تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     17-01-2020

کیا سیاسی تلاطم تھم جائے گا؟

وفاقی دارالحکومت کا موسم بڑا یخ بستہ ہے۔ کراچی میں بھی اس بار سردی کی خاص لہر آئی ہوئی ہے جو معمول سے ہٹ کر ہے۔ پنجاب اندھا دْھند‘ دْھند کی لپیٹ میں ہے‘ کْچھ سْجھائی نہیں دے رہا اور بڑے بڑے مشاق پائلٹس اور ڈرائیور بھی اس موسم میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اس لئے سول ایوی ایشن اور ایف ڈبلیو او کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا کہ ہر طرح کے آپریشنز معطل کر دئیے جائیں تاکہ نقصان سے بچا جا سکے۔ سو ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کْچھ ایسی ہی صورت حال صوبہ خیبر پختونخوا کی ہے جبکہ بلوچستان اور آزاد جموں و کشمیر میں تو برف باری نے تباہی مچا دی ہے اور کئی جانیں موسمی طوفانوں کی نذر ہو گئی ہیں۔ معمولات زندگی‘ کاروبار‘ بازار‘ شاہراہیں‘ ترسیلات‘ ٹریفک کی روانی سب متاثر ہوئے ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ موسمی تغیرات کا اثر امورِ مملکت پر نہ پڑے۔ سیاسی موسم بھی تغیرات کی لپیٹ میں ہے۔ کبھی بالکل سکون محسوس ہوتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے اندازہ ہوتا ہے کہ نہیں یہ سکون نہیں بلکہ سکوت تھا اور وہ بھی انتہائی عارضی۔ تمام پاور پلیئرز کے مابین سیاسی آنکھ مچولی جاری ہے۔ سب سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ذہنوں میں چھپی چالوں سے دوسرا واقف نہیں ہے‘ جبکہ یہ سوچ کر تمام پاور پلیئرز محض اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جب باہم ملتے ہیں تو بڑی گرم جوشی‘ خلوص‘ پیار‘ محبت اور اپنائیت سے ملتے ہیں‘ اور جیسے ہی خلوت نشیں ہوتے ہیں تو اپنے اپنے رازداروں کے ساتھ بیٹھ کر مشورے کر رہے ہوتے ہیں کہ صاحبو! ان کے تیور کچھ اچھے معلوم نہیں ہوتے‘ سوچو ان کی چالوں کو ناکام کیسے بنانا ہے۔ ہر چال کی کاٹ تیار کی جاتی ہے اور پھر اسے آزمایا جاتا ہے۔ چھپن چھپائی کا کھیل جاری و ساری ہے۔ کھیل مشکل اس لئے بھی ہے کہ اس بار میدان میں موجود اور میدان سے باہر کے تمام پاور پلیئرز مہا تجربہ کار ہیں۔ لمبی لمبی اننگز کھیل چکے ہیں۔ اس لئے وہ ایک دوسرے کی تمام چالوں کو سو فیصد نہ سہی لیکن نوے فیصد سے زیادہ سمجھتے ہیں؛ چنانچہ کوئی بھی پلیئر محض ایک اطلاع یا ایک وعدے پر اعتبار نہیں کر رہا بلکہ پیغام کی نوعیت اور پیغام رساں کو کئی پہلوؤں سے پرکھتا ہے۔ اپنا ذہن استعمال کرتا ہے۔ مشاورت کرتا ہے۔ اور پھر اگلا قدم اٹھاتا ہے۔ 'کن فیکون‘ والی صورتحال ہے اور نہ ہی 'سمعنا و اطعنا‘ والے حالات۔ آنے والا ہر پیغام اور کی جانے والی ہر خواہش اب پوری نہیں ہو رہی ہے۔ وکٹ پر کتنا باؤنس ہے کتنا سَوِنگ ہے؟ ہواؤں کا رْخ کیوں تبدیل ہو رہا ہے؟ اور نیا رْخِ انور کس جانب ہے اور کس کے حق میں ہے اورکتنا سَپِن ہے؟ سب معاملات پر ہر کسی کی نظر ہے بلکہ اس دلچسپ اور سسپنس سے بھرپور کھیل میں باہر بیٹھے عناصر زیادہ انجوائے کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ دیکھئے اب کی بار کس کو کتنی اور کب مات ہوتی ہے؟؟ کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہر پلیئر اپنے بڑے کا نام لے کر اپنا کھیل کھیل رہا ہے۔ انفارمیشن کے طوفانی دور میں اب کوئی بات زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتی۔ کہیں نہ کہیں سے راز فاش ہو ہی جاتا ہے۔ اس لئے تازہ ترین بگڑتے حالات میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کیونکہ کچھ مواقع پر ایسا بھی ہوا کہ ایک پیامبر نے اپنے بڑے کی طرف سے پیغام پہنچایا‘ اس کو کاؤنٹر چیک کیا گیا تو پتا چلا کہ وہ بڑے کا پیغام نہیں تھا بلکہ محض اس کا نام استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسے کْچھ عناصر کی نشاندہی بھی کر لی گئی ہے‘ جو اس گھمسان کے سیاسی رن میں اپنا اپنا اْلو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے تھے اور مسلسل قیاس اور فساد برپا کرنے میں مصروف تھے۔ اگر کی گئی نشاندہی کے مطابق ان سب کو کم سے کم وقت میں تبدیل نہ کیا گیا تو حالات جوں کے توں رہیں گے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان کو تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ چند ہفتوں تک جاری رہے گا۔ آخری بندے کی تبدیلی تک سیاسی نشیب و فراز اور بے یقینی کا عمل جاری رہے گا۔ پولیٹیکل سائنس کے فارمولے اور نتائج گو کہ سائنسی علوم کی طرح سو فیصد حتمی نہیں ہوتے لیکن پولیٹیکل سائنس کے بعض فارمولے بڑے طے شدہ اور حتمی ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو حیران کْن اور نا قابل یقین بھی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریاضی میں دو اور دو ہمیشہ چار ہوتے ہیں‘ لیکن سیاسیات میں پانچ اور پانچ، سات ہو جاتے ہیں اور دو اور دو چھ بھی ہو جاتے ہیں جیسا کہ چیئرمین سینیٹ کی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ہوا۔ 
حکمران اتحاد میں شامل چاروں جماعتوں کا پاکستان تحریک انصاف سے بیک وقت تحفظات اور گلے شکوے کرنا معمول کا واقعہ نہیں ہے بلکہ سیاسی پنڈت اسے بڑا با معنی قرار دیتے ہیں کیونکہ سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر چاروں جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم‘ جی ڈی اے اور اختر مینگل‘ سب کو ایک ہی خیال ایک ہی ہفتے میں کیسے آیا؟ کیا ان تمام جماعتوں کے سربراہان کی کوئی آپس میں ملاقات ہوئی؟ اگر ہوتی تو میڈیا کی نظروں سے کیسے اوجھل رہ سکتی تھی؟ تمام اتحادیوں کا لب و لہجہ گلے شکووں کی نوعیت اور مطالبات ایک ہی طرح کے ہیں اور کوئی بھی اتحادی زیادہ مْہلت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے بعد حکمران پارٹی کے اختر مینگل اور جی ڈی اے سے بھی مذاکرات ہو چکے اور تمام فوری نتائج اور عمل درآمد پر مصر ہیں۔ ایک اور قدرِ مشترک اور جواب جو اتحادیوں کی طرف سے حکمران مذاکراتی ٹیم کو ملا‘ یہ تھا کہ ہم آپ کے پاس نہیں آئیں گے بلکہ پیاسا خود چل کر کنویں کے پاس آئے۔ یہ شرط بھی پوری کر دی گئی‘ لیکن اتحادیوں کے لب و لہجے میں نرمی نظر نہیں آ رہی۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر ساری بے یقینی کو دھرنے کا ثمر قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ عمران حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے جو بنیاد دھرنے کے وقت رکھی گئی تھی اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ 
اور اگر اپوزیشن کے ساتھ ساتھ سیاسی تبدیلیوں کی خبروں کی تصدیق حکومتی وزرا بھی کرنے لگیں تو پھر کْچھ اور ہو نہ ہو لیکن یقین کرنے کو دل کرتا ہے۔ سب سے زیادہ با خبر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے تو اگلے وزرائے اعظم کے نام بھی بتا دئیے کہ خواجہ آصف اور شہباز شریف وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ اس لئے ہواؤں کا رْخ تبدیل ہونے کی باتیں پھیلانے والوں کا مرکز ایک ہی ہے اور تبدیلی کا شکار ہونے والا محور بھی ایک ہی ہے۔ اس میں کامیابی ہوتی ہے یا نہیں اس بارے کوئی اندازہ لگانا اور کوئی حتمی نتیجہ نکالنا بہت مشکل ہے کیوں کہ اگر حکمران اتحاد منتشرالخیال ہے تو اپوزیشن بھی بھان متی کا کنبہ ہی ہے‘ جو ماضی میں ایک دوسرے کے سیاسی دشمن رہ چکے ہیں اور آج ایک دوسرے کی وجہ سے دربدر ہی نہیں بلکہ جیل یاترا بھی کر چکے ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف سات سمندر پار اپنی وطن واپسی کے جتن کر رہے ہیں۔ حامد کرزئی اور ملیحہ لودھی سے ان کی ملاقاتیں مزاج پرسی کیلئے نہیں بلکہ اقتدار کی کرسی کیلئے ہیں کہ کسی طرح غیر ملکی پلیئرز کے ذریعے واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی یقیناً اسی سیاسی بے یقینی کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ جس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو سکے گا۔ بنے بنائے گھر کو گرانا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جھونپڑی کا بندوبست کرنے سے پہلے اگر کمزور گھر کو بھی گرا دیا جائے تو پھر مرضی کی نئی چھت کا بندوبست کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved