نواز شریف کی صحت پر سیاست‘
شخصی انتقام کے سوا کچھ نہیں: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی صحت پر سیاست ‘شخصی انتقام کے سوا کچھ نہیں‘‘ کیونکہ اگر وہ اللہ کے خاص کرم سے مکمل طور پر صحت مند بھی ہیں تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ واپس جا کر پھر بیمار نہیں ہو جائیں گے‘ جبکہ وہ تو آتے وقت جہاز میں بیٹھتے ہی صحت یاب ہو گئے تھے ‘بلکہ جو انگور اُن کے سامنے رکھے گئے تھے ‘فوراً چٹ کر کے انہوں نے اور منگوائے تھے۔ اس لیے ان کی صحت پر حسد کرنے سے گریز کیا جائے اور ہم لوگ اگلے روز انہیں ہوٹل میں بھی اس لیے لے گئے تھے کہ ڈاکٹرز انہیں اپنی پسند کا کھانا کھانے نہیں دے رہے تھے‘ جبکہ اصل میں کھانا ہی ان کا اصل علاج ہے ‘کیونکہ زیادہ کھانا جسم میں کسی بیماری کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی اور جوں جوں پیٹ بھرتا ہے‘ بیماریاں بھی ایک ایک کر کے فارغ ہوتی رہتی ہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘ لوگ
مزے کر رہے ہیں: شیخ رشید احمد
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''حکومت کو کوئی خطرہ نہیں‘ لوگ مزے کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ اگر کھانے کو کچھ نہ ہو تو مزے کرنے کے علاوہ اور کیا ہی کیا جا سکتا ہے‘ جس سے دل بھی لگا رہتا ہے اور بھوک بھی بہل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں‘ اگر لوگ ریلوے میں نوکری کے لیے ڈیڑھ لاکھ دے سکتے ہیں تو اس سے بھی ظاہر ہے کہ لوگ خوشحال ہیں اور جہاں تک چیخیں مارنے والی بات ہے تو یہ خوشی کی چیخیں ہیں ‘جو لوگوں کی برداشت سے بھی باہر ہے‘ اس کے علاوہ آئے روز کے ریلوے حادثوں کی وجہ سے بھی ان کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے کہ ہر بار انہیں نیا ہی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے‘ جسے دیکھ کر وہ تالیاں بجاتے ہوئے بھی نہیں تھکتے‘ کیونکہ انہوں نے زمین میں دھنسا ہوا انجن اور الٹی ہوئی بوگیاں دیکھنے کا مزہ بھلا کہاں سے ملتا ہوگا اور یہ صحت اللہ تعالیٰ کاخاص کرم ہے کہ میری نیک نامی میں اضافے کا باعث ہیں‘ ورنہ نیک نامی حاصل کرنے کیلئے انسان کو کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ‘لیکن یہاں بیٹھے بٹھائے کسی ریلوے حادثے کی خوشخبری آ جاتی ہے اور یہ نظارہ دیکھنے کیلئے ہی سب سے پہلے پہنچ جاتا ہوں۔ آپ اگلے روز رسال پور میں لوکوموٹو فیکٹری میں تین انجنوں کا افتتاح کر رہے تھے۔
شاہدہ عروج خان
کچھ روز پہلے ہمیںکراچی سے شاعرہ شاہدہ عروج خان کا کچھ کلام موصول ہوا ہے‘ جس پر انہیں میری رائے درکار ہے۔ سو‘ عرض ہے کہ خواتین کو اپنی شاعری پر کسی رائے کی ضرورت نہیں ہوتی اور انہیں اللہ کا نام لے کر اس کام کو جاری رکھنا چاہیے‘ کیونکہ جیسی شاعری ہو‘ اسے ویسے ہی پڑھنے والے بھی مل جاتے ہیں‘ تاہم یہ شاعری اتنی ہی اچھی ہے‘ جتنی کہ کسی خاتون کی شاعری زیادہ سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ویسے وہ کبھی کبھار ‘اگر جدید شاعروں کو بھی پڑھ لیا کریں‘ تو اس سے جدید شعراء کرام کی حوصلہ افزائی بھی ہو سکتی ہے۔ نمونۂ کلام :؎
عشق کے ساتھ اور پیار کے ساتھ
جی رہی ہوں بڑے وقار کے ساتھ
جا رہے ہو تو یہ کرو وعدہ
آئو گے موسمِ بہار کے ساتھ
دل یہ کہتا ہے باندھ کر رکھوں
دامنِ دل خیالِ یار کے ساتھ
اور اب آخر میںکچھ منتخب شعر و شاعری:
ہونے کا اعتبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب خود کو اختیار نہیں کر رہے ہیں لوگ
تیار ہے تماشہ دکھانے کو ایک شخص
ماحول سازگار نہیں کر رہے ہیں لوگ
حیران ہوں کہ اتنی ریاضت کے باوجود
کیوں وقت کو غُبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
شاید کہ میری موت کا اعلان ہو چکا
اب مجھ پہ کوئی وار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب نصف شب نکلتے ہیں بے خوف کام پر
سورج کا انتظار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب عشق اور دشت خسارے میں ہیں میاں
اب دل کا کاروبار نہیں کر رہے ہیں لوگ
اب ہے نظامِ عشق میں ترمیم کا چلن
تاروں کا بھی شمار نہیں کر رہے ہیں لوگ (اسحق وردگ)
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا (جمال احسانی)
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاںکے تھے ہی نہیں (جون ایلیا)
میں وہ سکوت ہوں جو تیرے کام کا نہیں ہے
تُو ایسا شور ہے‘ میں مچا نہیں سکتا(ضمیر طالب)
تیری آنکھوں پہ مرا خوابِ سفر ختم ہوا
جیسے ساحل پہ اتر جائے سفینہ مرے دوست(ادریس بابر)
آج کا مطلع
سامان کچھ اِدھر سے اُدھر ہونے والا ہے
اک دوسرے کی سمت سفر ہونے والا ہے