تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-01-2020

سُرخیاں‘ متن‘ درستی اور شکیلہ جبیںؔ کی شاعری

حالات ٹھیک کرنے کیلئے معجزہ چاہیے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حالات ٹھیک کرنے کیلئے معجزہ چاہیے ‘‘اور یہ معجزہ ہم ہی دکھا سکتے ہیں ‘کیونکہ ہم لندن پہنچ کر اس قدر برگزیدہ ہو چکے ہیں کہ یہ اب ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ؛البتہ ہمارا دایاں ہاتھ عوام کی خدمت کرتے کرتے شل ہو چکا ہے‘ کیونکہ خدمت ہی اس مقدار میں کی گئی کہ ہاتھ کا شل ہونا تو ایک معمولی بات تھی۔ بھائی صاحب تو پہلے ہی ایک پہنچے ہوئے بزرگ تھے‘ یہاں آ کر اُن کی روحانیت کو جیسے چار چاند لگ گئے ہیں‘ اس لیے پاکستان میں قائم ہمارے خلاف تمام مقدمات اور سزائیں ختم کی جائیں اور جو ہماری جائیدادیں ضبط کی جا چکی‘ اُنہیں بحال کیا جائے ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
گندم اور آٹے کا بحران حکومت کی بدترین ناکامی ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''گندم اور آٹے کا بحران حکومت کی بدترین ناکامی ہے‘‘ تاہم یہ میری ناکامی کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘ کیونکہ میری ناکامی عبرت انگیز بھی ہے اور اسے مزید عبرت ناک بنانے کیلئے میں مارچ کو دوبارہ شروع 
کرنے والا ہوں‘ کیونکہ عبرت مجھے خوراک کی مقدار کے مطابق ہی درکار ہوتی ہے ‘لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ خوراک کی بجائے مجھے عبرت پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا‘ جبکہ پیٹ بھر کر کھانا تو اب خواب ہو کر ہی رہ گیا ہے؛ حالانکہ ڈراؤنے خواب اور بھی بہت آیا کرتے ہیں کہ مارچ میں ناکامی کی صورت میں یہ جو بے توقیری ہوئی ہے‘ آئندہ الیکشن میں مجھے ووٹ کون دے گا؟ آپ اگلے روز پارٹی رہنماؤں مولانا امجد حسین‘ حافظ حسین احمد اور محمد اسلم غوری سے گفتگو کر رہے تھے۔
اِن ہاؤس تبدیلی پکی بات‘ تین ماہ میں الیکشن ہوں گے: اکرم دُرانی
جمعیت علمائے اسلام( ف) کے مرکزی رہنما اور رہبر کمیٹی کے چیئرمین محمد اکرم خاں دُرانی نے کہا ہے کہ ''اِن ہاؤس تبدیلی پکی بات‘ تین ماہ میں الیکشن ہوں گے‘‘ اور یہ بات ہمیں اپنے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے بتائی ہے ‘جو مارچ اور دھرنے میں ناکام ہونے کے بعد اب پیش گوئیاں بھی کرنے لگے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسے مستقل کاروبار کے طور پر بھی اپنا لیں‘ کیونکہ مارچ اور دھرنوں کی فضول کاموں کے بعد وہ سیاست سے تو ویسے ہی آؤٹ ہو چکے ہیں ‘بلکہ اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبے ہیں۔آپ اگلے روز چارسدہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درستی
جناب اعجاز احمد بُٹر نے اپنے کالم میں ایک شعر درج کیا ہے: ؎
وہی جہاں ہے ترا جسے تو کرے پیدا
یہ سنگ و حشت نہیں جو تری نگاہ میں ہیں
پہلا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے‘ کیونکہ اس میں لفظ ''جسے‘‘ کی بجائے ''جس کو‘‘ ہے ‘جبکہ دوسرے مصرعے کے آخر میں لفظ ہیں کی بجائے ''ہے‘‘ ہے۔
آخر میں شکیلہ جبیںؔ کے مجموعہ ''طوطا پنج رنگیا‘‘ سی حرفی کا ٹکڑا:
اکھ اپنی چوفیرے توں پھیر نی سیّو
اج اپنا توں اج ہی نبیڑ نی سیّو
متاں کل پے جوؤ تینوں گھیر نی سیّو
کوئی لَے جوؤ گا تینوں سہیڑ نی سیّو
پچھے لگے رہ جان نہ ڈھیر نی سیّو
لاڑے لیا جے تینوں چھیڑ نی سیّو
نئیں چُکیا جانا تیتھوں سیر نی سیّو
جے پَے گئیا کدھرے انھیر نی سیّو
رب کر دیوے تیرے اُتے مہر نی سیّو
پئی آکھیں گی ہو گئی دیر نی سیّو
اِکناں پَونی اَدّھی چَپہ اِکناں پُوری بیٹھ کھلاویں
گھڑولی بھریا آٹا پیڑے وَکھو وَکھ بناویں
اِکناں لَپیں ٹِنڈ بھراویں اِکناں کوٹھا پھاڑ ودھاویں
کدھرے مونہہ وچ دھریا ڈیگیں کدھرے پیڑے چھنڈ پکاویں
اِکناں مناں مونہیں گھلاویں اِکناں ڈنگو ڈنگ ٹپاویں
اوتھے رَج پاٹدے ویکھیں ایتھے بھکھ تروپے لاویں
اِکناں مار چھڑپی آویں اِکناں کوہواں پیا دوڑاویں
ایدھر ہک سنگھڑوی جاوے اودھر جپھی نوں ترساویں
اِکناں دِیدے آپ جگا ویں اِکناں اَنّھا کر نچاویں
ہندے ٹھیڈے کھا کے موندھڑے دوجے دھکا مار مکاویں
اِکناں رتی اُتے روَلا اِکناں سیراں دے ہساویں
ماڑے روندے نال حساب تگڑیاں بے حسابا جاویں
اَوَڑھ مار گئی اوڑک والی کتھوں جند لیاواں
بالپن چہ ہوئی وڈیری کیہ جوان کہاواں
وارو واری ٹردے جاندے میرا کِنواں ناواں
اَوڑک لبھدی مِٹی ہو گئی مِٹی وچ سماواں
لٹھا پُھل لئیا کے میں پئی چٹے لال سجاواں
جنج ٹور کے کلم کلّی ویہڑے پھیریاں پاواں
پھیریاں دے وچ ٹپے ماہیے بن گئے میریاں ہاواں
جنج پرت کے سکھنی آ گئی لاڑا کنج بلاواں
جان وڈیری دسو نی میں کیہڑی بولی پاواں
ٹُر گئے جیہڑے مُڑ نئیں آؤندے دَیئے لکھ صداواں
ہلدی‘ کنبھدی تھاواں لبھاں کتھے سِر ٹکاواں
لاڑا مینوں لَین آ گیا مینوں چڑھیاں چاواں
آج کا مقطع
ہوں اپنی گانٹھ کا پورا ہر اک طرف سے‘ ظفرؔ
یہ سب کا سب مرا دیوانہ پن تماشہ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved