کبھی کبھار لگتا ہے ہم صحافی دیواروں کے ساتھ سر پھوڑنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ جن لوگوں کو ہم اپنے تئیں مگرمچھوں کے استحصال اور لوٹ مار سے بچانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں وہی الٹا ہم پر پل پڑتے ہیں۔
یہ تمہید اس لیے تھی کہ پچھلے دنوں کالم لکھا تھا کہ کیسے ارشد شریف کے شو میں ماہر معیشت ڈاکٹر زبیر خان نے تفصیل سے بتایا تھا کہ'' ہاٹ منی‘‘ کے نام پر پاکستانی معیشت کو تباہ کیا جارہا ہے۔ ''ہاٹ منی ‘‘کا تصور میرے لیے نیا تھا‘ لہٰذا جو کچھ میں نے ڈاکٹر زبیر خان سے سنا اسے کالم میں رپورٹ بھی کیا اور حیران بھی ہوا کہ اس ملک میں کیا کیا طریقے اختیار کر لیے گئے ہیں۔ اس کالم کے بعد بہت سے لوگوں نے وہی روایتی طور پر مذاق اڑایا کہ آپ لوگوں کو کیا پتہ اکانومی کیا ہوتی ہے‘باہر سے کوئی بھی آجائے‘ کچھ بھی کہہ دے یہ پوری قوم اس پر ایمان لے آتی ہے۔
خیر اس کالم کے بعد اس پر کچھ ریسرچ کی کہ یہ '' ہاٹ منی‘‘ کیا ہے اور اس کے اچھے بُرے نتائج پاکستانی اکانومی پر کیسے پڑ سکتے ہیں۔ ابھی میں ریسرچ کر ہی رہا تھا کہ محمد مالک نے ایک اور پروگرام کیا جس میں انہوں نے چار معاشی ماہرین کو بلایا ہوا تھا اور اس میں ''ہاٹ منی‘‘ کا بھی ایشو ڈسکس ہوا ۔ یہ ماہرین ثاقب شیرانی‘ ڈاکٹر اشفاق حسن خان‘ گوہر اعجاز اور سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان تھے۔ انہوں نے جو اکانومی کے حوالے سے گفتگو کی وہ اگر ساری یہاں لکھ دی جائے تو لوگوں کی حالت دیکھنے والی ہو کہ اکانومی کے ساتھ کیا کھلواڑ کیاجارہا ہے۔ رہی سہی کسر سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے پوری کر دی کہ انہوں بھی ہاٹ منی پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ملکی معیشت کے لیے زہر ثابت ہورہی ہے۔ اس کے بعد میں نے اکانومی کی رپورٹنگ کرنے والے بہترین رپورٹرز شہباز رانا اور مہتاب حیدر کی فائل کی ہوئی خبریں پڑھیں۔ ابھی بھی میری تسلی نہ ہوئی تو میں نے فنانس منسٹری کے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ وہ سمجھائیں یہ سب کیا ہے؟ خیر اس کے بعد میں نے اور لوگوں سے بات کی تاکہ اسے مزید سمجھا جائے کہ پاکستان کو ہاٹ منی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔
اب سادہ لفظوں میں سمجھایا جائے تو ہاٹ منی زیادہ تر ان ملکوں میں لائی جاتی ہے جن کے فارن ریزروز کم ہوں تو انہیں بڑھایا جائے۔ یہ شارٹ ٹرم مہنگا قرض کہہ لیں۔ اس پر لوکل کرنسی میں پرافٹ دیا جاتا ہے اور جب یہ لوگ چاہیں وہ پیسہ نکال سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہاٹ منی کا تصور وہاں زیادہ ہے جہاں آئی ایم ایف کا پروگرام شروع ہوتا ہے۔ پہلے آئی ایم ایف حکومتوں کو پابند کردیتی ہے کہ بینکوں کا انٹرسٹ ریٹ کیا ہوگا ‘ ڈالر ریٹ کیا ہوگا اور کسی اور عالمی ادارے سے قرض نہیں لے سکیں گے اور اگر لیں گے تو بتائیں گے واپسی کیسے ہوگی ۔پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ پہلے آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ڈالر کا ریٹ طے کیا کہ اس سے نیچے نہیں آئے گا ‘ پھر سوا تیرہ فیصد انٹرسٹ ریٹ طے کیا اور ساتھ یہ کہا کہ اب آپ ورلڈ بینک وغیرہ سے قرض نہیں لیں گے‘ اگر لیں گے تو پہلے بتائیں گے کہ واپسی کیسے ہوگی؟ یوں بچ بچا کر ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ آپ نے ریزرو بڑھانے ہیں تو ان عالمی ساہوکاروں سے رابطہ کریںجو تین تین ماہ کے لیے آپ کو ڈالرز دیتے ہیں اور آپ انہیں لوکل کرنسی میں سوا تیرہ فیصد منافع دیتے ہیں ۔ اب تک پاکستان ڈیڑھ ارب ڈالرز کے قریب یہ ''ہاٹ منی ‘‘امریکہ‘ برطانیہ اور دبئی سے اکٹھی کرچکا ہے اور ہمیں بتایا جارہا ہے کہ اس سے ڈالر کا ریٹ کم ہوگا کیونکہ جب منافع اتنا زیادہ مل رہا ہو تو بہت لوگ پیسہ دیں گے جیسے مصر میں ہوا جہاں بیس ارب ڈالرز تک ہاٹ منی اس طرح اکٹھی کی گئی تھی ۔تو کیا واقعی پاکستان ان کمپنیوں کو پاکستانی کرنسی میں منافع دے گا؟ اگر دے گا تو پھر پریشانی کیا ہے؟
اب اصل کہانی سنیں۔
مثال کے طور پر ایک کمپنی نے پاکستان کو ایک کروڑ ڈالرز ہاٹ منی تین ماہ کے لیے دی ہے تو پہلے اس رقم کو پاکستانی روپے میں تبدیل کیا جائے گا جو ڈالر ریٹ پر تقریباً ایک ارب پچپن کروڑ روپے بنیں گے۔ اب تین ماہ کے لیے اس پر سوا تیرہ فیصد سود دیا جائے گا ۔ فرض کریں سود سمیت رقم پونے دو ارب یا دو ارب روپے بن جاتی ہے‘ اب تین ماہ بعد ان دو ارب کو بشمول سود اس دن کے ڈالر ریٹ پر تبدیل کر کے اس کمپنی کو ڈالروں کی شکل میں ہی واپس کریں گے۔ اب کوئی سرمایہ دار پاکستانی روپے کے ٹرک بھر کر پرافٹ کے طور پر تو نیویارک میں امریکن بینک میں واپس ڈپازٹ نہیں کرائے گا‘ وہ ڈالرز ہی کرائے گا ۔ یوں پاکستانی روپوں کے سود کو بھی ڈالروں میں تبدیل کر کے ان سرمایہ داروں کو دیا جائے گا اور اس وقت پاکستان میں مارک اپ ریٹ آسمان کو چھو رہا ہے یوں یہ عالمی سرمایہ دار تین ماہ بعد ہی بڑی بڑی رقمیں ڈالروں کی شکل میں پرافٹ لے کر جائیں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان عالمی سرمایہ کاروں کو سود ادا کرنے کیلئے پاکستان کہاں سے ڈالر لائے گا‘ کیونکہ ڈالر نہیں تھے تو ہاٹ منی لائی گئی ۔ یا تو پاکستان کے اپنے ڈالر ریزرو بہت بڑھ چکے ہوں اور وہاں سے نکال کر دیے جائیں یا پھر لوکل مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر دیے جائیں گے۔ مارکیٹ سے خریدیں گے تو پھر ڈالر پر دبائو بڑھے گا اور ڈالر کا سپلائی ڈیمانڈ اصول لاگو ہوگا اور ڈالر بہت اوپر جائے گا۔ تو پھر یہ ہاٹ منی لانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اب اگرڈالر کا ریٹ کم ہوگا تو پھر وہ سرمایہ دار کیوں یہاں پیسہ لگائے گا؟ دوسرے اگر انٹرسٹ ریٹ کم کریں گے تو بھی وہ تین ماہ بعد اپنا پرافٹ لے کر بھاگ جائے گا جس سے پھر آپ کے ریزرو کم ہوجائیں گے اوراکانومی نیچے آ جائے گی۔ مصر کے ساتھ یہی ہورہا ہے‘ وہ پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہاں یہ ہمارے گورنر سٹیٹ بینک باقر صاحب ہی تھے۔ مصری اگر بیس ارب ڈالرز پر سود ریٹ کم کرتے ہیں تو سارا پیسہ نکل جائے گا اور اکانومی بیٹھ جائے گی۔ اگر نہیں کرتے تو مقامی سرمایہ دار مررہا ہے جو اس شرح سود پر قرض نہیں لے سکتا ‘یوں چند سرمایہ کاروں نے ملک کی اکانومی کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ اس ڈیڑھ ارب ڈالر ہاٹ منی کے چکر میں پاکستانی معیشت بیٹھ گئی ہے۔ پاکستانی بزنس مین سوا تیرہ فیصد مارک اپ پرقرض نہیں لے پارہا۔ خود ہمایوں اختر نے کہا کہ اس انٹرسٹ ریٹ پر کوئی کاروباری قرض نہیں لے رہا اور معیشت جام ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں آئی ایم ایف نے پہلے ڈالر کا ریٹ بڑھوایا‘ پھر انٹرسٹ ریٹ سوا تیرہ فیصد کرا دیا‘ حکومت کو عالمی بینک وغیرہ سے سستے قرض لینے سے روک دیا اور ساتھ ہی ان کمپنیوں کو لانچ کیا کہ پاکستان کو ہاٹ منی دیں اور کھل کر پرافٹ کمائیں اور جب چاہے اپنا سرمایہ نکال کر نکل جائیں۔
پہلے ڈالر گرایا گیا تھا کہ اس سے ایکسپورٹس بڑھ جائیں گی۔ ڈالر گرا کر بھی ہم اضافی دو تین ارب ڈالرز اکٹھے نہیں کرسکے؛ چنانچہ ہمیں ہاٹ منی کی ضرورت پڑگئی۔اب حالت یہ ہوچکی ہے کہ بجلی‘ گیس‘ اور پٹرول پر ٹیکس اور مہنگائی کر کے جو پیسہ اکٹھا کیا جارہا ہے وہ سب سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان تین ہزار ارب روپے سود کی مدد میں دے رہا ہے اور کُل ٹیکس جو اکٹھا ہوا ہے وہ ساڑھے تین ہزار ارب ہے۔ یوں صرف چھ سو ارب روپے باقی بچتے ہیں‘ باقی سب ملکی قرضوں کے سود میں جارہا ہے۔ اب اس میں فوج کا بجٹ‘ ترقیاتی فنڈ‘ تنخواہیں‘ صوبوں کا شیئر شامل نہیں ہے۔ اب تنخواہیں دینے کے لیے یہ سب مہنگے قرض لیے جارہے ہیں ۔ یہ ہے آپ کی ہاٹ منی کی صورتحال۔ ہم جو ٹیکس دے رہے ہیں وہ سب سود کی ادائیگی میں جارہا ہے۔ ہاٹ منی کی وجہ سے ملکی معیشت رک گئی ہے کیونکہ ان کمپنیوں کو سوا تیرہ فیصد سود دینا ہے اور اگر آپ سود کم کرتے ہیں تو وہ کمپنیاں اپنا ڈیڑھ ارب لے کر نکل جائیں گی۔ اب سمجھ آئی کیسے آئی ایم ایف کا شکنجہ کس دیا گیا ہے اور جو ماہرین اس پر بات کرتے ہیں الٹا ان پر یہی قوم پل پڑتی ہے کہ آپ کو اکانومی کی کیا سمجھ ہے۔
کسی نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ لوگوں کوبیوقوف بنانا آسان ہے لیکن انہیں اس بات پر قائل کرنا مشکل ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