جس طرح گزشہ دنوں بظاہر سخت تحفظات اور اختلاف رکھنے والی سیاسی جماعتیں شیر و شکر نظر آئیں‘ کیا ہی اچھا اور خوشگوار امر ہو‘اگر یہ سیاستدان عوامی مسائل کے حل اور عوامی مفاد کی قانون سازی کیلئے بھی اسی قسم کے اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز امر ہے کہ پارلیمان کی توقیر کیلئے جو آوازیں پارلیمان کے اندر اور باہر اٹھتی ہیں‘ وہ اب خودبخود بے توقیر اس لیے ہوگئی ہیں کہ جس پارلیمان میں خواص کیلئے قانون سازی بلاروک ٹوک اور کثرت رائے سے ہو اور عوام کیلئے قانون سازی اختلافات کی نذر ہو اور بلا ضرورت تاخیر درتاخیر ایوان کی روایت بنا دی جائے‘ اس پارلیمان اور حکومت سے عوام کیا توقع رکھیں؟ذہن نشین رہے کہ ایک منصوبہ ایسا بھی ہے کہ اگر اس کی منظوری ہو جائے ‘ توان کیلئے نہ تو مہنگی بجلی کا درد ہو گا اور نہ ہی وہ ہمہ وقت اندھیروں میں ڈوبے رہیں گے۔یہ منصوبہ خود پکار پکار کہہ رہا ہے کہ اگر میرے وجود کو تسلیم کرنے سے ان کے گھروں کی بے روزگاری اور غربت مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی‘ تو کم ازکم آدھی ضرور رہ جائے گی۔
یہ منصوبہ کہہ رہا ہے کہ تمام سیا سی جماعتوں نے جس طرح گزشتہ دنوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میںیکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا‘ اگر میرے لئے اپنے دلوں کے بند دروازے کھول لیں‘ تو ان کے ووٹروں اور پیار کرنے والوں کے کھیت اور کھلیان پوری آن اور شان سے لہرانا شروع ہو جائیں گے۔ ان کے گھر اناج سے بھرے رہیں گے اور ان کے لباس کیلئے درکار کپاس کی پیدا وار بڑھنے سے ان کے ارد گرد آئے روز نئی فیکٹریاں اور کارخانے دکھائی دینے لگیں گے اور حکمران بن کر ہر ایک کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے کچھ سکون کا سانس لینا شروع ہو جائیں گے ۔اس کیلئے ان سب کو بس اتنا کرنا ہو گا کہ یہ مجھے تسلیم کرلیں۔میں نے تو ان میں سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑا ‘میں تو ان کیلئے خوشیوں اور مسرتوں کے دروازے کب سے کھولے ان کو اپنی جانب بلانے کیلئے آوازیں دے رہا ہوں‘ میرا تو پکار پکار کر گلا بھی بیٹھ گیا ہے ‘میں تھک جاتا ہوں ‘لیکن ہمت نہیں ہارتا ‘کبھی کبھار تو دلبرداشتہ ہو کر گر کر رونے لگتا ہوں‘ لیکن پھر کھڑا ہوجاتا ہوں کہ راہ چلتے ہوئے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کی نظر تو میری جانب اٹھے گی ‘کوئی تو مجھے پہچان سکے گا‘ مجھ سے اٹھنے والی خوشبو اسے میری جانب کبھی تو کھینچ لے گی‘ کیونکہ میں ان سب کا‘ ان کے گھر والوں ‘ عزیز و اقارب کا دوست اور ہمدرد ہوں‘ صرف ایک دفعہ آزمانا شرط ہے۔ مجھ پر بھروسہ کریں‘ کیونکہ میرے اندر سے پھوٹنے والی کونپلوں سے ان کے گلستان لہرائیں گے۔
میں کوئی غیر نہیں‘ آپ کا دوست جانثار ''کالا باغ ڈیم ‘‘ہوں ۔ایک مرتبہ صاف دل سے میری کہانی سن لیجئے ‘پھر فیصلہ کیجئے گا‘ لیکن میری بھی گزارش ہے کہ جیسے کل تک آپ ایک دوسرے پر اینٹوں اور پتھروں کی بارش کرتے نہیں تھکتے تھے ‘لیکن گزشتہ دنوںسب نے یک زباں ہو کرYES, YESکی آوازیں نکالیں اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا‘ اسی طرح میرے لئے بھی ''یس‘‘ کہہ دیں۔کیا آپ سب دیکھ نہیں رہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ نے تم پاکستانیوں کو پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کرنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کر رکھا ہے۔ کس قدر افسوس ہے کہ پنجاب کی سرحد پر کھڑے ہو کر راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی کٹر مسلم دشمن ہندو تنظیم کا وزیر اعظم نریندر مودی‘ پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ ان کو پانی کے ایک ایک قطرے کیلئے ترسائے گا ‘ان کے بچوں کو پانی کے ایک ایک گھونٹ کیلئے رلائے گا۔
میں آپ کا سوتیلا نہیں ‘سگا ہوں۔ میرے اور آپ کے ملک پاکستان نے 1958 ء میں محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ بھارت بار بار ہمارا پانی روک رہا ہے‘ جس پر ہم نے بھارت سے پانی کی تقسیم کا ایسا معاہدہ کرنے کی پیشکش کر دی‘ جس سے دونوں ملک تمام دریائوں کا پانی آدھا آدھا استعمال کرنا شروع کر دیں‘ لیکن ورلڈ بینک کے صدر یوجین رابرٹ کی رائے تھی کہ بھارت کبھی بھی سندھ طاس کے نام سے کئے جانے والے مجوزہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا اور وقت ثابت کرے گا کہ وہ پاکستان کو آئے روز پانی پر بلیک میل کرے گا۔ اس لئے معاہدہ اپنی جگہ‘ لیکن پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ ڈیم بنائیں ۔دریائے سندھ کے پانی کو پورے ملک پر تقسیم کرتے ہوئے آزاد اور خود مختار زندگی گزارے ۔ صدر ورلڈ بینک نے غلام فاروق خان کی موجودگی میں جنرل ایوب خان سے کہا '' اگر آپ نے ڈیم نہیں بناتے‘ تو پھر بھارت سے طویل جنگ کیلئے تیار رہیے گا‘‘۔ امریکی صدر روز ویلٹ کی مداخلت پرعالمی بینک نے بھارت کی کنپٹی پر بندوق رکھ کر سندھ طاس معاہدہ کروا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند ہندو قیا دت آج بھی سندھ طاس معاہدے کو پنڈت نہرو کی غلطی قرار دیتی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے فوری بعدپاکستان کو جنگی بنیادوں پر تین اہم کام انجام دینا از حد ضروری تھے‘ جن میں بھارت کے حصے میں آنے والے تین دریائوں بیاس‘ ستلج اور راوی کے زیر کاشت علا قوں تک نہروں کے ذریعے دریائے سندھ کا پانی پہنچانا تھا۔ عالمی بینک نے پاکستان سے منگلا ڈیم‘ تربیلا ڈیم اور کالا باغ ڈیم بنا کر دینے کا وعدہ کر لیا۔ کالا باغ ڈیم ان سب سے نسبتاً آسان تھا؛ چنانچہ واپڈا نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکی انجینئرز سے منگلا اور تربیلا ڈیم بنوا لیتے ہیں اور ان دونوں ڈیمز کی تعمیر کے عرصے میں ہمارے انجینئرز اس دوران ٹرینڈ ہو جائیں گے اور یوں ہم کالا باغ ڈیم خود تیار کریں گے‘ جس سے ہماری اس پر لاگت بھی بہت کم آئے گی‘ لیکن صوبہ سندھ اور کے پی کے ‘کے سیا ست دانوں اور کچھ نت نئی تنظیموں نے شاید بھارت جیسے ملک کو کالا باغ ڈیم سے پہنچنے والی تکلیف اور درد کو اپنے اندر سمیٹ کر ایسا شور مچانا شروع کر دیا کہ اس ڈیم سے ہم برباد ہو جائیں گے‘ تباہ ہو کر رہ جائیں گے‘ ہم ڈوب جائیں گے‘ ہمارے گھر بار بہہ جائیں گے اور نہ جانے کیا کیا داستانیں سنانا شروع کر دی گئیں۔ یہاں تک کہ صوبائی اسمبلیوں سے میرے( کالا باغ ڈیم) کیخلاف قرار دادیں منظور کرانا شروع کر دی گئیں‘ جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ‘کیونکہ سب کے سامنے ہے کہ قومی اسمبلی کی منظور کی گئی بہت سی قرار دادیں بے اعتنائی کا شکار چلی آ رہی ہیں۔
1962ء میںجب منگلا ڈیم پر اس دور کا سب سے بڑا انٹرنیشنل کنٹریکٹ جاری ہوا ‘تو پوری دنیا حیران تھی کہ پاکستان کہاں واقع ہے ؟ اور اس قدر بڑا پراجیکٹ کیسے شروع کر رہا ہے ‘کیونکہ پاکستان کے پاس اس منصوبے کی کل لاگت کا صرف پندرہ فیصد تھا ۔باقی کیلئے 17 ملکوں نے 80 فیصد رقم کے برا بر گرانٹ دی اور پانچ فیصد ورلڈ بینک نے اد اکیا اور پھر سب نے دیکھا کہ دو برس بعد تربیلا ڈیم پر کام شروع ہو گیا۔ یہ اس قدر بڑا منصوبہ تھا کہ تین ملکوں نے مل کر یہ کنٹریکٹ لیا اور امریکہ میں دنیا کی سب سے بڑیMIT یونیورسٹی کے ریسرچرز کو جہازوں میں بھر بھر کر تربیلا لایا گیا ‘جو پندرہ پندرہ دن سائٹ پر رہ کر دن رات کام کرتے‘ تربیلا ڈیم کو ''موجودہ زمانے کا اہرامِ مصر‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ اس پر پوری دنیا میں مضامین شائع ہوئے ۔منگلا اور تربیلا ڈیم دونوں اپنی مدت سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوئے اور دنیا‘ پاکستان کی شفافیت اور قوت فیصلہ کی معترف الگ سے ہو گئی۔ پچاس برس بیت گئے۔ آپ کا دوست اور آپ کا خیر خواہ کالا باغ ڈیم‘ وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ مجھے بھی تسلیم کر لیں!