جب ہمارے آقا ومولا‘ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے صنم کدہ میں کلمۂ توحید بلند کیا تو بت پرستوں نے آپؐ پر زمین تنگ کردی۔ اس کے باوجود سلیم الفطرت روحیں حلقہ بگوش اسلام ہوتی چلی گئیں۔ ان اہلِ حق پر ظالموں نے بری طرح ستم کے پہاڑ توڑے۔ یہ ظلم وستم حد سے بڑھ گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صورتِ حال کے بارے میں کافی سوچ بچار کی۔ آپؐ اپنے صحابہ کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے۔ شروع میں آپؐ کے چچا ابوطالب‘ آپ کے ساتھ ان سب کے لیے بھی ڈھال تھے‘ مگر جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی‘ دشمن کے مظالم بھی اسی حساب سے روز افزوں تھے۔ آخر صورت ِحال یہاں تک پہنچی کہ ابوطالب بھی بے بس نظر آنے لگے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو رہنمائی دی کہ کرۂ ارض پر ایک ملک ایسا ہے ‘جہاں اہلِ حق کو جائے پناہ مل سکتی ہے۔
اللہ کی ہدایت کی روشنی میں آپؐ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: لو خرجتم الی ارض الحبشۃ؟ فان بہا ملکا لا یظلم عندہ احد‘ وہی ارض صدق حتی یجعل اللہ لکم فرجا مما انتم فیہ۔ یعنی کیا یہ اچھا نہ ہو کہ تم حبشہ کی طرف ہجرت کرجاؤ؟ بلاشبہ وہاں پر ایک ایسا عادل بادشاہ حکمرانی کر رہا ہے‘ جس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ڈھایا جاتا اور یہ صدق وسچائی کی سرزمین ہے۔ تم وہاں اس وقت تک رہو‘ جب تک اللہ تعالیٰ یہاں کے مشکل حالات کو آسانی میں تبدیل نہ کردے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۴۹۶)
اپنا گھر بار چھوڑکر پردیس کے لیے نکل کھڑے ہونا بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے ‘لیکن اہلِ حق نے ہر دور میں اللہ کے دین کی خاطر ہر قربانی دی ہے۔ جب دل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت جڑ پکڑ لے تو ہر قربانی دینا آسان ہوجاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کی شان یہ تھی کہ وہ اللہ کے ہاتھ اپنی جانیں اور اپنا مال بیچ چکے تھے۔ انہوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی‘ وہ مکمل اور غیرمشروط اطاعت پر مبنی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سن کر صحابہ کرام میں سے گیارہ مرد اور پانچ عورتیں‘ کل سولہ اہلِ ایمان اس نادیدہ سفر کے لیے تیار ہوگئے۔ ان میں سب سے پہلے اپنے گھر سے نکلنے والے سیدنا عثمان بن عفانؓ اور ان کی اہلیہ سیدہ رقیہ بنت محمدؐ تھے۔ دونوں میاں بیوی انتہائی خوب صورت تھے۔ ان کے نکاح کے وقت قریش کی خواتین نے جو گانے گائے‘ ان میں سے ایک شعر یوں نقل کیا گیا ہے:
احسن شیء قد یری انسان
رقیۃ و بعدہا عثمان
یعنی خوب صورت ترین مخلوق جو کسی انسان نے دیکھی ہے‘ وہ رقیہؓ ہے اور اس کے بعد عثمانؓ ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱ ص۴۵۷)
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی ایک عورت نے ایک خبر دی‘ جس کے مطابق اس نے حضرت عثمانؓ اور رقیہؓ کو ساحل سمندر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے کہا: یا محمد!قد رأیت ختنک ومعہ امرأتہ۔یعنی اے محمدؐ! میں نے آپ کے داماد کو اپنی بیوی [آپؐ کی صاحبزادی] کے ساتھ سفر پر جاتے ہوئے دیکھا۔ آپؐ نے پوچھا: علٰی اَیِّ حَالٍ رَأَیْتِہِمَا۔ یعنی تو نے ان دونوں کو کس حال میں دیکھا؟ تو اس نے جواب دیا: رَأَیْتُہٗ قَدْ حَمَلَ اِمْرَأَتَہٗ عَلٰی حِمَارٍ مِنْ ہٰذِہِ الدِّبَابَۃِ‘ وَہُوَ یَسُوْقُہَا۔ یعنی میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی بیوی کو چھوٹے قد کے گدھے پر سوار کررکھا تھا اور خود اس کے آگے آگے چل رہا تھا۔ اس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صَحَّبَہُمَا اللّٰہُ‘ اِنَّ عُثْمَانَ اَوَّلَ مَنْ ہَاجَرَ بِاَہْلِہٖ بَعْدَ لُوْطٍ عَلَیْہِ السَّلَامَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت (وسرپرستی) ان دونوں کو حاصل رہے۔ بلاشبہ عثمان بن عفانؓ پہلے شخص ہیں ‘جنہوں نے حضرت لوطؑ کے بعد اللہ کے راستے میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۴۹۶‘ بحوالہ سنن البیہقی‘ عن انس ابن مالکؓ)
حضرت لوطؑ کا تذکرہ ابن کثیر نے بھی کیا ہے‘ لیکن درست بات یہ ہے کہ اللہ کے راستے میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ ہیں۔ جب عراق سے نکلے تو اپنی بیوی سارہؓ کے علاوہ اپنے صاحب ایمان بھتیجے لوطؑ کو اپنے ساتھ لے کر ارضِ فلسطین کی طرف ہجرت کی۔ حضرت لوطؑ کی شادی بعد میں ہوئی۔ ان کی بیوی ان پر ایمان نہیں لائی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے انہیں اللہ کے دین کی دعوت پہنچانے کیلئے سدوم کے علاقے میں بھیجا۔ اس سفر میں حضرت لوطؑ کی بیوی بہرحال ان کے ساتھ تھی۔ ممکن ہے کہ حدیث میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابراہیم ؑکا نام اس لیے نہ لیا ہو کہ ایک تو ان کی ہجرت اہل مکہ کے نزدیک بھی مسلّم تھی۔ دوسرے حضرت ابراہیمؑ نے ایک ہجرت نہیں کی تھی‘ بلکہ پہلی ہجرت حضرت سارہ کے ساتھ فلسطین کی طرف کی اور دوسری ہجرت حضرت ہاجرہ کے ساتھ حجاز کی طرف ۔ بہرحال حضرت لوطؑ نے سدوم میں دعوت کا حق ادا کیا۔ وہاں جب اتمامِ حجت کے بعد اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو لوطؑ اور ان کی اہل ایمان بیٹیاں ودیگر اہلِ ایمان لوگ تو عذاب سے بچالیے گئے۔ باقی قوم کے ساتھ ان کی کافرہ بیوی بھی عذاب میں ہلاک کردی گئی۔ اس لیے ہمارے نزدیک درست بات یہ ہے کہ پہلا جوڑا جو اللہ کے راستے میں گھربار چھوڑ کر نکلا‘ ابراہیمؑ اور سارہ ہیں۔
سیدنا ابراہیمؑ کی ہجرت کا تذکرہ تو قرآن مجید میں یوں موجود ہے: اس وقت لوط نے اس کو مانا اور ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں وہ زبردست اور حکیم ہے۔ (العنکبوت۲۹:۲۶)۔ اسی طرح سورۂ الصّافات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ابراہیم نے کہا: میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہی میری رہنمائی کرے گا۔(الصّافات۳۷:۹۹) مورخ حلبی کے نزدیک یہی بات لوطؑ نے بھی کہی تھی‘ جب وہ اپنے چچا ابراہیم کی طرف ایمان لانے کے لیے چل پڑے تھے۔ علامہ حلبی کی پوری تحریر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لوطؑ اس وقت شادی شدہ تھے اور اپنی بیوی کے ساتھ ابراہیمؑ کے پاس آئے تھے‘ اگرچہ وہ مومنہ نہیں تھی‘ تاہم عذاب الٰہی آنے سے قبل اس نے ساری زندگی حضرت لوطؑ ہی کے ساتھ گزاری اور حضرت لوطؑ کی اس سے تین بیٹیاں بھی تھیں۔ وہ خاتون کافرہ تو تھی‘ مگر بدچلن اور بدکردار نہیں تھی‘ کیونکہ نبی کی بیوی کافرہ ومشرکہ ہوسکتی ہے‘ بدچلن نہیں۔ (السیرۃ الحلبیۃ‘ ج۱‘ ص۴۵۶-۴۵۷)
ہجرت حبشہ اولیٰ میں جانے والے صحابہ وصحابیات کے نام درج ذیل ہیں: ۱۔حضرت عثمان بن عفانؓ ۲۔حضرت رقیہؓ بنت محمد(زوجہ حضرت عثمانؓ)۳۔ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہؓ۴۔سہلہؓ بنت سہیل بن عمرو(زوجہ ابوحذیفہؓ)۵۔ابوسلمہ بن عبدالاسدؓ۶۔ام سلمہؓ بنت ابی امیہ(زوجہ ابوسلمہؓ)۷۔عامر بن ربیعہؓ۸۔لیلیٰ بنت ابی حثمہؓ(زوجہ عامر بن ربیعہؓ)۹۔ابوسبرہ بن ابی رُہمؓ[ابوحاطب]۱۰۔ام کلثوم بنت سہیل بن عمروؓ۱۱۔زبیربن العوامؓ۱۲۔مصعب بن عمیرؓ ۱۳۔عبدالرحمن بن عوفؓ۱۴۔ابن یقظہ بن مرہؓ۱۵۔سہیل بن بیضائؓ ۱۶۔ عثمان بن مظعون بن حبیبؓ(سیرۃ ابن ہشام‘ الاول‘ ص۳۲۲-۳۲۳‘البدایۃ والنہایۃ‘ ج۱‘ ص۴۹۶)
تاریخ کی کتابوں میں کچھ ناموں میں اختلاف بھی ہے‘ مثلاً طبقات ابن سعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو بھی پہلی ہجرت حبشہ میں مہاجرین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے‘ جبکہ ابن ہشام نے ان کا نام نہیں لکھا۔ مصعب بن عمیر‘ ابن ہشام کی فہرست میں شامل ہیں‘ جبکہ ابن سعد نے ان کا نام نہیں لکھا۔ ابن یقظہ بن مرہؓ کا نام بھی طبقات میں موجود نہیں ۔ یوں طبقات میں جو 16 نام دئیے گئے ہیں‘ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کے ساتھ حاطب بن عمرو بن عبدشمس کا نام شامل ہے‘ جبکہ ابن ہشام نے ابوسبرہ بن ابی رُہم ہی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کو ابوحاطب بھی کہا جاتا تھا۔ اس لیے حاطب بن عمرو کا تذکرہ الگ سے نہیں آیا۔ بہرحال دونوں کے نزدیک تعداد 16 ہی ہے۔ ہمارے نزدیک اوپر کی فہرست میں بیان کردہ نام ہی مستند ہیں۔
اس تعداد میں شیرخوار بچوں کو شمار نہیں کیا گیا۔ حضرت لیلیٰ کا دودھ پیتا بیٹا عبداللہ اور حضرت ام سلمہؓ کا بیٹا سلمہ بھی ان کے ساتھ تھا‘ اسی طرح شاید بعض دیگر جوڑوں کے ساتھ بھی ان کے چھوٹے بچے ہوں گے۔ حکمت کے تحت یہ صحابہ کرامؓ مکہ سے سب کے سب اکٹھے نہیں نکلے تھے‘ لیکن کچھ فاصلے پر جاکر آپس میں مل گئے اور ساحل سمندر کی طرف تیزی کے ساتھ اپنا سفر مکمل کیا۔ جس جگہ آج کل جدہ ہے اس کے گرد ونواح میں دو بستیاں ماش اور راکب تھیں اور ان کے بیچ میں ساحل سمندر پر شعیبہ بندرگاہ تھی۔ اس بندر گاہ پر ایک اشرفی یا نصف اشرفی کرائے پر ایک کشتی میں یہ سب لوگ سوار ہوئے اور حبشہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی آمد پر اہلِ حبشہ نے کسی تعجب کا اظہار نہیں کیا‘ کیونکہ حبشہ میں لوگوں کی آمدورفت بسلسلہ سیاحت وتجارت جاری رہتی تھی۔ ان مسلمانوں نے آپس میں مشورہ کرکے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو اپنا امیر مقرر کیا۔ ہجرت کرنے والے صحابہ کو قریش نے پکڑنے کی بھی کوشش کی‘ مگر ان کے ساحل پر پہنچنے سے قبل کشتی روانہ ہوچکی تھی۔ ابن سعد کے مطابق ایک نہیں‘ بلکہ دو کشتیوں میں سوار ہو کر یہ صحابہ حبشہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ (طبقات ابن سعد‘ ج۱‘ ص۲۰۳-۲۰۴)