تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     22-01-2020

سرخیاں‘ متن ‘ درستی اور عامرؔ سہیل کی نظم

حکمرانوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی 
دشمن کی ضرورت نہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ دشمن کی ضرورت تو ہمارے ہوتے ہوئے بھی نہیں تھی‘ لیکن اب ‘چونکہ ہمارے لیڈر لندن چلے گئے ہیں ‘اس لیے پاکستان کو کسی دشمن کی ضرورت لاحق ہو گئی ہے‘ لیکن موجودہ حکمران اس قدر نالائق اور نا اہل ہیں کہ ان سے کسی معقول ملک دشمنی کی بھی کوئی امید نہیں‘ جو صرف عوام کی خدمت ہی کے ذریعے ہو سکتی ہے ‘کیونکہ جوں جوں اس خدمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے‘ خزانہ خالی اور خدمت گاروں کی تجوریاں بھرتی جاتی ہیں اور صرف اربوں ڈالر کا قرضہ باقی رہ جاتا ہے۔یہ آنے والے حکمرانوں کی مت مارنے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اسی لیے یہ لوگ بوکھلائے‘ بوکھلائے پھرتے ہیں اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا کریں‘ جبکہ ان کی سمجھ پہلے ہی کم ہے اور ان میں اتنی توفیق بھی نہیں کہ تھوڑی عقل ہم سے ہی لے لیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
آٹے بحران کا پتا نہیں‘ لیکن پتا ہونا چاہیے: صدر علوی
صدرِ مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ ''آٹے بحران کا پتا نہیں‘ لیکن پتا ہونا چاہیے‘‘ تاہم‘ جہاں حکومت کو کئی بحرانوں کا علم نہیں تو اس ایک سے کیا فرق پڑتا ہے اور اگر پتا ہو بھی تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کیونکہ یہ مملکت ِخداداد ہے اور یہاں کچھ بھی ہو جائے ‘کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا اور سب مزے کر رہے ہیں اور اگر مزے نہ بھی کریں تو بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کیونکہ سب کے سب مشکل پسند آدمی ہیں اور ساری مشکلات کو اللہ کی رضا ہی سمجھتے ہیں اور ان مشکلات کو دُور کرنا اوّل تو ان کے بس میں نہیں اور اگر ہو بھی تو اللہ میاں کے کسی کام میں مداخلت بھی نہیں کرتے اور جو مصیبت آئی ہے اس پر حیران بھی ہو رہے ہیں اور اب انہوں نے پریشان ہونا بھی شروع کر دیا ہے ؛ حالانکہ نہیں ہونا چاہیے‘ اور ہر چیز کا پتا ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ادارہ قلب اور صحت ِ اطفال مرکزکا دورہ کر رہے تھے۔
بزدار کو عمران نہیں ہٹا رہے‘ وہ خود ہی خیال کر لیں: فواد چوہدری
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ''بزدار کو عمران نہیں ہٹا رہے‘ وہ خود ہی خیال کر لیں‘‘ اور یہ خیال ہم میں سے بہت سوں کو کرنا چاہیے‘ لیکن شاید مصروفیت کی وجہ سے نہیں کر رہے‘ کیونکہ کچھ نہ کرنا بھی بہت بڑی مصروفیت ہوتی ہے اور ایمانداری تو یہ ہے کہ یہ خیال خود عمران خان کو بھی کرنا چاہیے؛حتیٰ کہ میں کئی دفعہ یہ خیال کرتا ہوں ‘لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے
آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
حکومت بتائے‘ کس کو نوازنے کیلئے گندم باہر بھجوائی: ملک رشید
رکن قومی اسمبلی ملک رشید احمد خاں نے کہا ہے کہ ''حکومت بتائے‘ کس کو نوازنے کیلئے گندم باہر بھجوائی‘‘ کیونکہ ہماری حکومت جس کو نوازتی تھی‘ سب کو پتا ہوتا تھا ‘کیونکہ فرنٹ مین سب کے جانے پہچانے ہوتے تھے‘ ویسے ہم زیادہ سے زیادہ خود کو نوازنے ہی میں یقین رکھتے تھے اور اسی لیے جماعت کا نام بھی نواز لیگ تھا اور اب نواز شریف کا تو لندن سے واپسی کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘ اس لیے اگر شہباز شریف واپس آ گئے تو اس کا نام شہباز لیگ‘ یعنی شین لیگ ہوجائے گا‘ تاہم نام میں کیا رکھا ہے‘ گوبھی کے پھول کو کسی بھی نام سے پکارا جائے‘ وہ گوبھی کا پھول ہی رہے گا اور اگر گندم واقعی کسی کو نوازنے کیلئے بھیجی گئی‘ تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت ہمارے حکمرانوں ہی کی نقل اتار رہی ہے‘ لیکن مزا تو تب آئے کہ خدمت بھی ہمارے قائدین کی طرح ہی کریں۔ آپ اگلے روز قصور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
درستی
آغاخالد صاحب نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے‘ جو دراصل بے وزن ہے:؎
لوگ اِس منظرِ جانگاہ کو جب دیکھیں گے
اور بڑھ جائے گا سطوتِ شاہی کا جلال
دوسرے مصرعے میں کوئی لفظ چھوٹ گیا ہے‘ جس سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔ شاید مصرع اس طرح سے ہوع
اور بڑھ جائے گا پھر سطوتِ شاہی کا جلال
اشفاق احمد ورک نے اپنے کالم میں اپنی جو نمکین غزل درج کی ہے ‘ اس کا ایک شعر اس طرح سے ہے: ؎
ہونٹ مسکان پہ آمادہ ہیں
آنکھ غمگین ہوتی جاتی ہے
اس کا پہلا مصرع بے وزن ہو گیا ہے‘ صحیح اس طرح سے ہوگا:ع
ہونٹ مُسکان پر ہیں آمادہ
اور‘ اب آخر میں عامر ؔسہیل کی یہ چھوٹی سی نظم:
سری لنکا میں ایسٹر
دھماکے یہ گرجا گھروں میں دھماکے
خدا نے اٹھائے نہیں آ کے لاشے؟
یہ آنسو رُندھے باغ میں کس نے بوئے
کوئی ایسٹر کو گلابوں سے دھوئے
رتوں کی‘ گتوں کی‘ بتّوں کی خدائی
یہ اعضاء کی اعضاء سے ہے ہے جدائی
یہ سینے میں رکتا ہوا وقت عامرؔ
گلابی جزیرہ ہے دو لخت عامرؔ
جُدا ہے پلک سے پلک آبنائے
کوئی کائناتوں کو چلنا سکھائے!
آج کا مقطع
چراغ ِ چہرہ کو بجھنے نہیں دیا ہے‘ ظفرؔ
ہم اپنے گرد ہوا کا حصار رکھتے ہیں

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved