عمران سیاسی خود کشی کر چکے‘ استعفیٰ دے دینا چاہیے: جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان سید جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''عمران خان سیاسی خود کشی کر چکے‘ استعفیٰ دے دینا چاہیے‘ اگرچہ خود کشی کے بعد آدمی کے لیے کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ تاہم: ع
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
اگرچہ میں خود سالہا سال سے ہمّت کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور: ع
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
یعنی میاں نواز شریف پر ایک طویل عرصہ تکیہ کیے رکھا ‘بلکہ تکیہ کیا‘ وہ تو پورا بسترا تھا‘ لیکن وہ سارے جانثاروں کو بیچ بچا کر لندن میں جا بیٹھے ہیں‘ شکر ہے کہ میں رُکن اسمبلی نہیں تھا ‘ورنہ میرے بھی پیسے کھرے کر لیے جاتے‘ اور اب اگر دونوں بھائی( میاں نواز شریف اور شہباز شریف) سیاسی منظر سے ہٹ گئے ہیں تو کہیں جا کر میرا چانس بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کی ڈوبی ہوئی نائو کے باقیات کو میں ہی گہرے پانیوں کی تہہ سے نکال سکتا ہوں۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ بننے کا شوق نہیں‘ مراد علی اچھا کام کر رہے ہیں: فریال تالپور
سابق صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ اور رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ بننے کا شوق نہیں‘ مراد علی شاہ اچھا کام کر رہے ہیں‘‘ کام تو بھائی صاحب کے ساتھ مل کر میں نے بھی اچھا ہی کیا تھا‘ لیکن یہاں اچھے کام کی کوئی قدر ہی نہیں اور ہر اچھا کام کرنیوالے کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے؛ اگرچہ میرے والد صاحب اور بلاول کے ساتھ مراد علی شاہ کے بھی حالات خاصے مشکوک ہیں‘ یعنی ہم سب کی منزل ایک ہی ہے؛ بشرطیکہ بھائی جان نے اس کا وہی علاج نہ کر لیا‘ جو میاں برادران کر کے لندن سدھار گئے ہیں‘ لیکن کچھ لالچی واقع ہوئے ہیں‘ اس لیے اس طرف نہیں آ رہے؛ حالانکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور ان کے ہاتھ دوبارہ بھی میلے ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں ایک عشائیے سے خطاب کر رہی تھیں۔
جیل کہانی ...(۲)
یہ سینئر صحافی جاوید راہی کی مشہور کتاب جیل کہانی کا دوسرا حصہ ہے‘ جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے چھاپا ہے۔ دیباچہ نگاروں میں حیدر علی ساحر‘ ڈاکٹر عارف علی صدیقی‘ شہباز نیئر اور علامہ عبدالستار عاصم شامل ہیں۔ یہ جیل کے قیدیوں کی اپنی اپنی داستانیں ہیں‘ جو مصنف نے انٹرویو کی شکل میں اکٹھی کی ہیں۔ فکشن ایک دلچسپ اور زیادہ پڑھی جانے والی صنف ِ ادب ہے‘ لیکن اگر اس کے ساتھ حقیقت بھی شامل ہو جائے تو یہ دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ اس سے قیدیوں کی نفسیاتی کیفیتوں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے‘ مثلاً؛ یہ کہ جس قیدی کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہو‘ ساری اپیلیں ناکام ہو چکی ہوں تو اس کی ذہنی کیفیت یقینا دوسرے قیدیوں سے مختلف ہوگی اور اس کیفیت کو مکمل طور پر ظا ہر کر کے صفحۂ قرطاس پر لے آنے کا کام جاوید راہی نے پوری مشّاقی اور عقلمندی سے کیا ہے۔ یقینا یہ کتاب بھی پوری دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ اس میں تحقیق کا ذائقہ بھی شامل ہے۔ ہمت مرداں مددِ خدا۔ کتاب اس ادارے کی عمدہ روایات کے مطابق‘ خوبصورت اور عمدہ گیٹ اپ کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ ٹائٹل پر مصنف خود بھی براجمان ہیں!
درستی
عزیزی سعد اللہ شاہ نے آج اپنے کالم میں دو شعر درج کیے ہیں‘ جو غالباً ٹائپ کی غلطی سے خارج از وزن ہو گئے ہیں‘ پہلا شعر ہے: ؎
آئینہ پھینک دے کہ تماشہ نہ چاہیے
تو چاہے جسے اُسے تجھ سا نہ چاہیے
اس میں اگر ''تُو چاہے‘‘ کی بجائے ''تُو چاہے گا‘‘ ہو تو یہ سقم دور ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ''تماشہ‘‘ کی بجائے بھی ''تماشا‘‘ ہونا چاہیے‘ کیونکہ دونوں میں فرق ہے اور آئینے کی رعایت سے تماشا ہی ہونا چاہیے ‘ دوسرا شعر ہے: ؎
محبتوں میں تعصب تو در ہی آتا ہے
ہم آئینہ نہ رہے تم تو روبرو کر کے
اس کے دوسرے مصرع میں ''تو‘‘ کی بجائے ''کو‘‘ آنا چاہیے۔
اور‘ اب آخر میں سید عامرؔ سہیل کی شاعری:
روکتا ہے کوئی مگر جائیں
دل کے بجھنے سے پیشتر جائیں
جن ہوائوں میں سانس لیتی ہو
ہم انہی گھاٹیوں میں مر جائیں
ہم تمہاری گلی کے کچھ بھی نہیں
ہم اگر تہمتوں سے ڈر جائیں
سر سے اوپر کشش ہے پانی کی
پائوں کہتے نہیں ٹھہر جائیں
اُس پری کو تو کوئی ہوش نہیں
کیا پرستان میں اتر جائیں
چاندنے کے لحاف میں لپٹی
فجر کی رُت ہو‘ لے کے گھر جائیں
وہ کھلونا سمجھ کے بیٹھی ہے
مجھ سے کہتی ہے چاند پر جائیں
وقت دولت نہیں ہے‘ مہلت ہے
جانے والے نہ دیر کر جائیں
دل نہیں ہے ہمارے سینے میں
اُس کی دہلیز پر جو دھر جائیں
شعر کہتے ہیں یار جس کے لیے
دیکھنے اس کو اک نظر جائیں
آج کا مقطع
وہ زلزلہ ابھی گزرا نہیں اِدھر سے‘ ظفرؔ
یہ شہر جس کے لیے کُو بکُو لرزتا ہے