تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     21-01-2020

وسیم اکرم پلس یا مائنس

تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے کیسے فارغ کیاجائے؟عثمان بزدار کو گھر کیسے بھیجا جائے؟اِن ہاؤس تبدیلی یا نئے انتخابات؟وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شہباز شریف‘شاہد خاقان عباسی ‘ خواجہ آصف‘ شاہ محمود قریشی ‘محمد میاں سومرو یا پھر کسی چھوٹے صوبے سے کوئی بے ضرر سا وزیراعظم؟پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے چوہدری پرویز الٰہی ہاٹ فیورٹ ‘ پوراملک انہی افواہوں کی لپیٹ میں ہے۔جونہی کوئی سیاسی تحرک پیدا ہوتاہے یا غیرسیاسی تجارتی منڈیوں میں اتار چڑھاؤ ہو‘ اتحادی ناراض ہوں یا اپنے ہی وزرا ناخوش‘سب کا نتیجہ ایک ہی نکالا جاتا ہے کہ حکومت کے جانے کا وقت آچکا ہے اور آج گئی یا کل‘لیکن پھر کہیں سے کوئی آکسیجن ملتی ہے اورکچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں ‘کچھ باتیں مان لی جاتی ہیں‘ کچھ کا وعدہ کیا جاتا ہے اور کچھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فی الحال ان کو رہنے دیں‘ ان کو میں ہینڈل کر لوں گا اور معاملات کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہوتا ہے۔
سروسز ایکٹ میں ترامیم کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان قدرے بہتر ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوگئی تھی اور متعدد امور پر قانون سازی کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر مثبت پیش رفت جاری ہے۔اتحادی جماعتوں کے ناز نخرے تو فطری ردعمل ہے‘ اپوزیشن کا حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی اس کا اصل ہدف تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ کے وزرا وزیرعظم کی حکومت کو اوروزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کابینہ کے وزرا انہیں چارج شیٹ کرنا شروع کردیں تو کوئی بھی ذی شعور شخص یہ اندازہ باآسانی لگا سکتا ہے کہ اس بغاوت اور سرکشی کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں‘ پہلی یہ کہ ان باغیوں کو وزیراعظم سے بھی طاقتوروں کی پشت پناہی حاصل ہے ‘دوسری وجہ یہ کہ سیاسی وانتظامی بدنظمی انتہا درجے کو پہنچ چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کی اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی وزرا اور ارکان پر گرفت کمزور پڑ چکی ہے۔دونوں ہی صورتوں پر اگر قابو نہ پایا گیا تو نقصان وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ہی ہوگا۔
فیصل واوڈا کے اپوزیشن کو بوٹ چاٹنے کے طعنے نے صورتحال کو کافی بگاڑ دیا تھا۔فواد چوہدری جو وزیراعظم عمران خان کے بہت قریب ہیں اور کابینہ کے اہم رکن ہیں‘ لیکن انہوں نے وزیراعظم سے براہ راست بات کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف ایک خط لکھا اور پھر وہ خط سوشل میڈیا پر بھی یکایک پھیل گیا‘ جو حکومت کیلئے کافی سبکی کا باعث بنااور پھر پنجاب کے صوبائی وزرا وفاقی وزیر کے خلاف پریس کانفرنسز کرتے ہوئے نظر آئے۔گویا اب پی ٹی آئی کو باہر سے اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہی‘ یہ کردار بھی پی ٹی آئی کے وزرا اور ارکان نے اپنے ذمے لے لیا ہے۔فواد چوہدری کے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں ایک تیر سے دو شکار ہدف معلوم ہوتے ہیں؛پہلا عثمان بزدار اور دوسرا ‘جو زیادہ خطرناک لگتا ہے کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو یہ کہنا کہ امورِ مملکت آئین اور قانون کے مطابق نہیں چلائے جارہے ‘انتہائی خطرناک اور باریک سیاسی واردات ہے۔
ماضی بعید میں جھانکیں تو صدر غلام اسحاق خان کی نوازشریف سے ان بن شروع ہوئی تو حکومت کے چل چلاؤ کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔تب نوازشریف کابینہ کے رکن وزیرمملکت حامد ناصر چٹھہ نے ایک روز استعفیٰ دے دیا اور صدر غلام اسحاق خان کو ایک خط بھی لکھ دیا۔جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز حکومت برطرف کی تو حامد ناصر چٹھہ کے اس خط کو صدر نے نوازشریف کے خلاف ایک ریفرنس کے طور پر استعمال کیا تھا‘پھر جب سپریم کورٹ میں صدر غلام اسحاق خان کے اقدام کو چیلنج کیاگیا تواٹارنی جنرل نے صدر کے اقدام کے حق میں اسی نوعیت کے خطوط‘مختلف انٹرویوز‘ تجزیے اوراخبارات کی خبریں سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدام کو بھی جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس میں جو دلائل دیے گئے تھے‘ ان میں ملکی معیشت کی بدتر صورتحال کو خاص طور پر نوازشریف حکومت کے خلاف دلیل کے طور پر استعمال کیاگیا تھااور شائع شدہ بہت سی خبریں ‘کالم‘ تجزیے عدالت میں پیش کیے گئے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ آج جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے‘ اسے تحریری طور پر ریکارڈ پر لایا جارہا ہے‘ تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آوے۔
آٹے کے حالیہ بحران سے بھی ایک واقعہ ذہن میں آگیا کہ2007ء میں مسلم لیگ (ق )کی حکومت پانچ سال پورے کرکے عام انتخابات کی طرف جارہی تھی‘ اس دوران پرویز مشرف سے این آر او کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف وطن واپس آچکے تھے۔ صدر پرویز مشرف کو سو فیصد یقین تھا کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) ہی کامیاب ہوگی اور اگلی حکومت بھی ان کی ہوگی۔ وہ اس بارے میں بہت زیادہ پُراعتماد تھے‘ انہیں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے کوئی خوف نہیں تھا۔ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن صدر پرویز مشرف کا ہفتہ وار پروگرام ایوان صدر میں ریکارڈ کرتا تھا‘ جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق لوگوں کو بلایا جاتا تھا‘ جو براہِ راست صدر مشرف سے سوالات پوچھتے تھے۔کافی کھلا ڈُلا ماحول ہوتا تھا۔پروگرام کے میزبان برادر کامران شاہد ہوتے تھے۔27 دسمبر 2007ء کو بھی ایوان صدر میں پروگرام کی ریکارڈنگ تھی‘ صحافیوں میں سے مْجھے اور محترم حافظ طاہر خلیل کو مدعو کیاگیا تھا۔پروگرام کی ریکارڈنگ سے پہلے صدر مشرف سے چائے کی میز پر بڑی بے تکلفانہ گپ شپ ہوئی۔ریکارڈنگ کے دوران سوالوں کے جواب میں صدر مشرف نے محترمہ بینظیر بھٹو کے پری پول رگنگ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ شوکت عزیز اور پرویز الٰہی نے پانچ سالوں میںبے پناہ ترقیاتی کام کئے ہیں‘ جس کی بنیاد پر وہ الیکشن جیتیں گے‘ تمام سروے ان کے حق میں آرہے ہیں اوربے نظیر کو اپنی شکست نظر آرہی ہے اس لیے وہ' کرائنگ بے بی‘ بنی ہوئی ہیں اورچیخ چلا رہی ہیں۔ہم ایوان صدرسے نکلے تو ٹی وی چینلز پر نوازشریف کی گاڑی پر فائرنگ کی خبریں نشر ہورہی تھیں ‘تاہم نواز شریف خوش قسمتی سے محفوظ رہے اور پھر اسی شام محترمہ بے نظیر کو قتل کردیا گیا اور انتخابات ملتوی ہوگئے‘تاہم جب دوبارہ الیکشن کا شیڈول آیا تو تو پاور پلیئر زتبدیل ہوچکے تھے۔صدر پرویز مشرف کی گرفت کمزور پڑچکی تھی اور ڈرائیونگ سیٹ پر جنرل اشفاق پرویز کیانی آچکے تھے‘ جنہوں نے پی پی پی پر دستِ شفقت رکھا اور عین انتخابات سے چند روز پہلے پنجاب میں آٹے کا سنگین بحران پیدا ہو گیا۔ مارکیٹ سے آٹا غائب کردیا گیا اور قیمتیں بھی بڑھا دی گئیں‘ جس کا مسلم لیگ( ن) نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور( ق) لیگ الیکشن ہار گئی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب مسئلہ سیدھی انگلی سے حل نہ ہورہا ہو تو پھر ٹیڑھی انگلی کا استعمال کیا جاتا ہے۔باقی رہا پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کا وزیراعلیٰ بننے کے امکانات کا معاملہ تو یہ واقعہ پہلے بھی پنجاب میں وقوع پذیر ہوچکا ہے۔وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں اورسپیکر میاں منظوراحمد وٹو تھے۔بغاوت ہوئی اور چند ووٹوں کے حامل میاں منظور وٹو پی پی پی کے اکثریتی ووٹوں سے وزیراعلیٰ بن گئے‘ پھر منظور وٹو فارغ ہوئے تو سردار عارف نکئی وزیراعلیٰ بنے‘ جس کے بعد شریف فیملی نے پنجاب کسی اور کے حوالے نہیں کیا۔موجودہ نمبرز گیم بھی وہی ہے‘ سپیکر میاں منظور وٹو اورسپیکر چوہدری پرویز الٰہی میں نمبر گیمز کے ساتھ ساتھ کافی مماثلت پائی جاتی ہے اور خاص طور پر جب پی ٹی آئی کے ناراض ارکان پنجاب اسمبلی بھی اپنے الگ اجلاس شروع کردیں۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے شاید ٹیڑھی انگلی کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دیکھتے ہیں کپتان وسیم اکرم کو مائنس ہونے سے بچا پائیں گے یا نہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved