انصاف سرکار آج اسی صورتحال کا شکار دکھائی دیتی ہے جس صورتحال سے کسی زمانے میں مسلم لیگ (ن) دوچار رہی۔ عین وہی پریشانی، وہی تشویش، وہی خدشات‘ وہی تحفظات اور وہی پس و پیش اور حکومت غیر مستحکم ہونے کا وہی دھڑکا۔ وزیراعظم عمران خان نے اسد عمر صاحب کو ایک بار پھر ان کے قد سے بڑا ٹاسک دے ڈالا ہے۔ ان کی سربراہی میں تحریک انصاف کا وفد ایم کیو ایم کو منانے میں تاحال ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ایم کیو ایم کا روٹھنا، اسے منانا‘ بار بار روٹھنا بار بار منانا ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کے جن اقدامات کو عمران خان سخت ناپسند کرتے تھے، جن مصلحتوں اور مجبوریوں پر تنقید کرتے نہ تھکتے تھے‘ آج وہ سبھی وقت کی مجبوری میں گوارا دکھائی دیتی ہیں۔ گویا: ع
وہ جو ناخوب تھا بتدریج وہی خوب ہوا
جب کراچی میں پہلا آپریشن کلین اپ شروع کیا گیا تو سب سے پہلے ''حاکمِ وقت‘‘ نواز شریف کو بھی اپنے اقتدار کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ عقوبت خانوں کی دلخراش داستانیں جب منظرِ عام پر آئیں تو ہر دردِ دل رکھنے والا لرز کر رہ گیا۔ نہیں لرزے تو مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے سیاستدان نہیں لرزے۔ کیسا کیسا انمول ہیرا ایم کیو ایم کے غضب کا نشانہ نہیں بنا؟ کتنی ہی قد آور شخصیات کی آواز ہمیشہ کے لیے بند کر دی گئی‘ کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا اس غضب کی آگ میں جلتا ہوا تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا اور پھر ''جعلی بیمار‘‘ کو کس طرح ملک سے فرار کروایا گیا‘ اس درد ناک ماضی کو کون جھٹلا اور بھلا سکتا ہے۔یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔ کرب کے اس عرصے میں چندوں، بھتوں، لوٹ مار، دادا گیری، قبضہ مافیا‘ قتل و غارت اور بوری بند لاشوں کا دور دورہ رہا۔
شہر قائد کے ایک ڈی ٹائپ کوارٹر میں پیدا ہونے والا الطاف حسین اس ملک کے سیاسی منظر نامے پر اس طرح چھایا رہا گویا قومی سیاست اسی کی مرہون منت اور محتاج ہو۔ کون نہیں جانتا کہ ایم کیو ایم کا پودا جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں لگایا گیا اور پھر بعد کے ادوار میں سیاسی مفادات اس کی نشوونما کرتے رہے۔ ملکی سیاست کے ساتھ جو ہوا سو ہوا... لیکن اَمن و اَمان سے لے کر معیشت تک... ملکی مسائل سے لے کر حب الوطنی تک اس ملک کی جڑوں میں اور کونے کونے تک جو تباہی اور بربادی پھیلائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نے آنکھ اٹھائی وہ پھر سر اُٹھا کر نہ چل سکا۔ سیاسی مفاہمت اور تعاون کے نتیجے میں ہونے والا یہ گٹھ جوڑ کراچی کے عوام کے لیے عذاب مسلسل ہی بنا رہا۔ حکمرانوں نے گویااس کو سیاسی تعاون کے عوض ''لائسنس ٹو کِل‘‘ دئیے رکھا‘ یعنی شہرِ قائد کے عوام وطن دشمنوں کے رحم و کرم پر ہی رہے۔ بڑے بڑے جمہوریت کے علمبردار اور عوام کے غم میں مرے جانے والے سیاستدان بھی اس سے مفاہمت اور تعاون کے طلب گار رہے۔ انصاف سرکار بھی غالباً انہیں مصلحتوں اور مجبوریوں کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ آج نہیں تو کل جمہوریت کے تسلسل اور سسٹم کی بقا کے نام پر اس کو منا لیا جائے گا اور ان کے مطالبات کو اُصولی مؤقف کے طور پر تسلیم کر کے شاید انہیں وہ وزارت بھی دے دی جائے جس میں ہمیشہ ہی اُن کی جان اَٹکی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں بھی روٹھنے اور منانے کا یہ کھیل صبح شام کھیلا جاتا رہا۔ صبح روٹھے تو شام کو مان گئے، اگر شام کو روٹھے تو پھر رات کو اور رات کو روٹھے تو صبح مان کر اچھے بچوں کی طرح کابینہ میں واپس آتے رہے ہیں۔ آج انصاف سرکار بھی انہیں منانے اور مل کر کام کرنے کی پیشکش کرنے پر مجبور دکھائی دیتی ہے۔ یہ منظرنامہ دیکھ کر مظفر وارثی کے چند اشعار بے اختیار یاد آ گئے:؎
چہرے جدید جسم پرانے لگے مجھے
اِک موڑ پہ تمام زمانے لگے مجھے
تنہا میں جَل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ
اُن تک گئی جو آگ بجھانے لگے مجھے
آنکھوں میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑی
چہروں کے خول آئینہ خانے لگے مجھے
اپنی طرف جو دیکھ لیا اُن کو دیکھ کر
آنسو چراغ زخم خزانے لگے مجھے
دروازے پر جو اُن کے میں جا بیٹھا ایک دن
دیوار کی طرح وہ اٹھانے لگے مجھے
ظالم کا ہاتھ جب میری دستار پر پڑا
دنیا کے پاؤں اپنے سرہانے لگے مجھے
سچائیوں کا زہر میں پینے چلا تو ہوں
یہ زہر پی کے نیند نہ آنے لگے مجھے
رکھا نہ میری موت کا غم بھی سنبھال کر
آنکھوں سے اپنی لوگ بہانے لگے مجھے
مجھ سے ملے بغیر مظفر جو تھے خفا
میں اُن سے مل لیا تو منانے لگے مجھے
مگرسلام ہے شہر قائد کے عوام کو جنہوں نے کئی دہائیوں تک اس عذاب مسلسل کو جھیلا۔ سیاسی مصلحتیں ہوں یا اقتدار کی بھوک ہر حکمران نے اس ناسور کو گلے سے لگایا اور جو ظلم کمایا آج سب کے سامنے ہے۔ کتنا خون بہایا گیا؟ کتنی ماؤں کی گودیں اُجاڑی گئیں؟ کتنے سہاگ دن دیہاڑے خون میں نہلائے گئے؟ کتنی بہنوں کے بھائی آج تک گھر نہیں لوٹے؟ کتنے بچوں کو یتیمی کا روگ لگایا گیا؟ لگتا ہے سب کے ہاتھ کراچی کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو 12 مئی 2007ء کا وہ دن یاد تو ہو گا جب دن دیہاڑے کراچی کی سڑکوں پر ''خون کی ہولی‘‘ کھیلی گئی۔ اُنہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ وہ خود اس خونریزی کی انکوائری اور ذمہ داروں کے تعین کا مطالبہ کرتے نہ تھکتے تھے‘ بلکہ سانحہ 12 مئی کے متاثرین کو انصاف دلوانے سے لے کر ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ بھی دھرنوں اور انتخابی تحریک کا حصہ رہا۔ اسی طرح سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے ظلم پر بھی آپ کس طرح سراپا احتجاج نظر آتے تھے۔ ان ناحق مارے جانے والوں کے لواحقین آج بھی انصاف کے طلب گار ہیں مگرانصاف سرکار اب انصاف دلانے کی بجائے وکٹ کی دوسری جانب کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی مصلحتیں انصاف کے اصولوں پر غالب آچکی ہیں۔ اقتدار کے دوام کی خواہش عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر غالب آ چکی ہے۔مگر تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اس مٹی سے غداری کی‘ جس نے بھی وطن عزیز کے عوام کے خون کو پانی سے بھی ارزاں جانا‘ نہ وہ رہا اور نہ ہی اُس کا اقتدار۔ آج کون کس حال میں ہے ‘یہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ماننے منانے کا کھیل بہت ہو چکا‘ اب مقاصد پورے نہیں کرنے‘ مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ اندھا اعتماد کرنے والے اپنا یقین اور اعتماد ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ سانحات پر تعزیتی بیانات، ریفرنس اور ترانے بجانے سے اب کام نہیں چلے گا۔ سیاسی منڈپ پر بیٹھ کر نوحے پڑھنے سے عوام کے دُکھ دور ہونے والے نہیں بلکہ عوام کے دُکھوں کا مداوا اور ایسا ازالہ کرنا پڑے گا جو ہر حکمران پر قرض ہی رہا ہے۔ بے پناہ چاہنے والے بس پناہ کے طلب گار ہیں اور کہتے پھرتے ہیں کہ: ؎
مرشد وہ جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز ہے
شاید ہمارے ساتھ وہی ہاتھ کر گیا