تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-01-2020

مزا تو جب ہے کہ …

دنیا کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ کسی کے لیے کبھی آسانی کا اہتمام نہیں ہونے دیتی۔ مسابقت ختم نہیں ہوتی اور کسی نہ کسی حوالے سے مخاصمت بھی برقرار رہتی ہے۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے‘ کیونکہ جب ہم اپنے مفادات کے لیے متحرک ہوتے ہیں‘ تب بہت سوں کے مفادات داؤ پر لگ رہے ہوتے ہیں۔ ہماری کامیابی کسی کی ناکامی بھی تو ہوتی ہے۔ کھیل کے میدان میں کوئی بھی ٹیم‘ اُسی وقت فتح سے ہم کنار ہوتی ہے‘ جب مخالف ٹیم شکست سے دوچار ہوتی ہے۔ 
جب ہم کسی ہدف کو متعین کرکے اُس کی طرف بڑھنے کا عمل شروع کرتے ہیں‘ تب لوگ متوجہ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمیں کامیابی سے ہم کنار دیکھنا چاہتے ہیں اور کچھ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ ہم کسی نہ کسی طور شکست سے دوچار ہوں۔ یہ کردار کا نہیں‘ مزاج کا معاملہ ہے۔ کسی کے دل میں چاہے جتن بھی خلوص ہو‘ اُس کے چند مفادات بھی تو ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو داؤ پر لگتے ہوئے دیکھ کر بدک جاتا ہے‘ بھڑک اٹھتا ہے‘ اگر آپ نے کچھ طے کرلیا ہے‘ کوئی ہدف متعین کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ اس راہ میں قدم قدم پر الجھنیں ہیں‘ پریشانیاں ہیں اور اِن پریشانیوں کو جھیلتے ہوئے آگے بڑھنے ہی میں سفر کا اصل لطف پوشیدہ ہے۔ کوئی کتنے ہی وسائل رکھتا ہو‘ کامیابی یقینی بنانا اُس کے لیے کبھی کوئی آسان کام نہیں ہوا کرتا۔ 
آپ جس ماحول کا حصہ ہیں‘ اُس میں کچھ لوگ آپ سے محبت کرتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوں گے‘ جو کسی بھی ٹھوس جواز کے بغیر آپ کو ناپسند کرتے ہوں گے۔ یہ معاملہ عمومی ناپسندیدگی تک محدود رہے تو زیادہ قابلِ اعتراض نہیں۔ ہاں‘ جب کوئی منطقی حدود سے آگے بڑھ کر معاملات کو بگاڑنے پر تُل جاتا ہے تب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ فی زمانہ بھرپور کامیابی یقینی بنانا‘ اس قدر مشکل ہے کہ جب کوئی کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے تو اُسے دیکھ کر خوش ہونے والوں کو انگلیوں پر گِنا جاسکتا ہے۔ بیشتر کا معاملہ یہ ہے کہ آپ کی کامیابی کو دیکھ کر اُنہیں اپنی ناکامی یاد آجاتی ہے اور وہ شدید الجھن سی محسوس کرتے ہوئے آپ کی خوشی میں مطلوب جوش و خروش کے ساتھ شریک نہیں ہوتے۔ 
کسی بھی انسان کے لیے اصل امتحان کیا ہے... یا کیا ہوسکتا ہے؟ یہ دنیا قدم قدم پر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی چیلنج پیش کرتی رہتی ہے۔ جو لوگ چیلنج قبول کرنے کے عادی ہوتے ہیں‘ وہ اپنی کارکردگی سے مطمئن رہتے ہیں اور بھرپور کامیابی یقینی بنانے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں۔ ماحول میں چند افراد ہی آپ کے حق میں ہوتے ہیں اور حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔ دیگر کا معاملہ بلا جواز مخاصمت اور مخالفت کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی ناکام انسان کسی جواز کے بغیر آپ کی حوصلہ شکنی پر تُل جاتا ہے۔ آپ کی کامیابی یا ناکامی سے جن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ‘وہ بھی بظاہر کسی جواز کے بغیر‘ اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ آپ کامیاب نہ ہوں یا زیادہ کامیابی آپ کے حصے میں نہ آئے۔ ایسے لوگ آپ کے ذہن کو منتشر رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ جب بھی کچھ کہتے ہیں تو بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کا حوصلہ شکست و ریخت کا شکار ہو اور آپ اپنے بارے میں بدگمان ہو جائیں۔ 
جب کوئی آپ سے کسی بھی نوعیت کی حوصلہ شکن بات کہتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ آپ کچھ دیر کے لیے بد دل تو ہو ہی جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے بدخواہوں کی پسند کی ہوئی راہ پر چل رہے ہیں۔ وہ یہی تو چاہتے ہیں کہ آپ کسی بھی حوالے سے بد دل ہوں اور حوصلہ ہار جائیں۔ جینے کا مزا بہت سے معاملات میں ہے۔ ایسا ہی ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی کی کڑوی کسَیلی باتوں کی پروا کیے بغیر اپنے کام سے کام رکھیں‘ پورے انہماک کے ساتھ محنت کرتے رہیں۔ 
جب بھی کوئی آپ کو کسی معاملے میں بدگمان کرنے کی کوشش کرے تو طے کرلیجیے کہ آپ اُس کی کسی بھی بات پر دھیان نہیں دیں گے۔ اگر آپ حوصلہ شکن باتوں پر متوجہ ہوکر اپنے بارے میں بدگمان ہوں گے تو مسائل بڑھیں گے‘ الجھنوں کا دائرہ وسعت اختیار کرے گا۔ یہ نکتہ ہمہ وقت ذہن نشین رہے کہ جب آپ کسی بھی طرف سے رونما ہونے والی مخاصمت اور مخالفت کا ڈٹ کر سامنا کرنے کا ذہن بناتے ہیں‘ تب زندہ رہنے کا لطف بڑھ جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں لوگوں کا عمومی مزاج یہ ہوتا ہے کہ کسی کی کامیابی سے زیادہ غرض نہ رکھی جائے اور ناکامی کا منتظر رہا جائے۔ آپ بھی معاشرے کا حصہ ہیں‘ اس لیے اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ کسی کی رائے کو اپنے وجود پر مسلط کرنے کی بجائے خود سوچنا اور آگے بڑھنا ہے۔ جب انسان اپنے طور پر کچھ طے کرتا ہے ‘تو اُسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے منصوبہ سازی بھی لازم ٹھہرتی ہے۔ اور اس سے کہیں بڑھ کر حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ 
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ سب سے زیادہ لطف کس کام کے کرنے میں آتا ہے؟ آپ زندگی بھر جو کچھ کرتے ہیں‘ اُس کی مخالفت کرنے والے بھی کم نہیں ہوتے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ سب سے زیادہ لطف اُس کام کے کرنے میں آتا ہے‘ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ نہیں کرسکتے! کسی بھی حوالے سے رونما ہونے والی مخالفت اگر ایک طرف تھوڑی سی حوصلہ شکنی کرتی ہے تو دوسری طرف انسان کو ڈٹے رہنے کی تحریک بھی تو دیتی ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کا آپ پر کیا اثر مرتب ہوگا ‘اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہے‘ کسی اور کو نہیں۔ اس حوالے سے تربیت لازم ہے۔ کسی بھی انسان کی بنیادی تربیت عملی زندگی کے بیشتر معاملات میں کلیدی نوعیت کا کردار ادا کرتی ہے۔کنور مہندر سنگھ بیدی سَحرؔ نے کیا خوب کہا ہے: ؎ 
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل 
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے 
یعنی یہ کہ زندگی ڈٹ جانے کا نام ہے۔ لوگ آپ کی راہ میں روڑے اٹکاتے رہیں گے‘ آپ کو مختلف حوالوں سے الجھن کا شکار کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ آپ کو اِس طلسمات میں مُڑ کر نہیں دیکھنا۔ دنیا جو چاہے کہتی رہے‘ آپ کو اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ کسی کی پیدا کردہ بدگمانی کے جال میں پھنس کر آپ کو عمل کی حقیقی تحریک سے محروم ہونے کا آپشن اختیار نہیں کرنا ہے۔ آپ نے جو کچھ طے کر رکھا ہے‘ وہی کرتے رہنا ہے۔ ہاں‘ اگر حالات آپ کے کسی منصوبے میں کسی ترمیم کے متقاضی ہوں تو غفلت کا مظاہرہ مت کیجیے اور جو ترمیم کرنی ہے وہ لازمی طور پر کیجیے۔ 
آج کی دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ مسابقت ہے۔ کسی بھی شعبے میں پورے جواز کے ساتھ نام کمانا اب‘ کسی بھی اعتبار سے آسان نہیں رہا‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ حوصلہ ہار جائیں اور اپنے لیے کمتر اہداف پر گزارا کریں۔ بھرپور کامیابی کے لیے سوچ کا بلند رکھا جانا لازم ہے۔ اہداف ایسے ہونے چاہئیں جو بہت حد تک چیلنج کا درجہ رکھتے ہوں۔ ایسی حالت ہی میں آپ بھرپور محنت کی طرف متوجہ ہوں گے‘ اپنے وجود کو بروئے کار لانے کی حقیقی تحریک پائیں گے۔ لوگوں کی منفی رائے کی زیادہ پروا مت کیجیے‘ بس اتنا یاد رکھیے ؎ 
وہ کون سا عُقدہ ہے جو وَا ہو نہیں سکتا 
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved