تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     16-01-2020

جدید انسان اور ہندوستان کی شناخت

بھارت کو ان دنوں نیشنل رجسٹرز آف سٹیزنز(NRC) جیسے متنازع قانون کے اجراء کے باعث ایسی داخلی سیاسی مزاحمت کا سامنا ہے‘ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی‘ اپنی نوعیت کا یہ ایکٹ ملک کے طول و عرض میں پھیلے سماجی گروہوں میں نسلی اور مذہبی تفریق کوزیادہ گہرا کرنے کا سبب بن گیا۔اس قانون کا اجرائ2013ء میں بھارتی ریاست آسام سے کیا گیا‘جہاں کی کل آبادی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنے کیلئے دستاویزی ثبوت پیش کریں۔اس مشق کے دوران گیارہ لاکھ مرد وزن انڈین شہریت کا قابل ِقبول دستاویزی ثبوت دینے میں ناکام رہے‘جنہیںحراستی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے‘ جہاں وہ مجاز فورم پہ اپیل کاحق استعمال کرکے طویل قانونی عمل کے ذریعے اپنی شہریت ثابت کریں گے‘ بصورتِ دیگرانہیں بھارت چھوڑنا پڑے گا‘تاہم اس نئے قانون کے تحت ہر اُس فردکو باآسانی بھارتی شہریت مل گئی ‘جو غیر مسلم تھا‘ گویا اس قانون نے ماسوائے مسلمانوں کے باقی ہر کسی کو بھارتی شہریت دے دی‘یہی وجہ ہے کہ اس امتیازی قانون نے بھارت بھر میں پھیلے مسلمانوں میں عدم تحفظ‘بے یقینی‘خوف اور غم و غصہ کی لہر دوڑا دی ہے۔
مذکورہ متنازع شہریت قانون کیخلاف کرناٹک سے لیکر بنگلور اور ممبئی سے لیکر دلی تک تمام بڑے شہر احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں آ چکے‘پولیس سمیت سکیورٹی ادارے احتجاج کی لہر کو دبانے کیلئے طاقت کا بے رحمانہ استعمال کر رہے ہیں۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ کے طلبا پہ پولیس تشدد کے بعد احتجاجی مظاہروں میں مزید شدت آئی‘ہندوستان بھرکی 33 بڑی یونیورسٹیز کے لاکھوں طلبا نے اپنے رومانوی طرزِ عمل سے اس موومنٹ کو فکری‘نظریاتی اور سیاسی اصلاحات کی صحت مند تحریک میں بدل دیا۔احتجاجی مظاہروںکو روکنے کی خاطر بڑے پیمانے پر پولیس کارروائی کے نتیجہ میں 16 سے زیادہ میٹرو سٹیشنز بند اور کئی مرکزی شاہراہیں بلاک کرنا پڑیں‘ جس سے دہلی اور گڑگاؤں سمیت ملحقہ اضلاع کے لاکھوں لوگ ٹریفک جام کی اذیت سے دوچار ہو رہے ہیں۔دریں اثناء بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی‘ بنگلور‘ پونا‘چنائی‘ودگون‘احمدآباد اور کلکتہ کے علاوہ کئی دیگر شہروں میں بڑھتے ہوئے احتجاجی مظاہروںکو دبانے کی خاطر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کرنا پڑی۔ ادھرریاست جموںکشمیر‘جس کو 5 اگست 2019ء کوخصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت میں ضم کر دیا گیا‘وہاں گزشتہ پانچ ماہ سے انٹرنیٹ سروس بند ہے۔آسام سمیت وہ تمام شمالی ریاستیں‘ جو اس تحریک کا مرکز سمجھی جاتی ہیں‘ وہاں بھی موبائل اورانٹرنیٹ سروسز بند ہیں‘ لہٰذاامریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ نے بھارتی مسلمانوں میں پائی جانے والے اضطراب پہ گہری تشویش ظاہر کی اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک‘نقل و حمل اور اظہار کی آزادیوں کو محدود کرنے جیسے ظالمانہ اقدامات کوکڑی تنقید ہدف بنایا‘ لیکن مودی سرکار عالمی برادری کی وارننگ اوربڑے پیمانے پہ عوامی احتجاجی کو خاطر میں لانے اور ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں ہے۔
تاہم بی جے پی کی وہ اتحادی جماعتیں‘جنہوں نے متنازع شہریت قانون کو پارلیمنٹ سے پاس کروانے میں مدد کی۔اب‘ این آر سی جیسے امتیازی اور مسلم کش قانون کے نفاذ کی مخالفت پہ اتر آئی ہیں۔مغربی بنگال‘کیرالہ اور پنجاب جیسی ریاستوں نے پہلے ہی اس امتیازی قانون کے نفاذ سے انکار کر دیا تھا؛بلاشبہ ہندوستان متعدد نسلی اکائیوں‘ مختلف تہذیبی رنگوں‘متنوع سماجی روایات اور متضاد مذہبی عقائد سے مزّین ایسی معاشرت کا حامل ملک ہے‘ جہاں اجتماعی حیات کی بوقلمونی بجائے خود ایک عمیق فطری توازن کی عکاسی کرتی تھی‘ لیکن اب عہد جدید کی نئی ہندولیڈر شپ جبراً اسے خالص ہندو معاشرت کے رنگ میں ڈھالنے پہ کمر بستہ دیکھائی دیتی ہے؛اگرچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس عہد میںانتہا پسند ہندووں کیلئے تہذیب و تمدن کے مختلف رنگوں اوربیس کروڑ مسلمانوں کے اجتماعی وجود کو مٹانا ممکن نہیں‘ تاہم یہی جدلیات بہت جلدانڈین سماج کی تشکیل نو کی تحریک بن جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ایک خاص نوع کا تہذیبی توازن ہمیشہ قائم رہا‘ لیکن مسلمانوں کی آمد سے قبل بھارت‘ انتظامی‘تہذیبی اور مذہبی لحاظ سے ایسا متنوع معاشرہ تھا‘جہاں ہر پچاس میل پہ مختلف لہجہ کی زبان و ثقافت‘زراعت پہ مشتمل مقامی معیشتیں‘متضاد رسم رواج اورپراگندہ طبع راجاؤں‘مہاراجوں اور سرداروں کی ایسی راجدھانیاں استادہ تھیں‘جو ہمہ وقت تغیرپذیر رہتی تھیں۔پہلی بار مغل بادشاہوں نے پورے ہندوستان کو انتظامی وحدت کی لڑی میں پرونے کا کارنامہ انجام دیا اور اَن پڑھ ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پہ مغل شہنشاہ اکبر اعظم نے 16ویں صدی میں اس حقیقت کو بھانپ لیا کہ مختصر سی مسلم اقلیت طویل عرصہ تک ہندو اکثریت پہ اپنی بالادستی قائم نہیں رکھ پائے گی؛چنانچہ اس نے مقامی ہندو اشرافیہ کو شریک ِاقتدار کر کے ہندوستان میں پہلی سیکولر ریاست کی بنیاد رکھ کر اعلیٰ ترین سطح پہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں ذہنی تفاوت کم کرنے میں کامیابی پائی‘ لیکن بدقسمتی سے اورنگ زیب عالمگیر کے مذہبی تصورِ سیاست نے ایک بار پھر ہندو اور مسلم کے مابین ذہنی تفریق بڑھا دی‘جو بالآخر انگریزوں کی بالادستی کی راہ ہموار کرنے کا وسیلہ بنی‘اسی کثیرالجہتی سماجی پس منظرکو سامنے رکھتے ہوئے جدید بھارت کے فاونڈنگ فادرز نے بھی مملکت کی بقاء سیکولرجمہوریت میں دیکھی؛چنانچہ موہن چند رام داس گاندھی اورجوہرلعل نہرو سمیت کانگریس کی پوری لیڈرشپ ہندوستانی سماج کوغیرمذہبی نظامِ سیاست میں منظم رکھنے پہ متفق تھی۔
لیکن آزادی کی جدوجہد کے دوران کانگریس کی پاپولرسیکولر سوچ کے پہلو بہ پہلو ہندوبالادستی کی علمبردار آر ایس ایس جیسی کئی انتہا پسند تحریکیں بھی پروان چڑھتی رہیں۔ 1948ء میں گاندھی جی کو قتل کرنیوالے نتھورام گوڈسے اور ساورکر جیسی انتہا پسند شخصیات اسی سوچ کی مظہر تھیں ‘جو کانگریس کے سیکولر فلسفہ سیاست کو ہندو بالادستی کی راہ میں حائل سمجھتی رہیں‘تاہم اس سب کے باوجود ہندوستانیوں کی اکثریت دل و جان سے انگریز کے متعارف کرائے گئے سیکولر نظام سیاست کا تسلسل چاہتا تھی؛ چنانچہ آزادی کے بعد 1947ء میں ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے انڈیا نے اپنے قومی سفر کا آغاز جدید سیکولر جمہوری ریاست کے طور پہ کر کے عالمی برادری میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز پایا۔بھارتی آئین کا آرٹیکل14 شہریوں کے مابین رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پہ تفریق کو روکتا ہے۔افسوس کہ آزاد بھارت کی بانی جماعت‘انڈین نیشنل کانگریس‘کی قیادت فاونڈنگ فادرزکے جمہوری تصورات اور سیکولر پالیسیز کا تسلسل قائم رکھنے میں ناکام رہی‘ جس کے نتیجہ میں بھارتی سیاست کا توازن انتہا پسندوں کی طرف جھکتا گیا‘اسی کارن آج کے بھارت کا اجتماعی شعور‘مذہبی‘سماجی اور سیاسی مظاہر میں توازن لانے کی بجائے تضادات کی دھار کو زیادہ تیز کرنے میں منہمک ہے۔
دنیا بھر کے اہل علم اور سائنسی علوم پہ ایمان رکھنے والے سیکولر دانشوروں کا خیال تھا کہ اکیسویں صدی کا جدید انسان‘مذہبی تعصبات سے ماورا ء ہو کر انسانیت کی فنی‘تہذیبی اور سائنسی میراث کو باہمی تعلق کی بنیاد بنا کے عقلی قومیت کا پرچارک بنے گا‘لیکن حیرت انگیز طور پہ عہد قدیم کے انسان کی طرح جدید انسان بھی اپنے مذہبی شعور اورتہذیبی پس منظر سے زیادہ قربت رکھنے میں آسودگی تلاش کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved