریکہ کی بلا تعطل نمو کا نقیب بنا۔ ان کی فوجی قوت کو کسی حریف کا سامنا نہ تھا۔ ان کی معاشی رسائی کے سامنے کوئی رُکاوٹ نہ تھی۔ اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب ان کی سیاسی طاقت لازوال ہے۔
تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جب بھی کوئی ایک ریاست اپنی معاصر ریاستوں پر غلبہ پا لیتی ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ تضادات کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ امریکہ بھی اس حوالے سے کوئی تخصیص نہیں رکھتا۔ نئی صدی کے آتے ہی، 9/11 کے تناظر میں، امریکہ نے دنیا پر اپنی یک قطبی قوت کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سات اکتوبر2001ء کو آپریشن 'انڈیورنگ فریڈم‘ یا پائیدار آزادی کا آغاز کیا گیا۔ 'دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نعرے کے تحت امریکہ نے بے یارومددگار افغانستان کو روند ڈالا۔ 
افغانستان میں مداخلت تو کیک کے ایک ٹکڑے جیسی تھی۔ دونوں ممالک کی قوت کے مابین جو تفاوت تھا اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ایک جانب تکنیکی اعتبار سے دُنیا کی سب سے شاندار فوجی ایمپائر تھی؛ دوسری جانب وہ لوگ تھے جو (حقیقی معنوں میں) ڈنڈوں اور پتھروں سے مسلح تھے۔ ریاستہائے متحدہ پُرغرور اورجنگلی پن پر اُتری ہوئی تھی۔ وہ 'صدمے اور خوف‘ سے دھمکا رہی تھی اور بغیر کسی حقیقی رُکاوٹ کا سامنا کیے اپنی دھمکی پر عمل پیرا تھی۔ یک قطبی دُنیا اپنا رنگ دِکھا رہی تھی۔ اور کوئی بھی افغانستان میں جاری امریکہ کی فوجی مہم جوئی کی راہ میں رُکاوٹ پیدا کرنے کے قابل نہ تھا۔ افغانستان میں مداخلت کی جنگ جیتنا آسان تھا؛ تاہم اسے مطیع بنا لینے کا ناممکن مقصد گزشتہ دو دہائیوں سے حاصل نہیں کیا جا سکا۔ افغانستان پر یلغار میں کامیابی نے امریکہ کو اپنی قوت کے بارے میں مزید پُر یقین بنا دیا۔ افغانستان کو تہس نہس کرنے کا عمل امریکی فوجی قوت کے لیے کسی ویڈیو گیم سے زیادہ ثابت نہ ہوا۔ اب وہ مزید کیا کر سکتے تھے؟ اب اس بپھرے سانڈ کا رُخ کس جانب ہو سکتا تھا؟
اپنی طاقت کے نشے میں دُھت بش انتظامیہ کے ممبران نے ایک اور زیادہ نفوذ پذیر منصوبہ پیش کیا۔ نیو ورلڈ آرڈر۔ مشرقِ وُسطیٰ کی ایسی تشکیل نو جو امریکی مفادات کے لیے زیادہ موثر ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ریاستہائے متحدہ کو دستیاب ہر اوزار استعمال میں لایا گیا۔ عالمی میڈیا مشین (سی این این، فاکس وغیرہ وغیرہ)، سیاسی قوت رکھنے والی عالمی تنظیمیں (اقوام متحدہ اور اس کی سکیورٹی کونسل وغیرہ) الغرض عالمی رسائی رکھنے والی ہر یک قطبی شے کو استعمال کرکے امریکہ نے جھوٹا جواز گھڑا: عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ عالمی میڈیا مشین نے زمینی حقائق کی جانب سے آنکھیں بند کر لیں اور پوری قوت سے جنگی جنون کی دھن بجاتا رہا۔ اس کے بعد امریکہ نے عالمی سیاسی اداروں میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ایک عالمی اتحاد کا تاثر پیدا کر دیا۔ اس معاملے میں حمایت حاصل کرنے کے لیے آزاد تجارتی معاہدوں کی رشوت اور تجارتی پابندیوں کی دھونس جمائی گئی۔ جب یہ بناوٹی حمایت حاصل ہو گئی تو عراق پر یلغار کا منصوبہ بروئے کار لایا گیا۔
ایک بار پھر صورتحال یہ تھی کہ جس ملک پر یلغار کی جا رہی تھی وہ جواب دینے کے قابل نہ تھا۔ دہائیوں سے پابندیوں کا شکار عراق امریکی فوجی مشین سے لڑنے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ یہ کسی پارک میں چہل قدمی کرنے جیسی لڑائی تھی۔ جنگی سہولت اس حد تک تھی کہ مارچ 2003ء میں عراق پر حملے کے آغاز کے چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی ڈونلڈ رمزفیلڈ (امریکی وزیر دفاع) نے اعلان کر دیا کہ عراق کی فضائی حدود پر 'مکمل برتری‘ قائم کی جا چکی ہے۔ ملک گیری کا معاملہ سادہ تھا؛ تاہم عراق میں جنگ جیتنے کا مقصد اب بھی مبہم (ناقابل حصول؟) ہے۔
آنے والے برسوں میں امریکہ کو اپنی فوجی قوت کی حدود کا اندازہ ہونے لگا۔ چین کے سایوں میں سے اُبھر کر سامنے آنے اور ولادی میر پیوٹن کی سرکردگی میں تازہ دم ہو چکے روس نے یک قطبی دُنیا کے اسطورے کو لڑکھڑا دیا۔ یک قطبی دُنیا میں زندگی بسر کرتے دوستوں اور دُشمنوں کے لیے نئے امکانات کے در وا ہو گئے تھے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والی دہائی میں شام، لبنان اور خلیج کے دیگر بڑے ممالک میں حکومتی تبدیلیوں کا امریکی خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ لیکن امریکہ کی سیاسی قوت کا بھانڈہ بیچ چوراہے میں پھوٹ جانے کے باوجود کسی نہ کسی طور اس کی فوجی قوت کا اسطورہ اپنی جگہ ثابت و سالم موجود ہے اور اب صدر ٹرمپ کے الفاظ میں ''اب تک کی دنیا میں سب سے بڑی اور بہترین‘‘ فوجی ایمپائر، امریکہ نے ایران کو جنگ کے میدان میں للکارنے کا فیصلہ کیا۔ 
اس کا طریقہ کار؟ پہلے سعودی تیل تنصیبات آرامکو پر حملے کو جواز بنا کر ایران اور سعودی عرب کے مابین جنگ کے امکانات کا ہوا دی گئی‘ لیکن جب یہ حربہ کارگر نہ ہو سکا تو امریکہ نے براہِ راست ایران پر حملے کا فیصلہ کر تے ہوئے جنرل قاسم سلیمانی کو بِنا للکارے نشانہ بنا ڈالا۔ لیکن پینٹا گان اور لینگلے میں بیٹھے ہوئے ڈیپ سٹیٹ کے منصوبہ سازوں نے ایرانی ردعمل کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے۔ خصوصاً امریکہ نے مشرق وُسطیٰ میں عوامی جذبات کو تو بالکل بھی نہیں بھانپا خصوصاً وہ احترام (یا محبت کہہ لیجیے) جو شیعہ ہلال تشکیل دینے والے ملکوں میں جنرل سلیمانی کو حاصل تھا‘ اور سب سے بڑھ کر امریکہ نے ایران کی ردِعمل کی قوت کے بارے میں بالکل غلط اندازہ قائم کر رکھا تھا۔
یک قطبی دنیا کی تشکیل کے بعد پہلی بار امریکہ کو فوجی مزاحمت کے خطرے کا سامنا تھا۔ ایران کوئی مٹی کا مادھو نہیں۔ اس کے پاس فعال فوجی قوت ہے اور خطے میں اس کا اثرورسوخ بھی ہے۔ یقینا ایرانی فوجی قوت امریکہ کے مساوی نہیں‘ لیکن اس میں دَم خم ہے اور وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کا عزم بھی رکھتے ہیں۔
جیسے ہی ایران نے امریکہ کے حملے کا جواب دینے کا فیصلہ کیا‘ امریکی غبارے سے ہوا نکل گئی۔ امریکی صدر اور اس کے عالمی میڈیا کا لہجہ بدل گیا۔ کیا ہونے جا رہا تھا؟ ٹرمپ نے جنرل سلیمانی پر حملہ کیوں کیا؟ کیا ہم ایک اور جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ فوجوں کو گھر واپس لانے کے وعدے کا کیا ہوا؟ مزاحمت کے خوف سے ایسے اور اس جیسے کئی اور سوالات اٹھائے جانے لگے۔ بعد میں، سیکرٹری مائیک پومپیو نے عالمی حصہ داروں سے رابطہ کرکے ان پر زور دیا کہ وہ ایران کو سمجھائیں‘ امریکہ بات بڑھانا نہیں چاہتا‘ وہ جنگ کا خواہاں نہیں اور تقریباً بناکسی شرط کے وہ بات چیت کیلئے تیار ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فوراً ہی صدر پیوٹن شام کے بشارالاسد سے ملنے جا پہنچے۔ انہوں نے اپنا وزن خطے میں ایران کی ہمدرد قوتوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ امریکہ کو سینہ ٹھونکنے کی اپنی پالیسی سے مکمل طور پر پسپائی پر مجبور ہونا پڑ گیا۔ غنڈے نے اپنی گیدڑ بھبکیوں سے رجوع کر لیا۔ اسکی تمام تر بہادری ہوا ہوگئی اور باقی جو بچا ہے وہ عالمی غلبے کا پامال شُدہ خواب ہیں۔
سب دیکھنے والوں‘ خصوصاً خطے میں‘ کو علم ہو چکا ہے کہ امریکہ میں مزید کسی جنگ کی سکت نہیں۔ یک قطبی دُنیا لڑکھڑا رہی ہے۔ آنے والے برسوں میں یہ سبق یاد رکھے جانے کے قابل ہے کہ اب ہم ایک بعد از نیو کان دُنیا کے باسی ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved