حکومت کی اتحادی جماعتوں میں پائے جانے والے مصنوعی اضطراب کو‘ اگرچے کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ سمجھا جا رہا ہے‘ لیکن یہی مہمل تغیر ایوان ِاقتدار میں اتھل پتھل کے علاوہ کانٹے میں پڑے چارے کی ترغیب کی طرح اپوزیشن جماعتوں کیلئے خطرناک ٹریپ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
چنانچہ ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی ناراضی سے جہاں حکمران جماعت کی پریشانی بڑھے گی‘ وہاں حصول ِاقتدار کی کشمکش میں مبتلا اپوزیشن جماعتیں بھی ایک خاص نوع کی باہمی رسہ کشی میں الجھتی جائیں گی۔17 ماہ سے جاری یہی بے مقصد کشمکش بالآخر قومی سیاست کو اُس بند گلی تک پہنچا دے گی‘جہاں سے صرف استبدادکو ہی راستہ ملتا ہے۔اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ قومی سیاست میں گہرا جمود اور ایسا سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ‘ جسے صرف انقلابی تبدیلیاں کے ذریعے ہی توڑاجا سکتا ہے‘یعنی ملکی سیاست میں توازن لانے کی خاطر سندھ اور پنجاب سمیت خیبر پختونخوا میں بھی نئے انتظامی یونٹس کا قیام ناگزیر ہے‘ مگر دونوں بڑے صوبوں کی مقبول سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے قیام میں اپنی سیاسی موت دیکھتی ہیں‘اس لئے نواز لیگ پنجاب کی اور پیپلزپارٹی سندھ کی انتظامی تقسیم تسلیم نہیں کرے گی۔
پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب صوبہ کی تخلیق کے اعلانیہ موقف سے اس لیے پیچھے ہٹ گئی کہ پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کے ساتھ ہی کراچی‘حیدرآبادکو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات زور پکڑ جائیں گے۔آصف علی زرداری کی اسی سیاسی پسپائی نے جنوبی پنجاب میں گیلانی خاندان سمیت پیپلزپارٹی کی سیاست کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔سیاست ایسا رواں عمل اور فعال دھارا ہے‘کسی بھی سیاسی جماعت یا مقتدرہ کیلئے جسے روکنا ممکن نہیں‘اگر سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ ذہنی تعصبات کے خول میں مورچہ بند ہو کے زمینی حقائق کوتسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی‘ تو وقت انہیں پامال کر کے آگے نکل جائے گا۔
بھارت کی بانی جماعت انڈین نیشنل کانگرس اسی جدلیات کی کلاسیکی مثال ہے‘جسے قیادت کے ذہنی جمود نے حتمی پسپائی سے دوچار کر کے میدانِ سیاست سے باہر کر دیا‘اگر سیاسی جماعتیں نئے صوبوں کے قیام پہ راضی نہ ہوئیں‘ تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا‘ جب انہیں بخوشی استبدادی نظام کو قبول کرنا پڑے گا۔بہرحال اب تو ویسے بھی مڈل ایسٹ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عالمی تعلقات کی نزاکتوں کا وبال ہمیں سیاسی نظام کی تشکیل نو کی اجازت نہیں دے گا۔اس لیے حالات کا جبر سسٹم کو بتدریج ایک ایسے مربوط صدارتی نظام کی طرف دھکیل رہا ہے‘ جو ہمیں صوبائی تعصبات کے مضمرات اوربڑھتی ہوئی لسانی تفریق سے بچانے کے علاوہ سیاسی استحکام اور معاشی خوشحالی سے ہم کنار کر سکتا ہے۔
بلاشبہ ہماری معاشی زبوں حالی اور داخلی تضادات ملک میں سیاسی استحکام کے طلبگار ہیں ‘مگر آبنائے ہرمز میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث عالمی طاقتوںکے مفادات یہاں ایک ایسی حکومت کے متقاضی ہیں ‘جس میں فیصلہ سازی کا اختیارفرد واحد کے پاس ہو‘مفادات کا یہی ٹکراؤسویلین بالادستی کی راہ میں حائل ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک اس وقت نازک مرحلہ سے گزر رہا ہے۔ اس لیے سیاستدان پھونک پھونک کے قدم رکھنے اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔فی الوقت کسی قسم کی مہم جوئی یا اس کے ردعمل میں سیاسی مزاحمت کا ہنگام قومی مستقبل کو مخدوش بنا سکتا ہے۔عوام‘ چونکہ عالم بالا اور سطح کے نیچے پنپنے والے مصائب کو دیکھنے‘سمجھنے اور پرکھنے کی استعداد نہیں رکھتے‘اس لیے قومی قیادت سے توقعات وابستہ رکھنے کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ قومی قیادت اپنی اجتماعی دانش سے ملک کوسیاسی و معاشی بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشکل ترین حالات میں بھی قومی لیڈرشپ نے مملکت کی سلامتی کی خاطر ذاتی انا اور پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھ کے ناگوار فیصلے کئے؛ حالانکہ اس شعوری پسپائی کی نوازلیگ کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔ابھی حال ہی میں عسکری قیادت نے عدالتی فیصلوں کو تحمل کے ساتھ قبول کر کے عدلیہ کو توانائی فراہم کی اور سیاسی جماعتوں نے حالات کی نزاکتوں کے پیش نظر مزاحمت کی راہ ترک کر کے مفاہمانہ انداز میں تنازعات کو نمٹانے کی راہ اپنا کے‘ جس طرح قومی مفاد کو ترجیحی اول بنایا‘ وہ ان کی حب الوطنی کا ثبوت اور سیاسی ایثار کی گراں قدر مثال تھا۔
امر واقعہ یہ کہ2018ء کے انتخابات میں قوم نے ایسا منقسم مینڈیٹ دیا ‘جس نے تمام سیاسی جماعتوں کے مابین باہمی انحصار کو بڑھا دیا۔پی ٹی آئی کو مرکز اور پنجاب میں قابل اطمنان اکثریت نہ ملی‘اس کے اقتدار کا دوام چھوٹے گروپوں کے تعاون سے مشروط ہو گیا؛چنانچہ طوعا ًوکرہاً انہیں چھوٹی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا‘لیکن وفاقی حکومت اختر مینگل کی بلوچ نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ کئے گئے عہد وپیماں نباہ نہیں سکی۔خاص کر بلوچستان میں گوادر کی مقامی آبادی کے حقوق کے تحفظ کی خاطر قانون سازی میں ناکامی نے اتحادیوںکو مایوس کر دیا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایم کیو ایم‘اختر مینگل کی بلوچ نیشنل پارٹی اور قاف لیگ کی سیاسی ضرورتیں موجودہ حکومت کوموثر انداز میں کام کرنے کی موقع دیں گی‘ نہ پی ٹی آئی گورنمنٹ ان سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنا سکے گی‘ لہٰذا یہی نامطلوب کشمکش فریقین کو ہر حال میں وقف اضطراب رکھے گی۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذہبی جماعتوں کی کم نمائندگی نے انہیں پاور پالیٹکس کی حرکیات سے دور دھکیل دیا۔اس کمزوری کے ازالہ کی خاطر مولانا فضل الرحمن نے سٹریٹ پاور کو بروکار لانے کا خطرہ مول لیا‘ لیکن افسوس کہ مولانا صاحب حصول ِمقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔مولاناصاحب کے دھرنا اور آزادی مارچ کی ناکامی نے دینی جماعتوں کی رہی سہی قوت کو مضمحل کرکے مذہبی سیاست کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی؛چنانچہ اگلے کسی متوقع سیاسی بندوبست میں جماعت اسلامی یا جے یو آئی کے لیے حصہ پانے کی گنجائش مزید کم ہو گئی‘لیکن اس سب کے باوجود دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کیلئے بھی پی ٹی آئی حکومت کو گرانا آسان نہیں ہو گا۔
اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کیلئے وزیراعظم کا منصب حاصل کرنے کی متمنی ہے‘ لیکن نواز لیگ پی پی پی کو وزارت ِاعظمی دینے پہ تیار نہیں ہو گی‘تاہم مرکز میں تعاون کے بدلے نواز لیگ کے پاس بھی پیپلزپارٹی کو دینے کیلئے کچھ نہیں اور ویسے بھی پیپلزپارٹی مرکز میں نواز لیگ حکومت کو اپنے سیاسی مستقبل کیلئے خطرہ سمجھتی ہے ‘اس لیے اِن ہاؤس تبدیلی کے عمل میں پی پی پی نواز لیگ کا ساتھ دینے پہ تیار نہیں ہوگی۔مولانا فضل الرحمن نے اسی امید پہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو انگیج رکھا کہ اِن ہاؤس تبدیلی کی گیم میں دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی بالادستی سے بچنے کی خاطر وزارت ِعظمی کیلئے جے یو آئی کے امیدوار پہ متفق ہوجائیں گی‘ لیکن موجودہ حالات میں ایسا ممکن نہیں تھا۔مذہبی جماعتوں کی سیاسی حاکمیت وقت اور حالات کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی‘خطہ میں ہر آن تبدیل ہوتی سٹریٹجک صورت ِ حال اور عالمی طاقتوں کا دباؤ قومی سیاست میں مذہبی جماعتوں کے کردار کو محدود کرتا جائے گا۔
اس لیے غالب امکان یہی ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پی ٹی آئی کی یہی‘ یعنی موجودہ حکومت‘ اسی طرح چلتی رہے گی۔