زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول ہر انسان کا فرض ہو نہ ہو‘ بنیادی حق ضرور ہے۔ معیاری زندگی وہ ہے‘ جس میں انسان نمایاں طور پر طاقتور ہو۔ طاقتور ہونے کا تصور ہر انسان کے نزدیک الگ ہے۔ کچھ کے خیال میں زیادہ دولت کا حصول طاقت کی علامت ہے۔ بہت سوں کے نزدیک جسمانی طاقت ہی اصل طاقت ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں ‘جو علم و فن کے حوالے سے حاصل کی جانے والی مہارت کو طاقت قرار دیتے ہیں۔ طاقت کی کوئی ایسی تعریف متعین کرنا انتہائی دشوار ہے‘ جو ہر انسان کے خیالات‘ احساسات اور توقعات کی ترجمانی کرتی ہو۔
طاقت کا حصول ممکن بناکر زندگی کا معیار بلند کرنا ہر دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ طاقت وہ بنیادی قدر ہے‘ جس نے ہر دور میں معاشروں کو واضح رخ تعین کرنے میں مدد دی ہے۔ مختلف حوالوں سے یقینی بنائی جانے والی طاقت ہی کسی بھی معاشرے کو نمایاں کرنے اور دیگر معاشروں اور خطوں پر اثر انداز ہونے کے قابل بنانے کا ذریعہ بنتی ہے‘ جن معاشروں نے غیر معمولی ترقی کے ذریعے طاقت پاکر تہذیب کی شکل اختیار کی ہے‘ اُن کے معاملات کا جائزہ لینے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مختلف شعبوں میں یقین بنائی جانے والی پیش رفت ہی کچھ ایسا کرنے کی تحریک دیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کی تعداد بڑھے۔ یونان کے لوگ معاشی قوت پر علمی قوت کو فوقیت دیتے تھے۔ اُن کے ہاں اہلِ علم کی قدر تھی۔ مختلف علوم و فنون میں غیر معمولی صلاحیت‘ سکت اور مہارت رکھنے والوں کو معاشرے میں نمایاں مقام دیا جاتا تھا۔ جدید دنیا کو علم و فن کے حوالے سے بنیادی تصورات کے علاوہ سوچنے کی حقیقی تحریک بھی یونان ہی سے ملی۔ یونان کے طول و عرض میں ہر اُس انسان کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ‘جو فہم و ادراک کا حامل تھا۔ نئے تصورات اور نظریات دینے والوں کی قدر افزائی غیر معمولی انداز کی ہوتی تھی۔ مختلف علوم و فنون کے ماہرین نے شاگردوں کی شکل میں ایسی ٹیمیں تیار کیں جن کے ذریعے جدید تصورات کو پنپنے کا موقع ملا۔
یونان میں علم و فن کی قدر تھی تو روم میں عسکری طاقت اور شان و شوکت کی۔ یونان کے اہلِ علم نے سادگی اپنانے کا درس دیا۔ اُن کے نزدیک زندگی کا بنیادی مقصد شان و شوکت کا حصول نہیں ‘بلکہ کسی کو تکلیف دیئے بغیر اس طور جینا ہے کہ لوگ علوم و فنون اور قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں۔ روم کے شہنشاہوں نے جب مختلف خطوں پر حملے شروع کیے تو فتوحات کے نتیجے میں زر و جواہر کے ڈھیر ہاتھ لگے۔ اس کے نتیجے میں روم کے شاہی خاندان کے ساتھ اُس سے جڑے ہوئے لوگ بھی عیش و عشرت کے عادی ہوتے چلے گئے۔ جب عیش و عشرت کے دائرے نے وسعت اختیار کی تو اخلاقی زوال شروع ہوا۔ رومن سلطنت جتنی تیزی سے ابھری تھی ‘اُتنی تیزی سے زوال پذیر بھی ہوئی۔ تیز رفتار زوال اس لیے ممکن ہوا کہ شان و شوکت کو صرف طاقت کے ذریعے برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اہلِ علم و فن کو اہمیت دینے کا کلچر پیدا ہی نہ ہوسکا۔ مارکس اوریلیس کی شکل میں روم کو مفکر شہنشاہ بھی میسر ہوا ‘تاہم اُس کی شخصیت سے متاثر ہونے والوں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ جو کچھ مارکس اوریلیس نے سوچا ‘وہ آج بھی دنیا کے سامنے ہے ‘مگر تب اُس کے خیالات سے مستفید ہونے والوں کی تعداد زیادہ نہ تھی۔ مارکس اوریلیس نے علوم و فنون کو فروغ دینے کے لیے اہلِ فکر کو پروان چڑھانے کی اپنی سی کوشش کی ‘تاہم زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔
طاقت کا گراف بلند کرتے رہنا ہر اُس معاشرے کا بنیادی دردِ سر ہوتا ہے ‘جس نے طے کرلیا ہو کہ دوسروں سے کچھ ہٹ کر کرنا ہے اور دوسروں کو متاثر بھی کرنا ہے۔ علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت‘ بھرپور معاشی سرگرمیاں اور عسکری قوت میں اضافے کا عمل ... یہ سب مل کر کسی بھی معاشرے کو دوسروں کے لیے قابلِ رشک اور قابلِ تقلید بناتے ہیں۔
طاقت کے حصول کی راہ گامزن معاشرے ایک طرف بہت کچھ پاتے ہیں تو دوسری طرف بہت کچھ کھوتے بھی ہیں۔ بڑھتی ہوئی طاقت اگر خوش حالی کا گراف بلند کرتی ہے تو اخلاقی گراوٹ میں اضافہ بھی یقینی بناتی ہے۔ تیزی سے پنپتی ہوئی ہر سلطنت کا یہی معاملہ رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اسلامی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے پر حکومت کی۔ جب تک تہذیب کو اولیت دی جاتی رہی تب تک معاملات درست رہے۔ جب صرف طاقت کے استعمال اُس کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ زر و جواہر ہتھیانے کو ترجیح دی جانے لگی‘ تب معاملات ہاتھ سے جاتے رہے۔ اسلامی دنیا نے اپنے دورِ اول میں کئی خطوں کو محض فتح نہیں کیا ‘بلکہ علوم و فنون کے فروغ و توسیع پر بھی زور دیا۔ اُس دور میں مسلم اہلِ کمال نے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ تب تک ہر حال میں جلبِ منفعت اہلِ ایمان کا مطلوب و مقصود نہیں ہوا کرتا تھا‘ پھر جب طاقت کے حصول کا مقصد صرف زر و جواہر اور عسکری برتری کا حصول رہ گیا ‘تب اہلِ اسلام کی عالمگیر حکمرانی کمزور پڑنے لگی اور ڈھائی تین صدیوں کے عمل میں وہ اپنا سب کچھ کھو بیٹھے۔
ہر تہذیب اِسی طور انحطاط اور زوال سے آشنا ہوتی ہے۔ جب زندگی بسر کرنے کا مقصد صرف پُرتعیش اندازِ زندگی کو یقینی بنانا رہ جائے‘ تب دیگر تمام اقدار ایک طرف رہ جاتی ہیں اور طاقت کا حصول یقینی بنانے کے لیے حرام و حلال اور جائز و ناجائز کا فرق بھول کر اندھا دھند سرگرمیوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ طاقتور ہونا ہی بنیادی مقصد ٹھہرتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ میں اپنے دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ اور حقیقی طاقتور اُنہیں مانتا ہوں ‘جو اپنی خواہشات پر قابو پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ معاملات انفرادی ہوں یا اجتماعی‘ بگڑتے اُسی وقت ہیں‘ جب لوگ کسی جواز اور ضرورت کے بغیر خود کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی خواہش کی تکمیل کے لیے تگ و دَو کرتے ہیں اور دوسروں کو کمزور بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دنیا نے یہ تماشا بارہا دیکھا ہے۔ جنہیں ذرا سی طاقت مل جاتی ہے‘ وہ اُسے برقرار رکھنے کے معاملے میں حق و ناحق‘ حلال و حرام کا فرق یوں بھول جاتے ہیں ‘ گویا یہ فرق پایا ہی نہ جاتا ہو۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی ہی نہیں‘ معاشی‘ عسکری اور فکری بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ رو بہ زوال ہونے لگتا ہے۔
ہر دور کے اہلِ دانش نے انسان کی اصلاح کے حوالے سے جن بنیادی اصولوں کی فہرست مرتب کی ہے‘ اُس میں یہ نکتہ بھی ضرور شامل کیا ہے کہ جو اپنی خواہشات کا غلام ہوکر نہ رہ جائے‘ وہی حقیقی مفہوم میں طاقتور ہے۔ چشمِ فلک نے یہ تماشا بارہا دیکھا ہے کہ لوگ طاقت کے حصول کی دوڑ میں اِتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ پھر طاقت کے حصول کی خواہش اُن کے اعصاب اور نفسی ساخت پر سوار ہو جاتی ہے اور وہ مرتے دم تک اس عذاب سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔
نبیٔ اکرمؐ کا فرمان ہے کہ '' پہلوان وہ نہیں ‘جو کسی طاقتور کو پچھاڑ دے‘ بلکہ حقیقی پہلوان تو وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو پانے میں کامیاب ہو‘‘جو خواہشات کا غلام ہوکر رہ جائے‘ وہ اگر اکھاڑے میں کسی بڑے پہلوان کو پچھاڑ بھی دے تو اِس سے اُس کی زندگی میں کون سی بہتری پیدا ہو جانی ہے۔ مزا تو جب ہے کہ انسان بے جا اور غیر منطقی خواہشات کی غلامی اختیار کرنے سے بچے‘یہ کامیابی ہی اُسے حقیقی طاقت سے آشنا کرسکتی ہے!