ملک میں گندم اور آٹے کا بحران جاری ہے۔ عوام آٹے کے لیے لمبی قطاروں میں لگے ہیں اور آٹا ہے کہ اس کی قیمت چڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں وزیراعظم عمران خان سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شریک ہیں۔ یہ فورم دنیا کے معاشی حالات پر غور کرتا ہے۔ اس میں حکومتوں کے سربراہوں کے علاوہ بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہان اور معاشی ماہرین شریک ہوتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس سے پہلے ہر سال غربت کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آکسفیم دنیا بھر میں غربت پر اعدادوشمار جاری کرتی ہے۔ آکسفیم کی اس سال کی رپورٹ میں دنیا میں معاشی عدم مساوات کی خوفناک تصویر کشی کی گئی ہے۔ عوامی مفاد یا ذاتی دولت کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 26 افراد کے پاس دنیا کے مجموعی طور پر 3.8 ارب افراد سے زیادہ دولت موجود ہے۔ یہ تعداد غربت کا شکار دنیا کی نصف آبادی ہے۔ دنیا بھر میں سماجی عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ برس کے دوران ارب پتی افراد کے اثاثوں میں 12 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ غربت کا شکار دنیا کی قریب نصف آبادی کو مزید 11 فیصد کا نقصان ہوا۔
سال 2008ء کے اقتصادی بحران کے بعد سے دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد قریب دو گنا ہو چکی ہے۔ ان کے اثاثوں میں محض 2018ء کے دوران قریب 900 بلین ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق 2017ء تا 2018ء انتہائی امیر لوگوں کی دولت میں روزانہ کے حساب سے 2.5 بلین ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ دوسری طرف دنیا کی آبادی کا نصف، غربت کا شکار آبادی، کی دولت میں اسی عرصے کے دوران روزانہ کی بنیاد پر 500 ملین ڈالرز کی کمی واقع ہوئی۔
آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے: اس سے ہمارے معاشرے کے بنیادی ڈھانچے کے زمیں بوس ہونے کا خطرہ ہے۔ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو عدم مساوات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے باعث نسل پرستی اور مرکزی دھارے کی سیاست سے بیزاری جیسے رجحانات پیدا ہو رہے ہیں۔ آکسفیم کے مطابق سماجی عدم مساوات کے خاتمے کے لیے انتہائی ضروری اقدامات میں عالمی سطح پر لوگوں کو مفت تعلیم، صحت اور سوشل سکیورٹی جیسی سہولیات فراہم کرنا لازمی ہیں۔ یہ تجویز بھی دی گئی کہ خواتین جو اپنے خاندان کی دیکھ بھال پر روزانہ کروڑوں گھنٹے لگا دیتی ہیں، انہیں اس سے آزاد کیا جائے تاکہ وہ مناسب روزگار حاصل کرکے اپنی معاشی حالت کو بہتر کر سکیں۔ ان تجاویز میں انتہائی امیر لوگوں اور اداروں پر لگے ناکافی ٹیکسوں کی صورتحال کو تبدیل کرتے ہوئے ان کی دولت اور کمائی پر مناسب ٹیکس لگانے کی بھی بات کی گئی ہے۔
سابق امریکی صدر بارک اوباما نے اقوام متحدہ میں بطور صدر آخری تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ''وہ دنیا کبھی بھی مستحکم نہیں رہ سکتی جہاں ایک فیصد لوگ بقیہ 99 فیصد کے برابر دولت کے مالک ہوں‘‘۔
دنیا میں ہمیشہ سے دولت مند اور غریب موجود تھے اور ازل سے غریب زیادہ اور امیر کم رہے ہیں لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ غریبوں کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے اور امیروں کی دولت کی شرح اسی تناسب سے بڑھ رہی ہے‘ اور ورلڈ بینک کے مطابق اس عدم مساوات میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی گندم کے بحران اور ورلڈ اکنامک فورم سے، فورم میں شریک وزیراعظم عمران خان معاشی حوالے سے کئی اہم ملاقاتیں کررہے ہیں۔ وہ قوم کو ریاستِ مدینہ کا ماڈل پیش کرتے ہیں لیکن ان کی حکومت میں بدانتظامی کی وجہ سے گندم کے بحران نے غریب طبقے کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس بحران کی ذمہ داری سرکاری محکموں کے علاوہ چند اہم سیاسی رہنماؤں پر عائد کی جا رہی ہے جن کے مفادات گندم اور شوگر ملوں سے جڑے ہیں اور وہی سیاسی رہنما تحریک انصاف کی زرعی پالیسیاں بنا رہے ہیں۔ ان سیاستدانوں نے گندم ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی بنائی اور ملکی ضروریات کا دھیان نہ رکھا۔ یہی سیاستدان زرعی پالیسیاں بناتے اور شوگر ملز چلاتے ہیں۔ گندم کے بعد چینی کا بحران سر اٹھا رہا ہے۔
