تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     22-01-2020

…وہ بھی کہہ رہے ہیں

جنرل (ر) امجد شعیب سے سوال تھا: کیا عمران خان (اور ان کی پی ٹی آئی) سے ''مقتدرحلقوں‘‘ کی (ماضی کی) قربت اب دُوری میں بدل رہی ہے؟ بزرگ عسکری دانشور کا جواب تھا: ماضی میں اگر مقتدر حلقوں کی قربت رہی ہو گی تو ''اصولی‘‘ ہو گی اور اگر اب دُوری ہے، تو یہ بھی ''اصولی‘‘ ہو گی (قدرے تؤقف کے بعد فرمایا) مسئلہ گورننس اور پرفارمنس کا ہے۔ اتحادیوں سے کئے گئے وعدے اگر پورے نہیں کئے گئے تو ذمہ دار کون ہے؟ پارلیمنٹ کی موجودگی میں معاملات آرڈیننسوں سے چلائے جا رہے ہیں تو قصور کس کا ہے؟ احتساب جس بھونڈے انداز سے ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے... ویسے تو 70 یو ٹرن لے چکے ہیں، لیکن عثمان بزدار کو انا اور ضد کا مسئلہ بنا لیا ہے نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ چل نہیں رہا۔
ایک اور جگہ آغا ہلالی فرما رہے تھے: پنجاب نہیں چل رہا تو اس میں بزدار کا کیا قصور؟ پنجاب کو ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلایا جا سکتا۔ (پھر ایک اور ''دلیل‘‘ لائے): آپ کو حکومت قبول ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ آپ کہتے، مجھے حکومت بنانے (اور چلانے) کے لیے ''اپنی‘‘ میجارٹی چاہیے۔ دو، دو تین، تین ارکان والی پارٹیوں کو ملا کر حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ (ایک اور مرحلے پر بزرگ تجزیہ نگار کا کہنا تھا): شہباز شریف سے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی مسئلہ نہیں‘ وہ حقیقت پسند ہے اور معاملات کو چلانا جانتا ہے۔
پنجاب میں پرفارمنس اور گورننس سے متعلق ایک سخت تر بات خود خان صاحب کی کابینہ کے ایک اہم رکن فواد چودھری نے بھی کہی: سیاسی سطح پر کچھ نظر آتا ہے، نہ انتظامی سائڈ پر کوئی پرفارمنس ہے۔ وزیر موصوف نے اپنے باس کو لکھے گئے باقاعدہ خط میں بزدار حکومت کو آئین کے آرٹیکل 140-A کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دے ڈالا۔ خط میں فواد چودھری کا مزید کہنا تھا کہ شہباز شریف کی وزراتِ اعلیٰ کے دنوں میں پنجاب کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت سب سے بڑا حصہ ملتا رہا۔ بزدار حکومت کے 16 ماہ میں، ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئین کے آرٹیکل 140-A کی عدم تعمیل اور اضلاع میں ترقیاتی فنڈز کی نا مناسب تقسیم عوام میں سخت مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔ خط میں جناب وزیر اعظم کو مقامی حکومتوں کو مستحکم کرنے کے ان کے وعدے یاد دلاتے ہوئے کہا گیا کہ صوبوں میں آئین اور قانون کے مطابق وسائل کی تقسیم اور بعد ازاں ضلعی سطح تک ان کی منتقلی وفاق پاکستان کے استحکام کا تقاضا ہے۔
فواد چودھری کے جواب میں وزیر اعظم صاحب کی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان صاحبہ، بزدار صاحب کو محنتی، ملنسار اور درویش صفت انسان قرار دیتے ہوئے کہہ رہی تھیں، کہ بزدار ایک شخص کا نہیں، ایک کردار کا نام ہے۔ بزدار پر تنقید کرنے والے در اصل وزیر اعظم عمران خان کو ٹارگٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے کچھ عرصہ قبل جناب بزدار کو شیر شاہ سوری قرار دیا تھا، اب انہیں اقبال کا مردِ مومن قرار دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا ؎
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاکباز
گجرات کے چودھری برادران کافی عرصہ خم ٹھونک کر بزدار صاحب کی پشت پر کھڑے رہے کہ کمزور وزیر اعلیٰ ہی انہیں سوٹ کرتا تھا۔ پنجاب میں طاقت کے تین چار مراکز میں، ان میں گلبرگ لاہور کی ظہور الٰہی شہید روڈ کا چودھری ہاؤس بھی شامل تھا۔ اگست 2018 میں وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کے معاہدے میں پنجاب کے تین اضلاع گجرات، چکوال اور بہاولپور اور تین تحصیلوں پھالیہ، ڈسکہ اور منڈی بہاؤالدین پر چودھریوں کی عملداری طے پائی تھی۔ پنجاب کے معاملات میں پاک پتن اورگوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ایک دو شخصیات کی مداخلت کے قصے کہانیاں بھی پڑھنے سننے میں آتے، بنی گالہ سے براہِ راست احکامات اپنی جگہ تھے۔ سال، سوا سال تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کے احوال پر ''طوائف الملوکی‘‘ کا گمان ہوتا۔ صوبائی (اور ضلعی) سطح پر، اہم ترین سرکاری و انتظامی مناصب پر تقرر اور تبادلے روز کا معمول ہو گئے تھے۔ چار سو بد نظمی، بے یقینی اور افراتفری کی کیفیت تھی (نیب کی پیدا کردہ خوف کی فضا اپنی جگہ) کہ گزشتہ سال کے اواخر میں پنجاب میں نیا تجربہ کیا گیا۔ سننے میں آیا کہ وسیع پیمانے پر تقرر اور تبادلوں کے ساتھ نئے چیف سیکرٹری (اور آئی جی صاحب) کو صوبے کا مالک و مختار بنا دیا گیا۔ وہ کسی قسم کے ''سیاسی دباؤ‘‘ سے آزاد، براہِ راست بنی گالہ کو جواب دہ ہیں۔ اب وہیں سے ڈائریکٹو آتے ہیں، لاہور سے سمریاں بھی براہِ راست وہیں جاتی ہیں (جن کی نقول بزدار صاحب کو بھی فراہم کر دی جاتی ہیں) کہا جاتا ہے، گجرات والے چودھری برادران کی تازہ شکایات کا ایک اہم سبب یہ نیا انتظام بھی ہے۔ چودھریوں کا دعویٰ ہے کہ وفاق میں ان سے دو وزارتوں کا وعدہ تھا۔ چودھری طارق بشیر چیمہ کے ساتھ، دوسری وزارت مونس الٰہی کے لیے تھی لیکن مونس الٰہی کی وزارت کے حوالے سے ''رات گئی بات گئی‘‘ والا معاملہ ہو گیا۔ چند دن ہوتے ہیں، وزیر اعظم سے مونس الٰہی نے ''باقاعدہ‘‘ ملاقات کی، جس پر یار دوستوں کا خیال تھا کہ شاید قسمت مونس پر مہربان ہو رہی ہے لیکن گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں مونس کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے بعد ان کا یہ تاثر ہے کہ وزیر اعظم انہیں پسند نہیں کرتے۔
اِدھر پنجاب میں اقتدار کے حوالے سے چھوٹے چودھری صاحب پھر سینٹر سٹیج پر نظر آ رہے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں طارق بشیر چیمہ کی عدم شرکت، چودھریوں کی ناراضی کا واضح اظہار تھا (بعض ستم ظریف اس کے لیے بارگیننگ سے بڑھ کر الفاظ استعمال کرتے ہیں) کہا جاتا ہے، چودھریوں کو جو بات خود نہ کہنی ہو، چیمہ صاحب سے کہلوا دیتے ہیں۔ کوئی کسر رہ جائے، تو کامل علی آغا کو آگے کر دیا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عدم شرکت کے بعد، ایک ٹاک شو میں چیمہ صاحب کا کہنا تھا، ہم نے تو حکومت بننے کے تین ماہ بعد ہی گورننس کے مسائل پر توجہ دلانا شروع کر دی تھی اور یہ بھی کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو ریموٹ کنٹرول سے نہیں چلایا جا سکتا۔ اگلے روز کامل علی آغا کی گفتگو، شکوے شکایات سے زیادہ گورننس اور پرفارمنس کے حوالے سے چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی تھی۔ ان کا کہنا تھا: ہم کس منہ سے، انتخابات میں عوام کا سامنا کریں گے، لوگ تھوتھو کر رہے ہیں۔ بے کاری، بے روزگاری، مہنگائی اور بد امنی کے ساتھ، وہ کرپشن کا بطور خاص ذکر کر رہے تھے۔ ان کے بقول، کوئی جائز کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ پہلے جو کام بارہ سو میں ہو جاتا تھا، اب پانچ ہزار میں بھی نہیں ہوتا۔ اس کے لیے پچاس ہزار کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور باقاعدہ وزیر اعظم کا نام لیا جاتا ہے کہ ''تبدیلی آ گئی ہے‘‘۔ کرپشن اور رشوت کے حوالے سے ہمارے دوست منصور آفاق بھی احتجاج کئے بغیر نہ رہے۔ وہ خان صاحب کے دیرینہ عشاق میں شمار ہوتے ہیں اور اب تک وفا اور امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ان کے بقول جناب وزیر اعظم کے اپنے حلقہ انتخاب میں ڈرائیونگ لائسنس بنانے کے 25 ہزار لیے جا رہے ہیں (وزیر اعظم گزشتہ دنوں میانوالی تشریف لے گئے، تو وہاں ان کے منہ پر بھی یہ بات کہی گئی)۔ لال حویلی والے شیخ صاحب گزشتہ دنوں لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں کہہ رہے تھے: اتحادیوں کے مسائل اپنی جگہ، خود پی ٹی آئی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو وزارتیں نہ ملنے پر ناراض ہیں (گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 20 ''غیر مطمئن‘‘ ارکان کا باقاعدہ (اور با تصویر) گروپ منظرِ عام پر آ گیا)۔ شیخ صاحب کا کہنا تھا: نواز شریف تو نہیں؛ البتہ فروری، مارچ میں شہباز شریف کی واپسی کا امکان ہے۔ ایک اور با خبر اور با اعتماد تجزیہ کار کے بقول: سروسز ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد، خان صاحب کو 2 ماہ مزید مل گئے ہیں‘ جس میں انہیں کچھ ڈلیور کر کے دکھانا ہے۔ اس کے بعد، شاید چراغوں میں روشنی نہ رہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved