مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس کے ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کا نام پہلی مرتبہ میڈیا میں اس وقت شہ سرخیوں کی زینت بنا‘ جب 9فروری 2013ء کو بھارتی پارلیمنٹ پر بیس سال قبل ہوئے ایک مسلح حملے میں مبینہ مجرم قرار دیئے گئے افضل گرو کو پھانسی دی گئی اور پھر چند روز بعد اخبارات میں افضل گرو سے منسوب ایک خط شائع ہوا ‘ جس میں افضل گرو نے دیوندر سنگھ کے بارے میں لکھا کہ دیوندر سنگھ نے اسے ایک دوسرے ملک کے دہشت گرد کو دلّی لے جانے اوروہاں کرایے کے مکان میں مقیم کرنے ‘ نیز ایک گاڑی خریدنے کیلئے مجبور کیا تھا۔اب‘ گزشتہ دنوںدیوندر سنگھ کو جموں جاتے ہوئے قاضی گنڈ کے مقام پر حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر سید نوید‘ اس کے ساتھی آصف راتھر اور ایک وکیل عرفان احمد کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا ہے اور یوں دیوندر سنگھ کا نام ایک بار پھر بھارتی میڈیا کہ شہ سرخیوں میں ہے۔
دیوندر سنگھ کا تعلق شہید کشمیری مجاہد برہان وانی کے آبائی گائوں ترال سے ہے‘ جہاں اس کے پھلوں کے باغات ہیں اور اس کے والدین نئی دلّی میں اپنے دوسرے بیٹے نصیب سنگھ کے ساتھ رہتے ہیں۔اس وقت سری نگر کے اندرا نگرجیسے پوش علاقے میں دیوندر سنگھ کا ایک محل نما مینشن ہے‘ جس کی عقبی دیوار بادامی باغ چھائونی میں بھارتی فوج کی15th کور کے ہیڈ کوارٹر سے منسلک ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ اپنی دیوار کے ساتھ تین سال سے حزب المجاہدین کیلئے کام کرنے والے کی بھارتی فورسز مانیٹرنگ نہ کررہی ہو‘ نیزدیوندر سنگھ کا نام جموں و کشمیر پولیس کے ان76 افسروں کی فہرست میں بھی شامل ہے ‘جنہیںامسال بھارت کے یوم جمہوریہ پر صدارتی پولیس میڈل دینے کیلئے سفارش کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ26 جنوری2020ء کو ہر سال کی طرح بھارت اپنا ''یومِ جمہوریہ‘‘ منارہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ اس بار بھارت اپنے یومِ جمہوریہ والے دن یا اس سے پہلے پاکستان کیخلاف کوئی مبینہ کارروائی کر سکتا ہے۔ بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں تواتر سے یہ مذموم خبریں اور تبصرے نشر ہو رہے ہیں کہ عین ممکن ہے‘ 26 جنوری کو یا بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقعے پر پاکستان کی طرف سے بھارت پر کوئی حملہ کر دیا جائے۔ اس بھارتی میڈیاکے پروپیگنڈے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے جعلی بھارتی پروپیگنڈے کا مقصد کیا ہو سکتاہے؟اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ یہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ‘ بھارتی خفیہ ادارے اور آر ایس ایس کی چھتری تلے کام کرنے والے مودی سرکار پاکستان کے خلاف کسی ''فالس فلیگ آپریشن‘‘ کی راہ ہموار کررہے ہو‘اس لیے پاکستان کو ہوشیار رہنا ہو گا۔
ان حالات میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص‘ جسے بھارتی یوم جمہوریہ پر صدارتی پولیس میڈل دینے کیلئے سفارش کی گئی‘ کیا وہ دہشت گردوں کا ساتھی ہو سکتا ہے؟ سب سے بڑھ کر چند روز قبل مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے والے غیر ملکی سفارتی اہلکاروں کی ٹیم کے ساتھ اسی دیوندر سنگھ کی خصوصی طور پر ڈیوٹی لگائی گئی‘ تاکہ وہ انہیں حکومتی بندو بست اور بتائے گئے مقامات پر لے جانے کے لیے رہنمائی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے پلان کے مطا بق‘ انہیں وادی کا دورہ کروا سکے۔اب ‘جبکہ دیوندر سنگھ کو گرفتار کرنے کے بعد اس کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے اور اس کی تفتیش کرنے والی بھارتی ایجنسی NIAکے کچھ سینئر اہلکاروں کا کہنا کہ اس کے ایک رشتہ دار کے گھر سے جہاں وہ چند سال رہائش پذیر رہا‘ ایک کلاشنکوف اور دستی بم بھی بر آمد ہوئے ہیں اور یہ پتا چلایا جا رہا ہے کہ یہ دستی بم اور اسلحہ کن مقصد کیلئے یہاں رکھا گیا اور یہ کس کی ملکیت ہے؟ بھارتی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کے افسران کا کہنا ہے کہ دیوندر سنگھ سے کی جانے والی ابتدائی تفتیش میں اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ گزشتہ تین برسوں سے حزب المجاہدین کے ساتھ وابستہ رہا ہے اور اسے ان دہشت گردوں کو نئی دلّی پہنچانے کیلئے 12لاکھ روپے دیئے گئے ۔ بھارتی پولیس اور این آئی اے کا کہنا ہے کہ دیوندر سنگھ دہشت گردوں کو محض دلّی میں محفوط پناہ گاہ دینا چاہتا تھا‘ لیکن اس کی گاڑی سے گرنیڈز کی برآمدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
دیوندر سنگھ دہشت گردوں اور کشمیری حریت پسند وں کے خلاف انسدادی کاروائیوں میں پیش پیش رہا اور ایک مرتبہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں عمارتی لکڑی سے بھرا ایک ٹرک اغوا کرلیا تھا‘ لیکن جلد ہی یہ پتا چلنے کے بعد کہ ٹرک ایک سابق کشمیری وزیراعلیٰ کے کسی رشتہ دار کاہے‘ اسے وہ ٹرک چھوڑنا پڑا۔الغرض اپنی 30 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں دیوندر سنگھ پر کئی الزامات لگے۔صدارتی پولیس میڈل کے لیے نامزدکردہ انتہائی با خبر بھارتی ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کیوں اپنے ساتھ انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو لیے سری نگر سے چندی گڑھ کی جانب کیوں محو سفر تھا؟
بھارتی پولیس اورسپیشل برانچ سمیت خفیہ ایجنسیوں کے کچھ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دیوندر سنگھ کی گرفتاری بھارتی آئی بی اور'' راء‘‘ کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔ دیوندر سنگھ‘ جس کے آئی بی کے ہیڈ کوارٹر اور مقبوضہ کشمیر میں تعینات آپریشن ڈائریکٹر کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں ‘اس کے متعلق وثوق سے کہا جا رہا ہے کہ پلوامہ واقعہ کا ماسٹر مائنڈ بھی وہی تھا‘ کیونکہ اس کے زیر تفتیش رہنے والا کشمیری نوجوان جسے خود کش حملہ آور کہا گیا‘ اس روٹ پر ایک روز قبل اس کے ساتھ دیکھا گیا تھا اور اسی راز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے راہول گاندھی نے مطالبہ کیا ہے کہ پلوامہ حملے کی نئے سرے سے انکوائری کرائی جائے ۔دریں اثنا بھارتی اخبار''انڈیا ٹو ڈے‘‘ نے لکھا ہے کہ دیوندر سنگھ کی گرفتاری کوئی معمولی بات نہیں‘ کیونکہ کانگرس کی لیڈر شپ کے الزامات کے ڈانڈے اسٹیبلشمنٹ تک جا ملنے کی قیاس آرائیوں کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
پاکستان کے خلاف دیوندر سنگھ کی گرفتاری والی تازہ سازش 11جنوری 2020ء کو بے نقاب ہوئی۔ یہ ایک انتہائی حساس آپریشن تھا۔ مخبری ہونے پر دیوندر سنگھ کیخلاف ناکے لگائے گئے۔ اس آپریشن کی نگرانی خود مقبوضہ کشمیر کے آئی جی پولیس وجے کمار نے کی۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس بارے کچھ خبریں شائع ہو چکیں‘ تاہم اس بارے میں تفصیلی رپورٹ 16جنوری 2020ء کو بھارتی اخبار'' انڈیا ٹوڈے‘‘ کی انویسٹی گیشن رپورٹر انورادھا بھسین جموال نے شائع کی ‘ جو بہت انکشاف خیز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دیوندر سنگھ کسی اعلیٰ ترین بھارتی اتھارٹی کی ایما پر حزب المجاہدین کے کمانڈر اور اس کے ساتھی کو اپنے ساتھ لے جارہا تھا‘ تاکہ ان سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کام کروائے جا سکیں اور پاکستان کے خلاف فالس فلیگ سٹرائیک کی راہ ہموار کی جا سکے۔بھارتی صحافی نے لکھا ہے دیوندرسنگھ‘ ایک جرائم پیشہ پولیس افسر ہے‘ جو اغوا کاری‘ بھتہ خوری‘ دہشت گردوں سے تعلقات اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ تشدد اور ٹارچر اس کی عادتِ ثانیہ ہے‘ اسی وجہ سے اسے مقبوضہ کشمیر کی پولیس میں ''ٹارچر سنگھ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
دیوندر سنگھ عرف ٹارچر سنگھ ‘جواب بھارتی تحقیقاتی ادارےNIAکی تحویل میں ہے‘ بار بار بھیانک جرائم کے ارتکاب کے باوجود اسے کیوں نہ گرفتار کیا گیا اورنہ ہی کبھی اس کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی گئی؟ ایسے کئی سوالات دیوندر سنگھ کے متعلق پیدا ہو رہے ہیں اور ایک ایک کر کے سارے بھید کھل رہے ہیں!