چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ جب منتخب وزیراعظم سے ملاقات کے لئے ماڈل ٹائون میں واقع حمزہ شہباز کی قیام گاہ پر گئے‘ تو میڈیا میںاس واقعے کو یوں اہمیت دی گئی‘ جیسے کوئی سربراہی ملاقات ہو رہی ہو اور اس میں اپنے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے بارے میں بڑے بڑے فیصلے کئے گئے ہوں۔ حد یہ کہ بعض اخباروں نے یہ خبر بھی شائع کر دی کہ مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹریٹ سے اس ملاقات پر ایک اعلامیہ بھی جاری کیا گیا ہے۔ بعد میں اس کی تردید ہو گئی۔ لیکن میڈیااس ملاقات پر کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا۔ جمہوری ممالک کے معیار سے دیکھا جائے‘ تو یہ ایک رسمی ملاقات تھی۔ جب بھی انتخابات میں کوئی نئی قیادت اکثریت حاصل کر کے‘ حکومت سازی کے عمل میں مصروف ہوتی ہے‘ تو روایت کے مطابق نامزدصدر یا وزیراعظم ‘ مختلف محکموں کے سربراہوں سے حسب ضرورت بریفنگ لیتے ہیں۔ پاکستان میں ہمارے مخصوص حالات کی وجہ سے فوج کو کلیدی اہمیت حاصل ہے اور امور مملکت میں اس کے عمل دخل کی روایت بھی موجود ہے۔ نامزدوزیراعظم کے لئے ضروری تھا کہ وہ سلامتی سے متعلقہ امورپر چیف آف آرمی سٹاف سے بریفنگ لیتے۔ ملاقات کی طوالت ظاہر کرتی ہے کہ بعض معاملات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ جن میں دہشت گردوں کی کارروائیاں اور پاک بھارت تعلقات یقینی طور پر تفصیل سے زیربحث آئے ہوں گے۔ حقیقت میں یہ آنے والے وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان ایک معمول کی ملاقات تھی۔ دیگر جمہوری ملکوں میں اس طرح کی ملاقاتیں یا تو خبروں کا موضوع ہی نہیں بنتیں اور اگر کہیں ذکر آئے‘ تو سنگل کالم خبر چھاپ دی جاتی ہے۔ ہمارے میڈیا میں اس خبر کا نمایاں طور سے ذکر ہونا اور پھر اس پر تبصرے اور تجزیے‘ اس دور کی بازگشت ہیں‘ جو پاکستان میں ایک طویل عرصے تک جاری رہا۔ آج نہ وہ فوج ہے اور نہ ہی اس ادارے کی سابقہ روایات پر چلنے والے نوازشریف۔ ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں نوازشریف ریاستی اداروں کے باہمی تعلقات کے بارے میں‘ اب ایک واضح سوچ رکھتے ہیں۔ عوام کے اختیار اعلیٰ پر ان کا یقین پوری طرح پختہ ہو چکا ہے۔ اب وہ اپنا قائدانہ کردار مضبوطی سے ادا کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور دوسری طرف فوجی قیادت بھی‘ امور مملکت اور سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رہنے پر مائل ہے۔ خصوصاً جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ابتدا ہی سے منتخب حکومت کے آئینی اختیارات کو تسلیم کر رکھا ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد جب نئی حکومت نے کام شروع کیا‘ تو جنرل کیانی نے اسی وقت سے فوج کے بدلتے ہوئے کردار کا عملی مظاہرہ شروع کر دیا تھا۔ وہ صرف حزب اقتدار ہی نہیں‘ حزب اختلاف کے رہنمائوں کے ساتھ بھی انٹرایکشن کرنے لگے اور منتخب رہنمائوں پر واضح کر دیا کہ فوج اب سویلین اتھارٹی کے احکامات کے تحت کام کرنے کی خواہشمند ہے اور اسے جو بھی حکم دیا جائے گا‘ وہ اس پر عملدرآمد کرے گی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا فیصلہ بھی منتخب قیادت کو کرنا ہو گا۔ فوج کو جو بھی حکم دیا جائے گا‘ اس کے مطابق ایکشن ہو گا۔ البتہ اس کی اونرشپ سیاسی حکومت کو قبول کرنا ہو گی۔ انہی مذاکرات کے پس منظر میں سوات آپریشن کا فیصلہ ہوا اور یہ ریاست جس پر دہشت گردوں نے اپنا کنٹرول قائم کر رکھا تھا‘ فوج نے قربانیاں دے کر وہاں سے دہشت گردوں کو باہر نکالا اور وہاں دوبارہ حکومت کی عملداری قائم کر دی۔ آج بھی دہشت گرد‘ افغانستان میں واقع اپنی کمین گاہوں سے نکل کر کبھی کبھی پاکستانی سرحدوں کے اندر کارروائی کرتے ہیں۔ لیکن پاک فوج نے اب بڑی حد تک اپنی نگہداری کو موثر کر لیا ہے اور کافی عرصہ ہوا اس علاقے میں دہشت گرد وں کی کارروائیاں ختم ہو رہی ہیں۔ نوازشریف اس مرتبہ ایک واضح ایجنڈا لے کر آ رہے ہیں۔ اس وقت تین مسائل ایسے ہیں‘ جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہو گی۔ پاک امریکہ تعلقات قریباً تین سال سے تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قدر نچلی سطح پر جا چکے ہیں کہ پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان متعدد امور پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اکثر معاملات میں امریکہ‘ پاکستان پرعدم اعتمادی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ خصوصاً دہشت گردوں کے ساتھ پاکستانی اداروں کے بعض عناصر کا تعلق‘ شدید اختلاف کا باعث ہے۔ امریکہ اس معاملے میں پاکستانی موقف کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں مانتا کہ پاکستان‘ افغانستان میں برسرجنگ گروہوں کو مذاکرات کی میزپر لانے کی اہلیت نہیں رکھتا اور اب نوازشریف سے تو اس کی توقعات میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔ تحریک طالبان پاکستان نے حالیہ انتخابات سے قبل جن جماعتوں کے خلاف کارروائیاں نہ کرنے کے اعلان کیا تھا‘ ان میں مسلم لیگ (ن) سرفہرست ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا بھی مشکل ہو گا کہ نوازشریف‘ طالبان پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ وہ افغانستان میں برسرجنگ طالبان سے قریبی تعلق رکھتے تھے اور اب بھی دونوں کے درمیان خیرسگالی کے جذبات موجود ہیں۔ امریکہ مذاکرات کے لئے زیادہ پرامید ہو گیا ہو گا۔ نوازشریف سے اس کی توقعات یقینی طور پر بڑھ چکی ہیں۔ اس معاملے میں نوازشریف کو بڑے کٹھن امتحان سے گزرنا ہو گا۔ دہشت گردی خود پاکستان کے لئے بھی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ اس حوالے سے جو بھی نئی پالیسی بنے گی‘ اس میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات کو ایک دوسرے کی معاونت کے ذریعے یکساں طور پر فروغ دیا جا سکے گا۔ حامد کرزئی کو ایوان اقتدار سے رخصت ہونا ہے۔ لیکن وہ اپنی سیاسی حیثیت کو تحفظ دینے کے لئے سرگرم ہیں اور پاکستان سے تعاون کے خواہشمند ہیں‘ جو ان کی خواہش کے مطابق نہیں مل رہا۔ اسی وجہ سے پاکستان کے بارے میں ان کا لہجہ جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور انہوں نے ڈیورنڈلائن کے مسئلے کو سردخانے سے نکال کر ہوا دینا شروع کر دی ہے۔ نوازشریف کی اقتدار میں واپسی سے ‘ بھارت کی توقعات کافی بڑھ چکی ہیں۔ وہ اپنی شرائط پر پُرامن تعلقات کی بحالی کا خواہشمند ہے۔ لیکن پاکستان کی حکومتوں کو اس نے کبھی کوئی سہولت نہیں دی‘ جس کی بنیاد پر وہ اپنے عوام کو مطمئن کر سکیں۔ سرکریک کا تنازعہ بلاوجہ برقرار رکھا جا رہا ہے۔ وہاں اگر پاکستان کے جائز مطالبات مان لئے جائیں‘ تو بھارت کا کوئی نقصان نہیں۔ اس کے باوجود بھارت وہاں تصفیہ نہیں کر رہا۔ اسی طرح سیاچن میں فوجیں رکھنا‘نہ بھارت کے مفاد میں ہے اور نہ ہی اس سے پاکستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ صرف بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے‘ جو سیاچن پر فوجی قبضہ برقرار رکھنے پر مصر ہے۔ دونوں ملک وہاں سے اپنی فوجوں کو واپس بلا کر شدید نقصانات اور خطرات سے بچ سکتے ہیں۔ لیکن بھارت یہاں بھی کوئی گنجائش پیدا کرنے پر مائل نہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر اس کا قبضہ ایک تاریخی ناانصافی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ کشمیری عوام کی رضامندی سے‘ وہاں پاکستان اور بھارت کوئی قابل عمل حل تلاش کر لیں۔ لیکن بھارت کشمیری عوام کو بھی کسی طرح کی رعایت دینے پر تیار نہیں۔ پاکستان کی کوئی حکومت‘ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے حق میں عوام کو مطمئن نہیں کر سکتی۔ بھارت وہاں بھی اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک پیدا کرنے پر تیار نہیں۔ اٹل بہاری واجپائی اس پر مائل ہو گئے تھے ۔ کارگل کے واقعات نے دوطرفہ تعلقات کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روک کر‘ دوبارہ کشیدگی پیدا کر دی تھی۔ نوازشریف اس کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے تحقیقات کا عندیہ دے چکے ہیں۔ خدا کرے اس فیصلے سے بھارتی حکمران ‘ واجپائی دور کے تعلقات کی سطح پر واپس آنا قبول کر لیں۔ خطے کے علاوہ عالمی طاقتوں کو بھی امن قائم کرنے کے لئے نوازشریف سے بہت سی امیدیں ہیں۔ یہ بڑھی ہوئی امیدیں‘ نوازشریف کے لئے چیلنج کا درجہ رکھتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ مختلف اور متضاد توقعات میں ہم آہنگی پیدا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟ریاستی اداروں میں سب سے پہلے پاک فوج کے ساتھ رابطے کی روشنی میں دیکھا جائے‘ تو کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ترجیحات کا صحیح تعین کیا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved