پاکستان میں حکومتوں کے زوال کی پیشگوئیاں ایک عمومی عمل ہے۔ ہم نے ایسی پیشگوئیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی حکومتوں کے دوران (2008-2018) بارہا سنیں۔ اب اوائل 2019 سے ہمیں پاکستان تحریک انصاف حکومت گرنے کی پیشگوئیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ اس حوالے سے آخری وعید نومبر کی ابتدا میں اپنے اسلام آباد دھرنے کے دوران مولانا فضل الرحمن نے دی کہ دسمبر 2019 تک یہ حکومت انجام کو پہنچ جائے گی۔ نیا سال ہے تو اس میں پی ٹی آئی حکومت کی چھٹی کرائے جانے یا عمران خان صاحب کی جگہ انہی کی پارٹی یا باہر سے کسی اور شخص کو سامنے لانے کی تازہ چہ میگوئیاں سامنے آ رہی ہیں۔
ایسی افواہیں یا پیشگوئیاں پاکستانی سیاست کی اُس غیر یقینی نوعیت کا مظہر ہیں جس کا انحصار پارلیمان کی بدلتی ہوئی حرکیات پر نہیں بلکہ سیاسی و غیرسیاسی عناصر کے مابین اُس کھینچا تانی پر ہے جو ہماری سیاسی حرکیات اور اس کی بدلتی ہوئی سمت کا تعین کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں سیاسی افواہ سازی کے وسیع امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ حکومت گرنے سے متعلق یہ پیشگوئیاں کسی کی خواہش یا کسی ترجیحی سیاسی ڈھانچے کا خاکہ بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ حکومت پر دبائو بڑھانے کا ایک طریقہ بھی ہیں۔ ایسی پیشگوئیاں اُس وقت بھی سامنے آتی ہیں جب مخلوط حکومت میں اتحادیوں کے مابین دراڑیں نمودار ہو جائیں۔ حزب مخالف اس طریقہ کار کے ذریعے سے حکومتی اعتماد کو مزید مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ مخلوط حکومت سے نکل جائیں۔
اگر سیاسی غیریقینی پھیلی ہو اور حکومتی کارکردگی کمزور ہو تو آسانی سے ایسی کہانیاں پھیلائی جا سکتی ہیں کہ آنے والے مہینوں یا ہفتوں میں سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی۔ جو بھی حکومت حزب مخالف کی اس حتمی تاریخ دینے کی حکمت عملی کو ناکام بنانا چاہے اُس کے لیے لازم ہے کہ پروپیگنڈا کا جواب دینے کے علاوہ اپنی کارکردگی میں بہتری لائے، عام آدمی کو درپیش روزمرہ کی مشکلات کا حل نکالے اور اپنے اتحادیوں کو اس طرح ساتھ لے کر چلے کہ ان کے حمایتی اور ووٹر اُن سے مطمئن رہیں۔
مرکز میں قائم پی ٹی آئی حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہیں ہے۔ حکومت کا بنیادی انحصار چار چھوٹی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم، ایم کیو ایم پاکستان، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور سردار اختر مینگل کی بی این پی پر ہے۔ طویل عرصہ سے ان جماعتوں کی جانب سے یہ شکایات سامنے آرہی ہیں کہ پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں حمایت کے بدلے اُن سے جو وعدے کیے تھے وہ وفا نہیں کیے جا رہے۔ حکومت چھوڑ دینے یا اس کی دھمکیاں دینے کی ایم کیو ایم پاکستان کی طویل تاریخ موجود ہے۔ اب انہوں نے ایک بار پھر اپنی اس حکمت عملی کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے ایک سینئر رہنما نے وفاقی کابینہ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے‘ لیکن پارٹی حکومت کا بدستور حصہ ہے، کم از کم اس وقت تک صورتحال یہی ہے۔ دوسرے اتحادیوں کی شکوہ طرازی بھی زور پکڑ گئی ہے۔ اگر ہم ان کے مطالبات پر نظر ڈالیں تو ان معاملات کا تعلق عوامی فلاح اور ترقیاتی فنڈ سے ہے۔ اختر مینگل ان امور کے علاوہ گمشدہ افراد کی بازیابی، بلوچوں کیلئے ملازمتوں اور صوبے کیلئے معاشی انصاف کی بات بھی کرتے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کو ایک فوقیت حاصل ہے کہ ان جماعتوں کے پاس اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے کوئی قابل اعتماد متبادل دستیاب نہیں کیونکہ پی ایم ایل این اور پی پی پی اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وفاق میں اپنی حکومت بنا سکیں؛ تاہم یہ جماعتیں اپنی حمایت واپس لے کر الگ گروپ کی صورت میں بیٹھ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کیلئے مسائل پیدا ہو جائیں گے؛ تاہم اس سے ان کی حکومت گرے گی نہیں اور اس بات کا امکان ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت ان چھوٹے گروپوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ پیش رفت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
پی ٹی آئی حکومتی امور چلانے اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکامی کے سبب ان سیاسی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ دونوں معاملات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ اگر پی ٹی آئی حکومت گورننس کے معاملات کو احسن طریقے سے چلا پائے، خصوصاً معاشی معاملات میں موثر کارکردگی کا مظاہرہ کرے، تو پی ٹی آئی اور عمران خان کی قیادت کا سیاسی ہالہ مزید بڑھ جائے گا۔ اس کے سبب اتحادی، وعدے پورے نہ ہونے کی شکایت کے باوجود، زیادہ شور نہیں مچا پائیں گے۔ پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی کے بارے میں عوامی تنقید میں شدت آ رہی ہے، خاص طور پر پنجاب میں ان کی پرفارمنس کے حوالے سے، توں توں ان کے اتحادیوں کی شکایات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ چھوٹی جماعتیں نہیں چاہتیں کہ حکومت کی کمیوں اور کوتاہیوں کیلئے انہیں موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔
ان اتحادیوں کو کچھ عملی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ پاکستان میں سیاست کسی حد تک ریاستی سرپرستی اور ترقیاتی فنڈ کی محتاج ہے تو ایسے میں ان اتحادیوں کے لیے اپنے حمایتیوں اور ووٹروں کو اس بات پر مطمئن کرنا آسان نہیں ہے کہ وہ حکومت کے اتحادی ہوتے ہوئے بھی اپنے حلقوں کے لیے کسی قسم کا ترقیاتی منصوبہ یا فنڈ حاصل کرنے سے قاصر کیوں ہیں۔ اب تک پی ٹی آئی حکومت نے صوبائی یا وفاقی سطح پر جن بڑے فلاحی منصوبوں کا اعلان کیا ہے ان کو صرف پی ٹی آئی کے منصوبوں کے طور پر ہی پیش کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی اندرونی سیاست اس بات کی متقاضی ہے کہ انہیں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے چلانے کے لیے براہِ راست فنڈز دیے جائیں۔ چونکہ مقامی سطح پر ایم کیو ایم پاکستان قابل ذکر موجودگی کی حامل ہے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ فنڈز براہِ راست میونسپل کمیٹی یا شہری انتظامیہ کو دیے جائیں۔ کچھ فنڈز تو اس طریقے سے دیے جا سکتے ہیں لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ یہ سلسلہ مستقل طور پر جاری ہو اور ایم کیو ایم اپنے طور پر ترقیاتی کام کرائے۔ پنجاب میں پی ایم ایل کیو کو دبدھا کا سامنا اس لیے ہے کہ یہاں کی صوبائی حکومت کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے صوبے کی اعلیٰ سطحی افسر شاہی انتظامیہ میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مرکز میں موجود قیادت صوبائی سطح پر اپنے اس سیاسی بندوبست کی حفاظت کو اپنے اتحادیوں اور پی ایم ایل کیو کی سرپرستی سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ اسی طرح سے جی ڈی اے اور بی این پی کو بھی شکایت ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم میں کم از کم دو ایسے سیاستدان ضرور موجود ہیں جنہیں بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان میں کس طرح اقتدار سانجھا کرکے معاملات آگے بڑھائے جاتے ہیں۔ امکان ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب رہیں گے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ معاملات طے کرلیں؛ تاہم خود پی ٹی آئی کو ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ملک کی سیاسی و معاشی صورتحال کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ جمہوری سیاست میں کسی کی ذاتی انا و ترجیحات یا پالیسی آپشنز کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مشترکہ فیصلہ سازی، مل کر کام کرنا اور دوسروں کے لیے جگہ پیدا کرنا ہی وہ عناصر ہیں جو کامیابی کی کلید بنتے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا تعلق ہے تو اس کیلئے تو ملک کی معاشی صورتحال میں کوئی قابل ذکر بہتری ابھی تک نہیں آ سکی۔ صوبائی اور قومی سطح پر پی ٹی آئی حکومت کیلئے لازمی ہے کہ وہ حکومتی امور چلانے میں پیشہ ورانہ مہارت اور صلاحیتوں پر توجہ دے کر سیاسی اور انتظامی معاملات میں بہتری لائے اور اپنے اتحادیوں کو بھی ساتھ لے کر چلے۔ جمہوریت میں کامیاب سیاست کا دوسرا پہلو اپوزیشن کے ساتھ کام کا ماحول قائم رکھنا ہے۔ اس تناظر میں وقتاً فوقتاً اپوزیشن کیلئے گنجائش نکالنا اور اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ کیا اپوزیشن کے بڑے رہنمائوں کے خلاف نیب کی احتسابی کارروائیوں کے ارتکاز سے پاکستانی سیاست عدم استحکام سے دوچار تو نہیں ہو رہی؟ زوال کی کسی بھی پیشگوئی کو ناکام بنانے کیلئے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ خود اپنا سیاسی گھر منظم ہو، اپنے اتحادیوں کو اچھے طریقے سے ساتھ لے کر چلا جائے اور اپوزیشن کو اتنا بھی دیوار سے نہ لگا دیا جائے کہ وہ ہر قیمت پر حکومت گرانے کے درپے ہو جائے۔