وزیراعظم‘ وزراء غائب‘ عوام کو سر عام لوٹا جا رہا ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم‘ وزراء غائب‘ عوام کو سر عام لوٹا جا رہا ہے‘‘ جبکہ ہم نے ایسا نہیں کیا‘ بلکہ ہم چھُپ چھُپا کر عوام کو لوٹتے تھے اور موقعے پر موجود بھی ہوتے تھے ‘کیونکہ کِک بیکس اور کمیشن کیلئے موجود رہنا پڑتا تھا‘ تاکہ یہ کام زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور اب حکومت کو مصیبت پڑی ہوئی ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی نیا حساب کھُل جاتا ہے اور یہ سب کچھ ہمیں واپسی سے محروم رکھنے کی ایک سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں‘ اب آپ ہی بتائیے ایسے حالات میں واپس کیسے آیا جا سکتا ہے‘ ورنہ ہم تو آنے کیلئے ہر روز سامان باندھتے ہیں اور شام کو مایوس ہو کر پھر کھول لیتے ہیں۔ اور‘ اب تو کھولتے بھی نہیں کہ پھر جو باندھنا پڑے گا تو اسے بندھا بندھایا ہی پڑا رہنے دیتے ہیں‘تاہم اب سوچا ہے کہ اسے کھلا ہی رہنے دیں ‘کیونکہ واپسی دن بدن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام تیار ہو جائیں‘ دوبارہ مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عوام تیار ہو جائیں‘ دوبارہ مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں‘‘ اور اگر مارچ نہیں کر سکتے تو مارچ کا اعلان کرنے کا امکان تو ظاہر کر سکتے ہیں‘ جس کیلئے بڑی جماعتوں سے چندے کیلئے رابطہ کیا جا رہا ہے ‘جو بات سُن کر ہی بے اختیار ہنس پڑتی ہیں اور پچھلے پیسوں کا حساب مانگنے لگتی ہیں؛ حالانکہ انہوں نے جو بے حساب پیسہ کمایا ہے‘ اس کا ان کے پاس کوئی حساب نہیں ہے‘ جبکہ روپیہ پیسہ ہاتھ کا میل ہے اور ان کے ہاتھ اتنے میلے ہیں کہ ہاتھوں کی بجائے صرف میل ہی دکھائی دیتا ہے‘ کیا زمانہ تھا کہ جب خاکسار کے ہاتھ بھی کافی میلے ہوا کرتے تھے‘ جو کافی عرصے اس بالکل صاف شفاف ہو گئے ہیں‘ انہیں مٹی سے میلا کرنے کی کوشش کرتا ہوں؛ ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
آپ اگلے روز پشاور میںکارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب میں آٹے کا بحران نہیں‘ اتحادیوں
کو جلد راضی کر لیں گے: فیاض چوہان
وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''پنجاب میں آٹے کا بحران نہیں‘ اتحادیوں کو جلد راضی کر لیں گے‘‘ کیونکہ آٹا‘ اگر مہنگا ملتا ہے تو یہ کوئی بحران نہیں‘ کیونکہ بحران تو تب ہوتا ہے‘ اگر آٹا دستیاب ہی نہ ہو‘ جبکہ آٹا ہر جگہ وافر دستیاب ہے اور اسے کوئی نہیں پوچھتا اور جہاں تک اتحادیوں کا سوال ہے تو یہ اپنی عادت کے مطابق‘ آئے روز شکایتی ٹٹّو بنے رہتے ہیں اور تھوڑی ٹخ ٹخ کرنے کے بعد مان بھی جاتے ہیں اور لارا لپّا لگائے جانے کے بعد راضی ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ اب ان کے لیے وعدوں کی ایک نئی فہرست تیار کر لی گئی ہے‘ جسے دیکھ کر یہ حسبِ معمول باغ باغ ہو جائیں گے‘ جبکہ یہ ہمیں جانتے ہیں اور ہم انہیں اچھی طرح جان گئے ہیں اور میعاد پوری کرنے تک ایک دوسرے کو مزید جاننے کی بھی کوشش کرتے رہیں گے ۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے۔
آٹے کی قیمت میں اضافے کی اجازت نہیں دیں گے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''آٹے کی قیمت میں اضافے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ اور جو لوگ آٹا مہنگا فروخت کررہے ہیں ‘وہ ہماری اجازت کے بغیر کر رہے ہیں‘ اس لیے ان سے اللہ ہی نبٹے گا ‘کیونکہ ہم اللہ میاں کے کاموں میں مداخلت کرنے والے کون ہوتے ہیں ‘بلکہ ہم تو چوروں ‘ ڈاکوئوں کے کام میں بھی مداخلت نہیں کرتے ‘جو دن رات رونق لگائے رکھتے ہیں؛ حتیٰ کہ پولیس بھی ہماری طرح کافی وفادار واقع ہوئی ہے اور وہ بھی ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے اور اگر کرنا بھی چاہیں تو ہمارے ارکانِ اسمبلی آہنی دیوار کی طرح اُن کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں ‘کیونکہ انہوں نے اپنی پسند کے افسر اور ایس ایچ اوز لگوا رکھے ہیں اور دونوں نہایت خوش اسلوبی سے چل رہا ہے اور ساتھ ساتھ ہمارا کام بھی اُسی خوش اسلوبی سے چل رہا ہے‘ جس پر عوام کو خوش ہونا چاہیے کہ ایسے فرض شناس پولیس افسر اور ارکان اسمبلی اور وزراء ان کی حفاظت پر مامور ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
جب مکاں بھی نہیں لامکاں بھی نہیں
جانِ جاں بھی نہیں‘ شہرِ جاں بھی نہیں
اک صدا دیجیے‘ بس دُعا دیجیے
میں رُکا بھی نہیں‘ میں رواں بھی نہیں
غم کے مارے ہوئے بیٹھ جائیں جہاں
کوئی مسجد نہیں‘ آستاں بھی نہیں
دُکھ سے بھر جائیں گے‘ ہم کدھر جائیں گے
جب زمیں بھی نہیں‘ آسماں بھی نہیں (اسد عباس خان)
تجھے تو خیر کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
مگر جو حال ترے مبتلا کا ہوتا ہے
میں بات کرتا چلا جاتا ہوں محبت پر
کہ اپنی سلطنت‘ اپنا علاقہ ہوتا ہے (جواد شیخ)
جسے درکار نہیں ہم سا نرالا پاگل
کیسے کہہ کر نہ بُلائوں اُسے سالا پاگل (فوزیہ شیخ)
طویل ہجر کی یکبارگی تلافی ہیں
تمہارے صبر گزاروں کو خواب کافی ہیں (آزاد حسین آزادؔ)
یہی کہانی تھی بس اپنی بادشاہی کی
فقیر ایک اُٹھا‘ ایک در پہ بیٹھ گیا
رُخ مرا اب ہے شہر کی جانب
میری وحشت میں کچھ کمی ہوئی ہے (یاسمین سحرؔ)
آج کا مطلع
قافیے کی بند گلیوں کا گداگر کر دیا
اس نے کیسے کام پر مجھ کو مقرر کر دیا