تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     18-01-2020

دو ہفتے کی پابندی

کوئی چار دہائیاں قبل، جب نصرت جاوید کی صحافت گھٹنوں کے بل چل رہی تھی، انہوں نے فیض صاحب کی اس بات کو کہ ''میاں! صحافت تو وفاقی دارالحکومت میں ہوتی ہے‘‘ پلے باندھا اور لاہور سے اسلام آباد سدھار گئے۔ انگریزی صحافت میں نمایاں ہونے میں انہیں زیادہ وقت نہ لگا، پھر الیکٹرانک میڈیا میں بھی اپنا نقش جمایا۔ آج کل سکرین سے غائب ہیں کہ ان کا چہرہ بعض ''ناظرین‘‘ کے لیے پسندیدہ نہیں رہا تھا۔ آج کل ایک اردو اخبار میں کالم لکھتے ہیں (رپورٹنگ سے کنارہ کشی اختیار کر چکے، اور آج کل اپنے کالموں میں خود کو ''دو ٹکے کا رپورٹر‘‘ کہتے ہیں) نصرت جاوید راوی ہیں کہ منگل کی شب رات گئے تک عمران حکومت کے چند اہم وزیر اور مشیر اسلام آباد میں کچھ اہم ترین صحافیوں سے رابطہ کر کے اس ڈیمیج کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے، جو ایک ٹاک شو میں فیصل وائوڈا کے رویّے سے درپیش تھا۔ فیصل وائوڈا جناب وزیر اعظم کے چہیتے ترین وزرا میں شمار ہوتے ہیں اور اس چاہت کی وجہ، اپنی وزارت میں موصوف کی کارکردگی نہیں بلکہ ان کا خاص سٹائل ہے۔ وفاقی وزیر کے فل پروٹوکول کے ساتھ، پھٹی ہوئی جینز پہنے، ہیوی بائیک پر کراچی کی سڑکوں پر مٹرگشت، چینی قونصلیٹ پر دہشت گردی کی خبر پاتے ہی بلٹ پروف جیکٹ پہن کر ہاتھ میں پستول لئے جائے وقوعہ پر پہنچ جانا، پاک فوج کے گرائے ہوئے انڈین ایئر فورس کے طیارے کے ملبے پر پائوں رکھ کر تصویر بنوانا، موصوف کی افتادِ طبع کے کچھ نمونے ہیں۔ ٹاک شوز میں اپوزیشن کے لیے ان کا طرزِ گفتار، ان کے منفرد طرزِ سیاست کا مظہر ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے قانون سازی کا معاملہ آیا تو ایک ٹاک شو میں فرمایا: ہم نے ان سے (اپوزیشن والوں سے) رشتہ لینا ہے جو رابطہ کریں؟ اور کاشف عباسی کے منگل والے شو میں تو وہ آخری حد بھی پار کر گئے (تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، ٹاک شو کے بعد اس پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں بھی ایک دنیا بہت کچھ جان چکی ہے)۔
جولائی2018 کے عام انتخابات میں، 1988 کے بعد سے ایم کیو ایم کی اجارہ داری والے شہر، کراچی میں قومی اسمبلی کی 14 نشستیں پی ٹی آئی کی قسمت میں لکھی تھیں (ان میں این اے 249 سے فیصل وائوڈا کی نشست بھی تھی۔ یہاں ان کا مقابلہ شہباز شریف سے تھا۔ الیکشن کے دنوں میں‘ کراچی کے جس بھی اخبار نویس دوست سے بات ہوئی، اس کا کہنا تھا: مسلم لیگ (ن) کی ایک نشست تو یقینی ہے، شہباز صاحب والی نشست۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں، مقدر کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے؟ شکست شہباز صاحب کے مقدر میں لکھی تھی۔ نتیجے کا اعلان ہوا تو وہ 718 ووٹوں سے ہار گئے (فیصل وائوڈا 35344، شہباز شریف 34626)۔ پاک سرزمین پارٹی والے سید مصطفیٰ کمال کا تبصرہ دلچسپ تھا: کراچی میں الیکشن کتنے آزادانہ و غیرجانبدارانہ ہوئے، اس کے لیے فیصل وائوڈا اور عامر لیاقت حسین (این اے 245) کی جیت کو ٹیسٹ کیس بنا لیں۔ (مصطفیٰ کمال یہ کہے بغیر بھی نہ رہے کہ ان سے کراچی کی 6 نشستوں کا وعدہ تھا، لیکن الیکشن سے چند دن قبل ایک انٹرویو انہیں لے بیٹھا) انتخابات کے حوالے سے ایم کیو ایم کے اپنے دعوے (اور الزامات) ہیں۔ خان صاحب کی کابینہ کے مستعفی ہونے والے رکن خالد مقبول صدیقی گزشتہ دنوں بھی، 25 جولائی 2018 کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ایم کیو ایم کے الزامات کا اعادہ کر رہے تھے؛ تاہم انہوں نے اپنی اتحادی جماعت (پی ٹی آئی) کو اس لحاظ سے بری الذمہ قرار دیا کہ یہ انتخابات پی ٹی آئی نے تو نہیں کروائے تھے؛ البتہ الیکشن میں جو کچھ ہوا (بقول، ان کے یہ پولنگ کے بعد ہوا) اس کی Benificiary وہ ضرور تھی۔
بات کسی اور طرف نکل گئی، ہم فیصل وائوڈا کے تازہ (متنازعہ) ٹاک شو کی بات کر رہے تھے۔ یہ شو منگل کی شب (8 سے 9 تک) ہوا اور اس کے ساتھ ہی ہاہاکار مچ گئی۔ الیکٹرانک میڈیا پر بدھ کے تمام ٹاک شوز میں یہی زیر بحث رہا۔ پیمرا نے اس کا نوٹس بدھ کی شب ایک بج کر 35 منٹ پر لیا اور شو کے میزبان کی کسی بھی ٹی وی سکرین پر ''رونمائی‘‘ پر دو ماہ کے لیے پابندی عائد کر دی۔ کہا جاتا ہے، رات گئے، یہ نوٹیفکیشن واٹس ایپ پر جاری ہوا (واٹس ایپ کا یہ استعمال بھی دلچسپ ہے۔ نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی کی تشکیل میں بھی واٹس ایپ بروئے کار آیا۔ رانا ثناء اللہ کے کیس کی سماعت کرنے والے جج کا تبادلہ بھی واٹس ایپ پر ہوا) قانون کی معمولی شدھ بدھ رکھنے والے کو بھی احساس تھا کہ یہ حکم چلنے والا نہیں۔ شو کاز نوٹس (اور صفائی کا موقع دیئے بغیر) کسی کو کیسے سزا دی جا سکتی ہے؛ چنانچہ متعلقہ چینل نے اسی روز جواب بھجوا دیا اور اینکر پر پابندی ختم ہو گئی، خود اینکر کو اپنے ناظرین کے سامنے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہ تھی کہ اس سے غلطی ہو گئی۔ قابلِ اعتراض (اور لائقِ گرفت) مناظر آٹھ، نو منٹ تک سکرین پر رہے، اسے فوری مداخلت کر کے، انہیں بند کرنا چاہیے تھا؛ البتہ اس کی وضاحت کا یہ حصہ غیر ضروری (اور ناقابلِ فہم) تھا کہ اسے کیا خبر تھی کہ وزیر موصوف اپنے ساتھ بیگ میں کیا لائے ہیں؟ سکیورٹی گارڈ بھی میزبانوں کی ''تلاشی‘‘ نہیں لیتے؟ ...لیکن مسئلہ تو تب پیدا ہوا جب وزیر موصوف نے ایک چمکتا دمکتا لانگ بوٹ بیگ سے نکالا اور اسے میز پر سجا دیا۔ اس موقع پر وزیر موصوف کی گفتگو اتنی دل آزار تھی کہ شو کے دوسرے شرکا احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے۔
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، اگلے روز وائوڈا صاحب کو بعض ٹاک شوز میں سولو پرفارمنس کا موقع ملا لیکن وہ گزشتہ روز کے طرز عمل پر کسی ندامت، کسی تاسف کے اظہار پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم صاحب بوٹ والی اس بات پر ناخوش تھے (ناراض نہیں)
Prime minister was unhappy on "boot thing" 
اس سوال پر کہ کیا پرائم منسٹر نے آپ کو اس پر اظہار افسوس کے لیے نہیں کہا؟ ان کا جواب تھا، میں نے کہا، سر! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘ میں آئندہ احتیاط کروں گا۔ اس ''وضاحتی‘‘ ٹاک شو میں موصوف کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرحلے پر فرمایا، اس بوٹ کو کوئی خاص معنی کیوں پہنائے جا رہے ہیں؟ یہ ''ہائیکنگ‘‘ والا بوٹ بھی تو ہوسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس اہم (اور چہیتے) وزیر کی اس حرکت پر پرائم منسٹر صاحب سے ایک بہت اہم کال پر سخت ناپسندیدگی اور ناراضی کا اظہار بھی کیا گیا۔ وزیر موصوف کی اس حرکت کا دفاع، ممکن نہ تھا۔ وزیر اعظم صاحب کی طرف سے براہِ راست کوئی تبصرہ نہیں آیا تھا۔ حکومتی ذمہ داران میں سے کوئی بھی اس کا دفاع کرنے کو تیار نہیں تھا۔ میڈیا نے جس سے بھی بات کی، اس نے اظہار لاتعلقی و ناپسندیدگی کیا۔ سینیٹر ولید اقبال اور ہمایوں اختر خان کا کہنا تھا، ہم ہوتے تو یہ حرکت نہ کرتے۔ مشیر اطلاعات صاحبہ اسے پرائم منسٹر کے ویژن اور پی ٹی آئی کی پالیسی کے منافی قرار دے رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے، پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں بھی، شرکاء نے وزیر موصوف کی اس حرکت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ بعد ازاں مشیر اطلاعات کے ٹویٹ سے معلوم ہوا کہ وزیر اعظم نے فیصل وائوڈا کی کسی ٹاک شو میں شرکت پر دو ہفتے کے لیے پابندی عائد کر دی ہے۔
کراچی میں الیکشن کتنے آزادانہ و غیرجانبدارانہ ہوئے، اس کے لیے فیصل وائوڈا اور عامر لیاقت حسین (این اے 245) کی جیت کو ٹیسٹ کیس بنا لیں۔ (مصطفیٰ کمال یہ کہے بغیر بھی نہ رہے کہ ان سے کراچی کی 6 نشستوں کا وعدہ تھا، لیکن الیکشن سے چند دن قبل ایک انٹرویو انہیں لے بیٹھا) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved