تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-01-2020

سیکھنا تو پڑے گا

یہ حقیقت آج کم و بیش ہر انسان کے سامنے بے نقاب ہے اور بہت حد تک تسلیم شدہ بھی کہ ہر دور اپنے ساتھ بہت سے مسائل لاتا ہے اور اُن مسائل کا موزوں ترین حل تلاش کرنے میں ناکامی دنیا کو مزید الجھاتی ہے۔ ایک دور کا نامکمل ایجنڈا جب آگے بڑھ کر اگلے دور سے جُڑتا ہے تب دنیا کی الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں چند ایک معاملات نامکمل ایجنڈے کی شکل اختیار کرتے ہیں اور اُن کا بوجھ بعد میں آنے والے ادوار کو اٹھانا پڑتا ہے۔ بیسویں صدی اِس اعتبار سے انتہائی منفرد تھی کہ اِس ایک صدی نے پچھلی تمام صدیوں کے علوم و فنون کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حوالے سے عقل کو دنگ کردینے والی پیش رفت یقینی بنائی۔
انسان نے چار پانچ ہزار سال کے دوران جو کچھ بھی سیکھا تھا وہ بیسویں صدی میں غیر معمولی پیش رفت کے ذریعے finished goods کی شکل اختیار کرسکا۔ اور یہ تبدیلی ہر معاشرے کے انسان کے لیے بہت سی قابلِ رشک آسانیوں کے ساتھ ساتھ انتہائی نوعیت کی ذہنی پیچیدگی بھی ساتھ لائی۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں کے دوران ترقی کا عمل تیز ہوا۔ ایجادات کا دائرہ وسیع ہوا اور اختراعات نے تو ایسی وسعت اختیار کی کہ سبھی کچھ محض بدل نہیں گیا‘ بلکہ الجھ بھی گیا۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ ایسا بہت کچھ لائی ہے جو ذہن کو الجھانے کیلئے انتہائی کافی ہے۔ قدم قدم پر اِتنی سہولتیں ہیں کہ انسان کیلئے ڈھنگ سے کام کرنا دردِ سر ہوگیا ۔ بقول اصغرؔ گونڈوی:؎ 
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے 
اگر آسانیاں ہوں‘ زندگی دشوار ہوجائے! 
فی زمانہ جن انتہائی پیچیدہ مسائل کا انسان کو سامنا ہے اُن میں سیکھنے سے گریز کو تقریباً پہلا نمبر دیا جانا چاہیے۔ اور اضافی المیہ یہ ہے کہ سنگلاخ نوعیت کا یہ مسئلہ خود انسان ہی کا پیدا کردہ ہے۔ ڈھائی تین ہزار سال کی دانش قدم قدم پر یہ نکتہ عیاں کرتی ہے کہ جو لوگ سیکھنے پر مائل رہتے ہیں وہی کچھ بنتے ہیں‘ کچھ کر دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہر دور کے انسانوں نے کامیابی اُسی وقت پائی جب مہارت رکھنے والوں اور حالات سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ سیکھنے کا عمل ہی انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ سیکھے بغیر ڈھنگ سے آگے بڑھنا اور دوسروں کی توجہ پانے کی اہلیت رکھنے والی کارکردگی کا مظاہرہ کر پانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ہر شعبہ صرف اُن کے لیے ہے جو سیکھنے کے عمل سے غیر معمولی شغف رکھتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی لوگ معاملات کو اَن دیکھا کرتے ہیں۔ آج کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے جتنے مواقع (جتنی آسانی سے) میسر ہیں‘ پہلے کبھی نہ تھے۔ اپنے سمارٹ فون کی مدد سے کوئی بھی شخص سمعی و بصری مواد کے ذریعے کسی بھی شعبے کی انتہائی بنیادی معلومات سے بہرہ مند ہونے کے بعد مہارت کی طرف تیزی سے بڑھ سکتا ہے۔ سمعی و بصری مواد کا بڑا حصہ مفت میسر ہے یعنی کسی بھی شعبے میں غیر معمولی مہارت کا حصول یقینی بنانے کے لیے کچھ خاص خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ 
سوچنے والوں کے لیے یہ خیال سوہانِ روح ہے کہ جب سیکھنے کے حوالے سے غیر معمولی آسانیاں میسر ہیں تو پھر لوگ سیکھنے کی طرف مائل کیوں نہیں ہوتے۔ سیکھنے کے حوالے سے آج بیشتر معاشروں پر شدید نوعیت کا جمود طاری ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے صدیوں کی محنت کے بعد سیکھ لیا ہے کہ سیکھتے ہی رہنا ہے۔ سیکھتے رہنے ہی میں پیش رفت‘ ترقی‘ خوش حالی اور بقاء کا راز مضمر ہے۔ کوئی بھی معاشرہ ‘اُسی وقت آگے بڑھ پایا ہے جب اُس نے سیکھنے کو ترجیحات میں سرِ فہرست رکھا ہے‘ اگر ہم اپنے معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ لوگ باقی سب کچھ کرنے پر تو آمادہ ہیں‘ بس سیکھنے ہی کو تیار نہیں۔ سیکھنے کے حوالے سے عمومی ذہنیت اب تک پنپ نہیں پائی۔ یہ سب کچھ تن آسانی اور ذہنی الجھن کا نتیجہ ہے۔ پس ماندہ معاشروں کے لوگ مختلف شعبوں میں پیش رفت کے نتائج دیکھ کر کچھ نیا سیکھنے کے بجائے محض الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ سے مستفید ہونا آج کے انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں کے لوگ انٹرنیٹ کے ''دَھتّی‘‘ یعنی رسیا ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس سہولت سے زندگی کا معیار بلند کرنے کے بجائے لوگ محض تفریحِ طبع کے سمندر میں غوطے لگانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ 
کچھ نیا سیکھنے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے ذہن سازی آج کے دور کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے ‘مگر پاکستان جیسے معاشروں میں لوگوں کو سیکھنے پر مائل کرنا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ کچھ نیا سیکھنے میں زیادہ دلچسپی اِس لیے نہیں لی جاتی کہ اِس میں محنت بھی کرنا پڑتی ہے اور زندگی بسر کرنے کے انداز یا طریق کو تھوڑا بہت تبدیل بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی یہ عمل انسان سے غیر معمولی ایثار یا قربانی کا بھی طالب ہوتا ہے۔ لوگ پانا تو بہت کچھ چاہتے ہیں مگر کچھ کھونے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے۔ اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت و سکت کے ساتھ زندگی بسر کرنا کم و بیش ہر معاشرے کا معاملہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی اکثریت تو اوسط درجے کی ذہنی صلاحیت و سکت ہی کے ساتھ جینا چاہتی ہے اور ایسا ہی کرتی بھی ہے۔ پس ماندہ معاشروں کا معاملہ خطرناک حد تک پریشان کن ہے۔ سیکھنے کی لگن اِتنی کمزور ہے کہ حسّاس طبیعت کے حامل افراد یہ کیفیت دیکھ کر من ہی من کڑھتے رہتے ہیں۔ اِس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ 
آج کا انسان اپ ڈیٹنگ کا اسیر ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے شعبے سے متعلق تازہ ترین معلومات کا حصول ہی کافی ہے۔ محض اپ ڈیٹیڈ رہنا کافی نہیں۔ اصل مسئلہ اپ گریڈیشن کا ہے۔ معلومات کے حصول کی منزل سے آگے جاکر مہارت کا گراف بلند کرنا زیادہ ضروری‘ بلکہ ناگزیر ہے۔ جو لوگ اپ گریڈیشن کی اہمیت جانتے ہیں وہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے پر متوجہ ہوتے ہیں اور یوں بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں‘ مگر خیر ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ معاشرے میں اپ گریڈیشن کا کلچر پیدا کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثریت کو سیکھنے کی طرف مائل کرنا کھیل نہیں۔ لوگ ''سٹیٹس کو‘‘ کے ساتھ جینے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ نیا سیکھنے کے دردِ سر سے بچ سکیں۔ 
کسی بھی معاشرے میں سیکھنے کا کلچر اُسی وقت پیدا کیا اور پروان چڑھایا جاسکتا ہے ‘جب سکول کی سطح سے یہ تصور عام کیا جائے کہ زندگی بسر کرنے کا قابلِ رشک انداز وہی ہے ‘جو کچھ نہ کچھ نیا سیکھتے رہنے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ بچوں کو چھوٹی عمر سے سیکھنے کا عمل جاری رکھنے کی تحریک دی جانی چاہیے۔ سیکھنے کے عمل سے محبت کرتے ہوئے بڑے ہونے والے بچے مرتے دم تک خود کو اپ گریڈ کرنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ اس حوالے سے لٹریچر بھی عام کرنے کی ضرورت ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی زمانے میں شخصی ارتقاء کے حوالے سے بہت کچھ شائع کیا جاتا تھا۔ ایک بار پھر ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved