صفی لکھنوی کی نظم ''رجزِ مسلم‘‘ کے یہ اشعار ایک مسلسل آفاقی حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔؎
اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضموں ہم تم کو دکھا دیں گے
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے
مغرب کی کولڈ وار (Cold War) کے بعد ''تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ تخلیق کیا گیا۔ اس تھیوری کو سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samual P. Huntington) نے سال 1992ء میں ایک لیکچر کے دوران پیش کیا تھا‘ جو درحقیقت صلیبی جنگوں (Crusades) کا ہی کاپی پیسٹ تھا؛ چنانچہ اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی رہا۔ خونِ مسلم کی ارزانی لاکھوں کروڑوں کا قتلِ عام فصلوں‘ شہروں‘ آبادیوں‘ درختوں اور انسانوںکو Flora and Fauna سمیت توسیع پسندی کی قربان گاہ پر بَلی چڑھا دیا گیا۔ یوں ثابت ہوا کہ کنگڈم آف ہیون کا تصور تھوڑا مدہم ہوا تھا‘ رخصت نہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر امپورٹڈ غیر ملکیوں کی بستیاں‘پھر سانحہ نائن الیون کی تخلیق کاری‘ جس پر امریکی افواج نے 9/11 سے پہلے تحریری رپورٹ دے کر صیہونی ایجنٹوں کی جانب سے Twin Towers کو گرانے کا الرٹ جاری کیا تھا۔ 9/11 کے سانحے سے ایک روز قبل موساد کے بارے میں امریکن آرمی سکول آف ایڈوانس سٹڈیز کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا: موساد کے صیہونی ایجنٹ امریکن فورسز پر حملہ کریں گے اور اس حملے کو ایسا پینٹ کریں گے کہ امریکن یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں‘ اُن پر کسی اور نے نہیں عرب/ مسلمانوں نے حملہ کیا ہے۔ عملی طور پر نائن الیون مسلمانوں کے لئے بہت خون آشام کروسیڈ ثابت ہوا۔
یہودیت اور عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کی تاریخ جدید ہے۔ نبیٔ بر حق حضرتِ محمدﷺ نے سال 571 عیسوی میں اس جہان رنگ و بُو میں قدم رنجہ فرمایا۔ عرب اس سال کو عام الفیل کہتے تھے۔ اس سال یمن کا بد بخت بادشاہ 'ابرہہ‘ ہاتھیوں کے لشکر سمیت مکہ میں کعبۃ اللہ مسمار کرنے کی بُری نیت سے نکلا اور ابابیلوں کا شکار بن گیا۔ آپﷺ پر پہلی آسمانی وحی‘ رمضان المبارک 610ء کو اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرتِ جبرائیلؑ لے کر آئے۔ آپﷺ نے سال 622 میں مکہ سے 453.9 کلومیٹر دور وادیٔ یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد وادیٔ یثرب کو مدینۃ المنوّرہ یعنی نور سے بھرپُور شہر اور مدینۃ النبی ‘یعنی نبی آخری الزمانﷺ کا شہر کہا جانے لگا۔ یہیں پہ پہلی مسلم ریاست کی بنیاد آپﷺ نے اپنے ہاتھوں سے رکھی‘ جو تاریخ میں ریاستِ مدینہ کہلائی۔
مدینہ منورہ اور مکۃ المکرمہ جزیرہ نما عرب کے اہم ترین علاقے صوبہ حجاز میں واقع ہیں۔ عربی زبان میں صوبہ کو منطقہ کہتے ہیں۔ ہجرتِ نبوی کے 8ویں سال 11 دسمبر 629ء سے 11 جنوری 630ء کے درمیان‘ عربستان کا سب سے بڑا مذہبی‘ سماجی‘ سیاسی‘ ثقافتی اور معاشی مرکز شہر مکہ آپﷺ نے فتح کر لیا۔ یُوں دنیا کے نقشے پہ ایک نئی اور مضبوط ترین سلطنت معرضِ وجود میں آ گئی‘ جس کے لئے دنیاوی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ اس ریاست کا قیام بذاتِ خود ایک بہت بڑا معجزہ تھا۔ جو بہت جلد موجودہ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ ملکِ قطر‘ ریاستِ کویت اور یمن جیسے خطوں تک پھیل گئی‘ جسے جزیرہ نما عرب (Arab Peninsula) کہتے ہیں۔
8جون 632 کو رسول اللہﷺ نے دنیائے ظاہری سے پردہ فرما لیا۔وصالِ رسول اللہﷺ کے بعد تقریباًایک لاکھ 25 ہزار مسلمان (صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین) آخری رسالت اور آخری کتاب پہ مبنی اسلام کا لافانی پیغام لے کر پوری دنیا میں پھیل گئے۔ ساتھ ہی اسلامی سلطنت میں توسیع اور فتوحات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا۔ اس عسکری مہم میں 636ء میں قادسیہ کے مقام پر مسلمانوں کی فتح فیصلہ کُن ثابت ہوئی۔ سلطانِ فارس اور آتش کدۂ ایران کو سپاہِ اسلام نے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا۔ حضرتِ سعد بن ابی وقاصؓ کی سپہ سالاری میں مسلمانوں نے سلطنتِ فارس کو ریاستِ مدینہ میں شامل کر دیا۔638ء میں فلسطین اور پھر صرف ایک سال بعد مصر اور آرمینیہ پر بھی اسلام کے پھریرے لہرانے لگے۔ 664ء میں کابل پر بھی اسلام کا غلبہ چھا گیا۔
سال 632 سے 661 تک کا تقریباً 30 سالہ عرصہ خلافتِ راشدہ کا عہد کہلاتا ہے۔ خلفائے راشدین میں‘ حضرتِ ابوبکر صدیقؓ‘ حضرتِ عمر فاروقؓ‘ حضرتِ عثمانِ غنیؓ اور امیرالمومنین حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں۔ ہندوستان کے علاقوں میں اسلام کی پہلی گریٹ expansion سال 711 میں بنو امّیہ کے دورِ حکومت میں ہوئی۔ اُموی حکمرانوں نے سندھ (موجودہ پاکستان) میں اپنا کنٹرول پھیلانے کے لئے طائف کے 17 سالہ نوجوان محمد بن قاسمؒ کو لشکر کشی کے لئے بھیجا۔ نئے مسلم مفتوحہ علاقوں میں سماج/ سوسائٹی پر کسی قسم کا دبائو نہ تھا۔
90 سالہ حکمرانی کے بعد بنو اُمّیہ 750 عیسوی میں بنو عباس کے ہاتھوں شکست کا شکار ہوئے۔ عباسی حکومت سال 1258 میں منگولوں کے بغداد فتح کرنے تک چلتی رہی۔ آخری خلیفہ مستعصم کو بڑی بے دردی سے روند کر مار دیا گیا‘ مگر اس عرصے میں سلطنتِ عباسیہ جزیرہ نما عرب‘ بحیرہ روم اور شمالی افریقہ تک جا پہنچی تھی۔ بنو اُمّیہ کے قتلِ عام میں بچ جانے والے شاہزادے عبدالرحمن اول نے عباسیوںکے ہاتھوں شکست کھا کر سپین کا رُخ کیا‘ جہاں اُس نے 758ء میں سلطنتِ قرطبہ کی بنیاد رکھی۔
مسلمانوں نے سپین پر 800 سال تک حکمرانی کی۔ اسلامک سپین مسلمانوں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین‘ بین المذاہب ہم آہنگی اور نسلی (ethnic) رواداری کا سنہرا دور بھی کہلاتا ہے۔ اُموی حکومت 1031 میں ختم ہوئی۔ سپین مختلف چھوٹی مسلم ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ 15ویں صدی عیسوی تک ان چھوٹی مسلم ریاستوں پر عیسائی بادشاہ قابض ہوتے گئے۔ 1502ء میں عیسائی حکمرانوں نے نسلی صفائی کا حکم جاری کیا۔ بڑی تعداد میں مسلمان قتل ہوئے‘ بھاگے۔ جو سپین نہ چھوڑ سکے‘ انہیں زبردستی عیسائی بنا دیا گیا۔
10ویں صدی عیسوی میں دریائے سینیگال کے علاقے میں سلطنتِ مرابطون کے بادشاہوں کے اسلام قبول کرنے کے بعد‘ مغربی افریقہ میں اسلام تیزی سے پھیلا‘ پھر 12ویں صدی میں انڈیا میں۔ سلاطینِ دہلی اور مغل ایمپائر ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا قابلِ فخر دور تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد 1299ء میں عثمان اول نے ترک علاقوں میں رکھی‘ جو 14ویں اور 15ویں صدی میں بازنطینی ایمپائر کے خلاف فتوحات کی وجہ سے جنوب مشرقی یورپ تک پھیل گئی۔ البانیہ‘ کوسوو‘ بوسنیا‘ ہرزیگووینا‘ ترکی‘ آذربائیجان‘ قازقستان اور روس کے شمالی کاکیشین علاقے مسلم یورپ کہلائے۔ 18ویں صدی میں براعظم افریقہ کی نصف آبادی مسلمان ہو چکی تھی۔
براعظم امریکہ میں مسلمانوں کی آمد 17ویں صدی میں نیو میکسیکو اور ایری زونا کے علاقوں میں ہوئی۔ آج کرہ زمین کا کوئی شہر اور بستی ایسی نہیں جہاں مسلمان نہ پہنچے ہوں۔ اسلام دُنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ مختلف ترقی یافتہ ملکوں کے محتاط اعدادوشمار کے مطابق‘ 2050ء تک اسلام دُنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ 2019ء کے ایک شماریاتی سروے کے مطابق یورپ میں 57.27 ملین مسلمان بستے ہیں۔ یہ مسلم آبادی 2030 تک 70 ملین ہو جائے گی۔ سابق سوویت یونین میں 6 مسلم اکثریتی ممالک آذربائیجان‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔
ہجرت کا جو سفر محسنِ انسانیت نے ایک ساتھی کے ہمراہ شروع کیا تھا‘ آج اُس راہ پہ چلنے والے مسلمانوں کی تعداد دو ارب 25 کروڑ سے زائد ہے۔ سال 2050 ء زیادہ دور نہیں اور وہ وقت بھی جب صفی لکھنوی کی ''رجزِ مسلم‘‘ حقیقت ِ منتظر نہیں رہے گی۔