معاشی مساوات کی جب بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سابق سوویت یونین کی طرح تمام قومی پیداوار ریاست کی ملکیت میں دے کر ہر ایک کو ایک مقررہ آمدن اور ایک جیسے گھر میں رہنے کا پابند بنایا جائے۔ یہ قطعی طور پر ایک غیر فطری تصور ہے جو ناصرف یہ کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے بلکہ عملاً بھی ناممکن ہے۔ ہر انسان ذہنی صلاحیت، قوتِ کار اور وسائل سے استفادہ کی استعداد کے لحاظ سے دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلام پیداوار کے قومی ذرائع سے استفادہ کا ہر شہری کو یکساں حق دیتا ہے اور قومی ذرائع سے استفادہ کے باب میں ترجیحات کا قائل نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شہری اس حق کو استعمال کرنے میں اپنی ذہنی صلاحیت اور قوت کار کے لحاظ سے دوسروں سے بڑھ جائے تو یہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کا ثمر ہے۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے دورِ خلافت میں بحرین سے بیت المال میں خاصا سامان اور دولت آئی۔ اس موقع پر یہ تجویز پیش کی کہ بیت المال سے وظائف اور اموال کی تقسیم میں ترجیحات قائم کی جائیں‘ لیکن یہ کہہ کر اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ فضیلت کا تعلق آخرت سے ہے، اس کا ثواب زیادہ یا کم آخرت میں ملے گا۔
اسلام نے معاشی نظام کو اس حد تک پابندکیا ہے کہ بنیادی ضروریات کے میدان میں معاشرے کے سب باشندوں کو برابر کے حقوق میسر ہوں۔ سب کم از کم پیٹ بھر کر سوئیں، بیماری کے عالم میں سب کو علاج کی کم ازکم سہولیات ضرور میسر ہوں، بغیرکسی تفریق کے سب بچوں کوکم ازکم بنیادی تعلیم کے مواقع حاصل ہوں وغیرہ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگرکسی بستی میں کوئی بھوکا سو گیا تو اس پر سے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ختم ہوگئی۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ ''روز قیامت اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بھوکا تھا‘ تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا؟ بندہ کہے گا یااللہ، تو تو بھوک سے پاک ہے، تب اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اور تجھے معلوم تھا پس اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو وہاں مجھے پاتا، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا‘ تو تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ بیمار ہو، اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو وہاں مجھے پاتا، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ میں ننگا تھا‘ تو نے مجھے کپڑے نہیں پہنائے؟ تب بندہ کہے گا کہ تو کیسے ننگا ہو سکتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ کہے گا‘ میرا فلاں بندہ ننگا تھا اگر تو اس کی سترپوشی کرتا تو وہاں مجھے پاتا۔(صحیح مسلم:2669)
ریاست مدینہ کو ماڈل بتانے والوں پر لازم ہے کہ وہ عوام کو پیٹ بھر کھانے کی فراہمی یقینی بنائیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی ضروریات کی اشیا کے لیے پالیسیوں کو پارٹی عہدیداروں کے مفادات سے الگ رکھا جائے۔ اس کے ساتھ اسلام نے بطور فرد ہر مسلمان پر بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنے آس پاس موجود معاشرے کے کمزور اور غریب افراد کی اپنی استطاعت کے مطابق مدد کرے۔
لنگر خانوں کی پالیسی اپنانے والے عوام کو لنگر کا محتاج نہ بنائیں اور نہ ہی امیر طبقات کو خیرات کی ترغیب دیں۔ دن بدن امیر ہوتے افراد لنگر خانے کھول کر حکومت اور عوام پر احسان کرنے کی بجائے ٹیکس ادا کریں۔ حکومت بھی بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے غریبوں سے نوالہ چھیننے کی پالیسی ترک کرے اور براہ راست ٹیکسوں پر توجہ دے۔ اسی صورت میں غریبوں کی بھلائی ممکن ہے۔ غربت میں کمی اور معاشی حقوق کے لیے حکومت عوام کو علاج اور تعلیم کی سہولیات مہیا کرے۔ ہسپتال شفاخانے کی بجائے دولت بنانے کی فیکٹریاں بنے ہوئے ہیں اور تعلیمی ادارے فروغ تعلیم کی بجائے پیسہ بنانے کی مشینیں بنے ہوئے ہیں۔ سرکاری سطح پر کم از کم تعلیم مفت اور بنیادی علاج بلامعاوضہ فراہم کرنے کے اقدامات ہی مدینہ جیسی ریاست کے قیام کی طرف پہلے قدم ہوں گے۔