گیارہ مئی کو ابھی پولنگ شروع ہوئے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ ایک سینہ زور شخص جو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر ایک سیاسی جماعت کی طرف سے امیدوار بھی تھا، اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ پولنگ اسٹیشن میں آیا اور تقاضا کرنے لگا کہ اس کے آدمیوں کو بطور پولنگ افسر استعمال کیا جائے ۔ اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے نوجوان پریزائیڈنگ افسر نے اس کے آدمیوں کو پولنگ اسٹیشن سے نکلنے کا حکم دیا اور امیدوار سے مضبوط لہجے میں کہا کہ ’تمہارے پاس جو سب سے بڑا پہلوان ہے اسے ساتھ لے آؤ اور بیلٹ پیپر کو صرف ہاتھ لگا کر دکھا دو‘۔ اس عادی سیاست دان کے لیے یہ لہجہ بالکل نیا تھا ۔ اس پولنگ اسٹیشن پر اگلا حملہ اور بھی شدید تھا۔ اب ووٹروں کے روپ میں چند لوگ آئے اور انہوں نے ایک پولنگ افسر کی جیب میں پچاس ہزار روپے ڈال کر یہ چاہا کہ بیلٹ پیپرز کا ایک بنڈل انہیں دے دیا جائے۔ یہ پولنگ افسر اس سے پہلے اپنے باس کے تیور دیکھ چکا تھا ، اس لیے اس نے پچاس ہزار روپے دینے والوں کے منہ پر مارے اور پریزائیڈنگ افسر کو اس بارے میں بتادیا۔ تیسرا حملہ ووٹر کے روپ میں آنے والے ایک فرشتہ صورت بزرگ نے کیا۔ یہ بزرگ پولنگ اسٹیشن کے انتظامات کی تعریف کرنے کے لیے اس کے نوجوان سربراہ سے ملے اور پھر ایک لاکھ روپے سے بات شروع کی۔ بزرگوار کا کہنا تھا کہ اس پولنگ اسٹیشن سے ان کے امیدوار کی ہار پورے علاقے میں ان کی عزت داؤ پر لگا دے گی اس لیے کچھ بیلٹ پیپر عنایت ہوجائیں تو عزت بچانے کا آسرا ہوجائے گا۔ اس کو انکار کیا تو پیشکش بڑھتی چلی گئی‘ آخر دس لاکھ روپے پر بھی انکار ہی سننا پڑا تووہ سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے چلے گئے۔ افسر کے اس رویے کا اثر یہ ہوا کہ ماتحت عملے اور موقعے پر موجود پولیس والوں میں گویا ایک نئی روح حلول کرگئی۔ انہوں نے ہر خطرے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام پورا کیا کیونکہ ان کا سربراہ انہیں کہہ چکا تھا کہ وہ نہ صرف سرکاری طور پر ہر مشکل کی ذمہ داری لیتا ہے بلکہ اس پولنگ اسٹیشن کے عملے کے ایک ایک فرد کو حفاظت سے اس کے گھر تک پہنچانا بھی اسی کا فرض ہے۔ حکمت اور دلیری پر مبنی اس طرزعمل کو دیکھ کر اس پولنگ اسٹیشن پر کسی کو بے قاعدگی کی جرأت تک نہ ہوسکی اور رات گیارہ بجے کے قریب پریزائڈنگ افسر نے اپنے پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ تمام امیدواروں اور ان کے نمائندوں کے حوالے کیا اور اپنے سارے عملے کو لے کر وہاں سے بحفاظت چلا گیا۔ اس پریزائیڈنگ افسر کا نام خالد بٹ ہے جو لاہور کے مضافات میں ایک کالج کا لیکچرار ہے۔ اس کا پولنگ اسٹیشن انہتر ہزار آٹھ سو ایک پولنگ اسٹیشنوں میں سے ایک تھا جہاں پاکستان بھر کے ووٹروں نے گیارہ مئی کو اپنا ووٹ ڈال کر نئی مقننہ اور انتظامیہ کی تشکیل کی۔خالد ان چھ لاکھ چوالیس ہزار نو سو ستر لوگوں میں سے ایک ہے جنہوں نے صبح آٹھ بجے سے شام چھے بجے تک کے دس گھنٹوں میں پانچ کروڑ ووٹروں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے بارے میں رائے معلوم کرکے اسی رات آپ کو بتا بھی دی۔ دنیا کی پانچویں بڑی جمہوریت کو زندگی دینے والے ان لوگوں میں سے اکثریت ہمارے اساتذہ کی ہے۔ یہ لوگ جو ہماری نسلوں کوسنوارنے کا کام کررہے ہیں ، ہم نے الیکشن جیسا نازک کام بھی انہی کے سپرد کررکھا ہے۔ یہ اگر عمومی طور پر انصاف پسندی کا مظاہرہ نہ کریں تو کبھی بے نظیر بھٹو حزب اختلاف میں بیٹھتیں نہ نوا ز شریف اس کے لیے تیار ہوتے۔ کبھی حکومتیں تبدیل ہوتیں نہ نئے لوگوں کے لیے جگہ بنتی۔ انہی لوگوں کی دیانت و جرأت کا مظاہرہ ہے کہ نواز شریف مرکز کی حکومت میں آپہنچے ہیں۔ جو عمران خان کل تک ایک نشست سے بھی محروم تھے آج خیبر پختونخوا میں حکومت بنا رہے ہیں اور پاکستان پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اورق لیگ عبرت کا سامان ہوگئی ہیں۔ الیکشن کرانے والے یہ لوگ اگر بکتے تو ہر جگہ ان کے خریدار تھے اور اگر ڈر جاتے تو ان کو ڈرانے والے بے شمار۔ ایک پریزائیڈنگ افسر کو اس کام کے چودہ سو روپے ملتے ہیں‘ کیا یہ رقم ان کے کام کی نزاکت کا نعم البدل ہوسکتی ہے؟ انہی اساتذہ کے بارے میں جب ابرارالحق جیسا ایک اوسط درجے کا شکست خوردہ گویّا یہ کہے کہ ’استاد وں کا کیا ہے، بے چاروں کی پینتیس پینتیس ہزار تنخواہ ہوتی ہے‘ یہ لوگ تو بڑے آرام سے بک جاتے ہیں‘۔ اس پر سوائے اِنَّا للہ پڑھنے کے کیا کیا جائے کہ ایک ایسا شخص جس پر کئی لوگ بر سرعام مالیاتی الزامات لگا چکے ہوں وہ شاید لوگوں کو خود پر قیاس کرکے سارے کے سارے الیکشن پر سے اعتبار اٹھا دے! بھائی اگر تمہیںمعلوم تھا تو خرید کیوں نہ لیے اور تمہارے ہم نشینوں نے جہاں جہاں فتح پائی ہے کیا وہاں اساتذہ کو خرید لیا تھا؟ اساتذہ پر بطور طبقہ ایسا الزام؟… بے شک جس میں حیا نہیں وہ ہم میں سے نہیں! اب ذرا دھاندلی دھاندلی پکارنے والوں کے دلائل بھی ملاحظہ ہوں۔ کہتے ہیں لاہور کے حلقہ این اے 125 میںمسلم لیگ ن کے سعد رفیق نے تحریک انصاف کے مقابلے میں جو دھاندلی کی اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حلقے میں جو دو صوبائی حلقے آتے ہیں ان میں شیر پر لگنے والے نشانات قومی اسمبلی میں سعد رفیق کو ملنے والے ووٹوں سے کم ہیں۔ اس دلیل کا بودا پن ملاحظہ فرمائیے کہ خود تحریک انصاف کے چیئرمین پشاور میں جس حلقے سے جیتے ہیں‘ وہاں صورتحال یہ ہے کہ اس کے نیچے تین صوبائی نشستیں ہیں اور یہ تینوں نشستیں تحریک انصاف کے امیدواروں نے ہی جیتی ہیں۔ عمران خان نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے نوے ہزار پانچ سو ووٹ حاصل کیے، لیکن تحریک انصاف کے تین صوبائی اسمبلی کے امیدواروں نے صرف اڑسٹھ ہزار چار سو چھہتر ووٹ لیے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو بائیس ہزار چوبیس اضافی ووٹ کہاں سے مل گئے؟ گویا یہ مان لیا جائے کہ عمران خان دھاندلی سے جیتے ہیں؟ یہی صورتحال میانوالی کے اس حلقے کی ہے جہاں سے عمران خان ہی ایک لاکھ بتیس ہزار دو سو تراسی ووٹ لے کر جیتے ہیں لیکن ان کے نیچے صوبائی اسمبلی کے دو حلقو ں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو پچاسی ہزار چھے سو اٹھائیس ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح عمران خان کو چھیالیس ہزار چھے سو پچپن ووٹ اضافی ملے ہیں۔ دھاندلی؟ ہرگز نہیں۔ عمران خان کے بارے میں اگر کوئی گمان کرے کہ انہوں نے کسی دھاندلی سے اپنی نشستیں جیتی ہیں تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے‘ لیکن یہ ماتم تحریک انصاف کے اکابرین کو اپنے ان امیدواروں اورکارکنوں کی عقلوں پر بھی کرنا چاہیے جنہوں نے زندگی میں پہلی بار الیکشن لڑ کر اور ووٹ ڈال کر یہ سمجھ لیا کہ اب اسمبلیوں کی نشستوں پر ان کے سوا کوئی بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ چند پھٹے ہوئے بیلٹ پیپر ، نامعلوم مقامات کی موبائل فون پر بنائی گئی تصویریں، ناتجربہ کاری پر مبنی دلائل اور بے پناہ شور شرابہ اگر الیکشن میں دھاندلی کے ثبوت ہیں توپھر یہ سب کچھ کہیں بہتر انداز میں مولانا فضل الرحمٰن تحریک انصاف کے خلاف پیش کررہے ہیں! دوہزار تیرہ کے انتخابات کا جائزہ بلا شبہ لینا چاہیے لیکن ہمیں شوقِ تنقید میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ان چند زندہ قوموں میں سے ایک ہیں جو ایک دن میں اپنی آبادی کے چوتھے حصے کو نکال کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے آتی ہے اور پھر یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑوں کو خاک چٹا کر خیریت سے اپنے گھروں میں جا بیٹھتے ہیں۔ خالد بٹ جیسے لوگوں نے ہمارے لیے جو قابل فخر کام کیا ، بعض لوگوں نے اسے بھی ہمارے لیے باعث شرم بنانے کی کوشش شروع کردی۔ انہیں کوئی کیا کہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved