تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     16-01-2020

بوٹ سے تہمد تک!

ایک ٹی وی ٹاک شو میں، بوٹ کے ساتھ فیصل واوڈا صاحب کی رونمائی، اُس راستے کا ایک اہم پڑاؤ ہے، رخشِ سیاست جس پر سرپٹ دوڑے جا رہا ہے۔ میں اس کے بعد آنے والے پڑاؤ کا منتظر ہوں جب لوگ تہمد (تہ بند) باندھ کر ٹاک شوز میں شریک ہوں گے اور حسبِ ضرورت اس چار گرہ کپڑے کے تکلف سے بھی آزاد ہوجائیں گے۔ داد دیجیے، اس تبدیلی کو جس نے ہماری سیاست میں یہ چہرے اور سیاست کے یہ انداز متعارف کرائے ہیں۔
قمر زمان کائرہ صاحب جیسے روایتی سیاست دان‘ جو خود کو تہذیبی اور سیاسی قدروں سے آزاد نہیں کر پائے، میں نہیں جانتا کب تک اس طرزِ سیاست کے آگے بند باندھ سکیں گے۔ کب تک اپنی اقدار کا حصار بنے رہیں گے۔ لوگ کب تک مولانا مودودی اور نواب زادہ نصراللہ خان کو یاد کرتے رہیں گے؟ حیا کی حدود ہوتی ہیں، بے حیائی کی نہیں۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے فرمایا: اگر تم میں حیا نہیں تو جو چاہو کرگزرو۔ جس میں حیا اور شرم ہو گی، وہ بس ایک حد تک ہی جا سکتا ہے۔ وہ بوٹ کے بارے میں بھی نہیں سوچ سکتا، تہمد تو دور کی بات۔
واوڈا صاحب نے اپنی دانست میں یہ چاہا کہ اپنے سیاسی مخالفین کو بے لباس کریں۔ وہ یہ بھول گئے کہ 'آرمی ایکٹ میں تبدیلی‘ ایک ہی کپڑا ہے جس نے سب سیاست دانوں کے تن کو ڈھانپ رکھا ہے۔ اسے جس طرف سے بھی کھینچیں گے، کوئی ایک برہنہ نہیں ہو گا، سب کا ستر کھل جائے گا۔ کاش پردہ اٹھانے سے پہلے، وہ بعد کے منظر کی ایک جھلک دیکھ سکتے۔ ایک آئینہ خانۂ دل میں بھی آویزاں ہوتا ہے۔ ممکن ہے واوڈا صاحب کا معاملہ مختلف ہو۔
بوٹ کو اہلِ سیاست کی تذلیل کیلئے، بطور علامت استعمال کیا گیا۔ کم از کم واوڈا صاحب کے نزدیک ایسا ہی ہے۔ اس لیے وہ اسے ٹاک شو میں مخالفین کو دکھانے کیلئے اٹھا لائے۔ باعثِ تکریم ہوتا تو ڈرائنگ روم میں سجا کر رکھتے۔ فریم کروا کے دیوار پر لٹکاتے۔ یہ استعارہ ہے کہ جن لوگوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، وہ دراصل اہلِ سیاست کی ذلت کے مرتکب ہوئے۔ ان کے خیال میں یہ بوٹ کو چاٹنے کے مترادف ہے۔ یہ بیانیہ ترتیب دیتے وقت وہ بھول گئے کہ اس کا ارتکاب تو ان کی جماعت نے بھی کیا ہے۔ یوں اس بوٹ کے آئینے میں، وہ جسے کائرہ صاحب یا عباسی صاحب کی تصویر سمجھ رہے تھے، وہ دراصل ان کی اپنی شبیہہ تھی۔ 
گناہ ثواب انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم میں سے کون ہو گا جس کے اعمال نامے میں دونوں کے نمونے نہ پائے جاتے ہوں۔ بایں ہمہ، انسانی فطرت میں ہے کہ وہ گناہوں کی تشہیر نہیں کرتا۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی باتیں انسانی نظروں سے اوجھل رہیں۔ انسان تو خیر احسنِ تقویم کا مظہر ہے، کچھ جانور بھی ایسے ہیں جو اپنی گندگی کو چھپاتے ہیں۔ فطری مطالبہ پورا ہوتا ہے تو اس پر مٹی ڈال دیتے ہیں، اس کی نمائش نہیں کرتے۔ ایسے انسانوں کے بارے میں ذرا غور فرمائیے جو اپنی گندگی کو اشتہار بنا لیتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہے، جس کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ احسنِ تقویم، اسفل سافلین کی صف میں جا کھڑا ہوتا ہے۔ مولانا مودودی نے اس آیت کا ترجمہ کیا: ''پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا۔‘‘ (95:4)
سیاست، واقعہ ہے کہ ایسی بے توقیر پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ آداب اہلِ سیاست کے ہم رکاب رہتے تھے۔ ان کی زبان پر تہذیب کا پہرہ ہوتا تھا۔ زوال تھا لیکن ایسا نہیں تھا۔ سیاسی جماعتیں جب اپنی نمائندگی کے لیے کسی کا چناؤکرتیں تو اپنی صفوں میں سے سب سے شائستہ آدمی کو ڈھونڈتیں۔ شیریں لبی ایسے مناصب کے لیے وجۂ انتخاب بنتی۔ میں یہ پہلی دفعہ دیکھ رہا ہوں کہ زبان کی درازی اب سب سے بڑی اہلیت ہے۔ پارٹی کے لیڈر ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو سب سے زیادہ دریدہ دہن ہو۔ یوں مناصب کے خواہش مند یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس میرٹ پر پورا اتریں۔ زبان کو شیطان کی آنت بنا دیں۔
فیصل واوڈا صاحب یقیناً اس کارکردگی کے بعد اشرفیوں میں تولے جائیں گے۔ پارٹی لیڈر اپنی مجلس میں انہیں داد دیں گے اور ان کے مسرت سے تمتماتے چہرے پر لکھا ہو گا: جی اوئے میرے چیتے! ان کی یہ حوصلہ افزائی چیتوں کی ایک پوری نسل کو تیار کر دے گی۔ وہ جو پچھلی صفوں میں بیٹھے، نہ جانے کب سے اپنے لیڈر کی نگاہِ التفات کے منتظر ہوں گے۔ سیاسی کلچر اسی طرح بنتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے یہ دروازہ کھولا تھا۔ اس کے بعد گاؤں گاؤں شریف آدمی کی پگڑی کسی لونڈے لپاٹیے کے ہاتھ میں تھی۔ ہدف نام نہاد شرفا تھے لیکن نہ جانے میاں طفیل محمد جیسے کتنے حقیقی شرفا کی دستار بھی کسی نہ کسی فیصل کے ہاتھ میں تھی۔ لیڈر کبھی نمائشی شائستگی دکھاتے اور چند دن کے لیے کسی کو معزول کر دیتے ہیں۔ لوگ بھول جائیں تو پھر اپنا ترجمان بنا لیتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ عوام زود فراموش ہیں۔
اب معلوم نہیں کہ بوٹ والوں کا کیا ردِ عمل ہے۔ بوٹ کی اس طرح رونمائی کے بعد، وہ واوڈا صاحب کو کیا انعام دیں۔ مجھے یہ جاننے میں زیادہ دلچسپی بھی نہیں۔ میرا مسئلہ تو یہ ہے کہ اہلِ سیاست کے حلقوں میں اس عزتِ افزائی کے بعد کیا صلاح مشورہ ہے؟ کیا آئندہ بھی محض چہرہ نمائی کے شوق میں، وہ ایسے سیاسی نابغوں کی صحبت میں بیٹھیں گے؟ سیاست دانوں میں کتنے ہیں جو کائرہ صاحب اور جاوید عباسی صاحب کی طرح عزتِ نفس کے معاملے میں حساس ہیں؟ ویسے اس عزت افزائی کے بعد، نون لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے فیصلے پر زیادہ مطمئن ہوں گے۔
واوڈا صاحب نے خود میڈیا کے لیے اخلاقی سوال اٹھا دیے ہیں۔ کیا ٹی وی اینکر پسند کریں گے کہ ان کے ٹاک شو ایسے ستاروں سے جگمگاتے رہیں؟ واوڈا صاحب کیا اس کے بعد میڈیا کے لیے ہاٹ کیک بن جائیں گے؟ کتنے اینکر خواب دیکھ رہے ہوں گے: اگر واوڈا صاحب کل میرے شو میں آ جائیں تو مزا آ جائے! اگر وہ ایک کے بجائے دو بوٹ ساتھ لے آئیں اور دیگر دو مہمانوں کے سامنے رکھ دیں تو ریٹنگ آسمان کو چھو لے؟
کیا یہ آرزو نہاں خانہ دل میں کروٹ لے رہی ہے یا ہر اینکر کچھ اور سوچ رہا ہے اور اپنے پروڈیوسر سے کہنا چاہتا ہے: اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ واوڈا صاحب شو سے دور ہی رہیں۔ آخر معاشرے میں میری بھی کوئی عزت ہے۔ میں اہلِ سیاست میں جس حساسیت کی بات کر رہا ہوں، کیا میرے ہم پیشہ بھی اس باب میں حساس ہیں؟ ممکن ہے کوئی یہ بھی سمجھتا ہو کہ عزت بے عزتی تو شرکا کی ہے‘ شو تو نیوٹرل ہوتا ہے۔ ایک ظرف ہے جس میں کچھ بھی ڈال دیا جائے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو؟
اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ میڈیا کا کیا ردِ عمل ہوتا ہے؟ دراصل اس سے طے ہو گا کہ میڈیا محض کاروبار ہے یا اس کی کوئی سماجی ذمہ داری بھی ہے؟ عوام کا دل لبھانا اس کا مقصد ہے یا ان کی اخلاقی تربیت کرنا؟ کیا وہ منٹو کی طرح یہ سمجھتا کہ سوسائٹی اگر ننگی ہے تو کپڑے پہنانا، اس کا کام نہیں، یہ ذمہ داری درزی کی ہے؟ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ میڈیا کے کسی فورم پر یہ سوالات کبھی سنجیدہ بحث کا موضوع بنے ہوں؟
رخشِ سیاست معلوم ہوتا ہے اپنی منزل کے قریب ہے۔ ایک آدھ پڑاؤ شاید اور ہو اور یہ وہی ہو جب اہلِ سیاست تہمد باندھ کر ٹاک شو میں شریک ہو۔ یہ شاید آخری پڑاؤ ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ وقت کتنا دور ہے جب سیاسی ٹاک شو کا آغاز ہوتے ہی لوگ بچوں کو کمرے سے باہر بھیج دیں، بالخصوص جب فیصل واوڈا صاحب جیسے لوگ پروگرام کے شرکا میں شامل ہوں۔
حیف اس چارہ گرہ کپڑے کی قسمت غالب
جس کی قسمت میں ہو اہلِ سیاست کا تہمد ہونا
محترم ظفر اقبال صاحب! میری معذرت قبول کیجیے کہ دوسرا مصرع وزن سے گر گیا۔ جب سیاست اپنے معیار سے گر جائے تو مصرعے کا وزن سے گرنا ایساحادثہ نہیں جو ناقابلِ برداشت ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved