جعلی حکومت ختم ہوتے ہی سارے جیل جائیں گے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جعلی حکومت ختم ہوتے ہی سارے جیل جائیں گے‘‘ حالانکہ اپوزیشن تو پہلے ہی آدھی جیل میں ہے۔ باقی بھی چلی جائے‘ تو اچھا ہے‘ کیونکہ اس نے جو سلوک میرے ساتھ کیا ہے‘ اسے بہت پہلے ہی جیل میں ہونا چاہیے تھا اور اگر خدانخواستہ میں اور میرے ساتھی بھی ان میں شامل کر لیے گئے ‘تو ایک طرح سے مساوات کے اصول پر بھی عملدرآمد ہو جائے گا‘ کیونکہ فضول سڑکوں پر مارے مارے پھرنے سے تو جیل ہی بہتر ہے کہ وہاں کھانا تو مفت ملے گا اور کوئی پابندی بھی نہیں ہوگی کہ اتنا کھائو اور اتنا نہ کھائو ۔ آپ اگلے روز مالا کنڈ میں ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
سونامی عوام کو روٹی سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''سونامی عوام کو روٹی سے بھی محروم کرنا چاہتا ہے‘‘ لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوگا ‘کیونکہ اگر ہم انہیں روٹی سے محروم نہیں کر سکے تو اور کوئی بھی نہیں کر سکتا؛ حالانکہ اپنی بے عملی سے اس کی جتنی کوشش ہم نے کی ہے ‘کوئی کیا کرے گا؟ جبکہ بلا ناغہ بیان دینے سے بڑا عمل اور کوئی نہیں ہو سکتا اور یہ بھی کسی کسی ہی کا کام ہے اور یہ بھی میرا ریکارڈ ہے کہ میرے علاوہ کوئی بھی پارٹی سربراہ ہر روز بیان نہیں دیتا‘ ایک آدھ ناغہ ضرور کر جاتا ہے ؛حالانکہ بیان دینے کے لیے ضروری نہیں کہ اس میں کوئی کام کی بات بھی ہو‘ بلکہ اگر کوئی نیا بیان سُوجھ نہ رہا ہو ‘تو میں کوئی دیا ہوا بیان ہی دُہرا دیتا ہوں کہ اس سے کچھ تاکید بھی ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی ‘ یہ قوم ہی ایسی ہے کہ ایک بار کہی ہوئی بات اس کی سمجھ میں بھی نہیں آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اپوزیشن نے تہیّہ کر رکھا ہے کہ کارروائی نہیں چلنے دینی: شبلی فراز
سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن نے تہیّہ کر رکھا ہے کہ کارروائی نہیں چلنے دینی‘‘ چنانچہ ہم بھی ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کارروائی کو رُکا رہنے دیتے ہیں ‘کیونکہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر چلے؛چنانچہ کچھ نہ کرنا‘ دونوں کی ترجیحِ اوّل قرار پا چکی ہے ‘جبکہ ہم لوگ پھر بھی کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہتے ہیں‘ جس میں اپوزیشن والوں کو حکومت کے ہاتھوں اپنے انجام پہنچائے جانے کے حوالے سے خبردار کرنا بھی ہے‘ جبکہ وزیراعظم عمران خان یہ کام زیادہ خوش دلی سے کرتے ہیں ‘کیونکہ اُن پر ذمہ داری بھی زیادہ ہے‘ جو وہ تقریباً ہر روز یا اپنی ہر تقریر میں یہ فریضہ سر انجام دیتے نظر آتے ہیں‘ ویسے بھی؎
جس کا کام اسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پانی کا لمس
یہ محمد علی منظر کا مجموعۂ غزل ہے‘ جسے رنگِ ادب ‘کراچی نے شائع کیا ہے۔ پس سرورق تحریر بشیر عنوان اور صدف حسن کی ہے ‘جبکہ اندرون سرورق عتیق احمد جیلانی اور مصطفی ارباب کی رائے درج ہے۔ انتساب نجمہ علی‘طلیق ارشد‘ حذیفہ ارشد اور اشعر ارشد کے نام ہے۔ دیباچہ ماجد حسن کے قلم سے ہے۔ یہ شوقیہ شاعری ہے اور شوق کا تو کوئی مول ہوتا ہی نہیں۔ شاعر نے دوسروں سے مختلف ہونے کی کوئی کوشش نہیں کی‘ شاید اس نے اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور ندرت ‘ تازگی اور تاثیر سے خاصا پرہیز کیا ہے‘ تاہم ان سے بہتری کی امید ہے۔ نمونۂ کلام:
محبت میں کمی آنے لگی ہے
وہ یہ الفاظ دُہرانے لگی ہے
رہا مصروف میں اتوار کو بھی
مجھے یہ زندگی کھانے لگی ہے
پرندے ہو گئے ناراض شاید
اداسی باغ پر چھانے لگی ہے
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم
ایک پتھر سے خود کو جوڑ لیا
صبح دم جس زمیں پہ کروٹ لی/ اٹھ کے آغاز رقصِ خاک کیا/ اب ان اطراف کا نشاں بھی نہیں ---
ہم تھے آوارگانِ قریۂ خواب/ چار سو ‘ راستے بلاتے رہے/ کوئی دن تیرے دل میں بھی تھا قیام/ کوئی دن تھی تیرے دل میں بھی تھا قیام/ کوئی دن تھی / یہ زندگی رقصاں/ کوئی مہکار تھی‘ بھٹکتی ہوئی/ سبزہ و گُل تھے/ ہم رہِ دل و جاں/ گھاس اگ آئی ہے---یہاں سے وہاں
کوئی دن‘ ڈھول سے بھرے کچھ دن/ سانس میں گرہ سی لگائے رہے/ یوں ہی چپ چاپ‘ بے طلب‘ بے تاب/ گردِ اوہام سے الجھتے رہے/ تھم گئے‘ جم گئے/ نہ جانے کہاں---
رایگاں ہے مسافتِ شب و روز/ عمر بے مصرف و گمان ہے بس/ اور کچھ تھا اگر‘ کسے ہے خبر/ ہم نے ہر آئینے کو توڑ دیا/ سو گئے تان کر فلک اپنا/ اور اینٹوں سے سر کو پھوڑ لیا
اور قرب و جوارِ ہستی میں/ نرم ہوتی ہوئی جگہ پہ کہیں/ ایک بستر بچھا لیا ہم نے/ ایک پتھر سے خود کو جوڑ لیا!
آج کا مقطع
روشنی اب راہ سے بھٹکا بھی دیتی ہے‘ ظفرؔ
اس کی آنکھوں کی چمک نے مجھ کو بے گھر کر دیا