آج کل سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ گزارے کا ہے‘ کیونکہ جس سے ملیے‘ وہ اسی کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے۔ اب‘ اس ملک میں دو ہی رونے رہ گئے ہیں ... بیوی کا رونا یا پھر گزارے کا رونا! اس کیفیت نے ہمیں کسی کا ہنستا گاتا قطعہ یاد دلادیا ہے: ؎
جسے بھی دیکھیے روتا ہے رونا اپنی بیوی کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آخر ماجرا کیا ہے
مزا تو جب ہے لے کر ہاتھ میں موٹا سا اک ڈنڈا
میاں بیوی سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اس گزارے کے مسئلے نے بہت سے اہم مسائل کو لپیٹ کر ایک طرف رکھنے پر مجبور کردیا ہے۔ سوچنے کی جو تھوڑی بہت صلاحیت قدرت نے عطا کی ہے‘ اُسے بروئے کار لاتے ہوئے ہم تو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاعر نے جو نسخہ بیوی کے حوالے سے بتایا ہے ‘وہ آپ استعمال کریں یا نہ کریں‘ گزارے کے معاملے میں یہ نسخہ ضرور آزمایا جاسکتا ہے۔
کئی احباب ہیں‘ جو گزارے کے موضوع پر بتیاتے بتیاتے ''بحثنے‘‘ لگتے ہیں۔ سب کا مشترکہ رونا یہ ہے کہ وسائل کم ہیں اور مسائل بہت زیادہ۔ ہم آج تک سمجھ نہیں پائے کہ یہ رونے کا معاملہ کب سے ہوگیا۔ روئے ارض پر کب ایسا دور گزرا ہے کہ مسائل کے مقابلے میں وسائل زیادہ رہے ہوں؟ ہر دور کے انسان کو انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑا ہے۔ بات تعمیل کی ہو رہی ہے‘ تخصیص کی نہیں۔ گزارے کا رونا اب‘ اس لیے زیادہ رویا جارہا ہے کہ انتخاب کا مرحلہ جاں گُسل ثابت ہو رہا ہے۔ حالات کا تقاضا کچھ بھی ہو اور زمینی حقیقتیں چاہے ‘ کچھ بھی چاہتی ہوں‘ لوگ اپنی مرضی کے مطابق ‘زندگی بسر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں اور اس بات سے اُنہیں بظاہر کچھ غرض نہیں کہ حقیقت پسندی کا سہارا لے کر معاملات کو کس حد تک درست کیا جاسکتا ہے۔
کوئی اگر ڈھنگ سے گزارا نہ ہو پانے کا رونا رو رہا ہو تو اُس سے چند منٹ گفتگو کیجیے۔ چند سوالوں کے جواب دیتے دیتے وہ اپنے مسائل کے سنگین ہو جانے کی وجوہ بھی بیان کردے گا‘ مثلاً؛ کسی کی تنخواہ 35 ہزار روپے ماہانہ ہے تو وہ آپ کو آٹھ دس ہزار روپے ماہانہ کرائے والے مکان میں آباد ملے گا۔ پوچھئے کہ تھوڑا بڑا مکان کیوں نہیں خرید لیتے یا اچھے علاقے میں کیوں نہیں رہتے تو جواب ملے گا ایسا کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیجیے‘ جواب تو خود ہی دے دیا۔ جو اصول کرائے کے مکان کے حوالے سے اپنا رکھا ہے‘ وہی اصول گھر کے راشن‘ بچوں کی تعلیم اور لباس وغیرہ کے حوالے سے بھی اپنانا لازم ٹھہرا۔ جب مکان کرائے پر لیتے وقت مالی حیثیت کو ذہن نشین رکھا جاتا ہے تو دیگر معاملات میں ایسا کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
ہمارا مشاہدہ ہے کہ لوگ معمولی سی آمدن پر بھی بچوں کو قدرے مہنگے سکول میں پڑھاتے ہیں۔ اگر دو بچے اسکول جاتے ہوں تو ماہانہ 40 ہزار روپے تک کمانے والا شخص مکان کا کرایا بھگتنے کے بعد بچوں پر سکول اور وین فیس کی مد میں بارہ تیرہ ہزار روپے خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کسی کو اس طرف متوجہ کیجیے تو وہ بچوں کی بہتر تعلیم کے حوالے سے جذباتیت کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ بچوں کی بہتر تعلیم سے کسے انکار ہے‘ مگر پاؤں تو چادر دیکھ کر ہی پھیلائے جانے چاہئیں۔ بچوں کے لیے سکول وہی منتخب کیا جائے ‘جو آمدن کی رینج میں ہو۔
عیدین یا خاندان میں شادی کے موقع پر ملبوسات کی تیاری یا خریداری کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ گھی‘ تیل‘ مصالحوں اور پھل سبزی وغیرہ کی مد میں تھوڑی بہت ڈنڈی مار کر جو کچھ بچاتے ہیں‘ وہ سوچے سمجھے بغیر بیک جنبشِ قلم ملبوسات‘ چپل‘ سینڈل وغیرہ پر لٹا دیتے ہیں۔ اگر انسان اخراجات میں توازن اور اعتدال برقرار نہ رکھ سکے تو بچت کی مشق لاحاصل ٹھہرتی ہے۔
شاعر نے ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ازدواجی زندگی کے معاملات درست کرنے کا جو نسخہ سُجھایا ہے ‘وہی نسخہ گھریلو بجٹ کے حوالے سے مطلوب نتائج پیدا کرسکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ آسانی سے گزارا کرلیا کرتے تھے۔ اس آسانی کا سبب یہ تھا کہ ٹیکنالوجیز نے ہوش رُبا رفتار سے ترقی نہیں کی تھی۔ بازاروں میں لگی بندھی اشیاء دستیاب ہوا کرتی تھیں۔ ایسی چیزیں کم تھیں ‘جنہیں دیکھ کر طبیعت خریدنے کو للچائے۔ لوگ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کی عادی تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ انسان کو وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنے کی تحریک دینے والی بہت سی اشیاء بازار میں با کثرت دستیاب ہیں اور اُن میں بھی مختلف حوالوں سے تنوّع اِس قدر ہے کہ انسان کے لیے اپنے جذبات پر قابو پانا خاصا جاں گُسل مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔
خیر‘ خریداری پر اُکسانے والی اشیاء و خدمات کی بہتات کو بہانے کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ آج کے انسان کا سب سے بڑا امتحان یہ ہے کہ اپنی آمدن کی حدود کے مطابق بجٹ تیار کرنے کے مرحلے سے گزرتا رہے اور کسی بھی مد میں غیر ضروری اخراجات سے دامن چھڑاتا رہے۔ وسائل‘ یعنی آمدن کی حدود میں رہتے ہوئے خرچ کرنے کی پختہ عادت اب تقریباً لازم ہوچکی ہے۔ معاشرہ مواقع سے بھی بھرا ہوا ہے اور مسائل بھی کم نہیں۔ ہر انسان کو ہمہ وقت منصوبہ سازی کا دامن تھامے رہنا ہے۔ جس نے ذرا سی بھی لاپروائی اپنائی اُس کی پتنگ کَنّوں سے کٹی سمجھیے۔ محسنؔ بھوپالی مرحوم نے خوب کہا ہے: ؎
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دِیے میں جان ہوگی وہ دِیا رہ جائے گا
آمدن کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ذاتی سطح پر غور و فکر کے ساتھ ساتھ مشاورت بھی لازم ہے۔ معاشرے میں ایسی ہزاروں‘ بلکہ لاکھوں مثالیں موجود ہیں کہ کسی نے اپنی آمدن کی حدود نظر انداز کیں اور برباد ہوگیا۔ ایسے لوگوں کے انجام سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کے ہاتھوں اب‘ معاملہ یہ ہے کہ لوگ کسی بھی معاملے میں اپنے وسائل کو ذہن نشین رکھنے کی مشق ترک کرچکے ہیں۔ بعض معاملات میں تو دانش کو خیرباد کہتے رہنے میں عافیت محسوس کی جارہی ہے۔ آن لائن خریداری کا رجحان تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ یہ رجحان گھریلو بجٹ کو غیر متوازن کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ سوال وہی ہے ... جذبات پر قابو پانے کا۔ لوگ میڈیا سے جہاں اور بہت کچھ سیکھ رہے ہیں ‘وہیں وسائل سے بڑھ کر خرچ کرنا بھی سیکھ رہے ہیں۔ جو چیز گھر کے نزدیک کسی بھی بڑی دکان پر آسانی سے اور کم قیمت میں دستیاب ہے ‘اُسے آن لائن خریدنا کسی بھی طور دانش مندی نہیں اور پھر معیار کی ضمانت بھی کہاں مل پاتی ہے؟
بہر کیف‘ بہتر انداز سے گزارا یقینی بنانے کے لیے بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ آمدن کی حدود میں رہنے کی عادت اپنائی جائے۔ ماحول میں بہت کچھ ہے‘ جو ہمارے پاس ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اضافی محنت کے ذریعے آمدن کا گراف بلند کرنا ہوگا۔ یہ خالص انفرادی معاملہ ہے ‘یعنی ہر شخص کو اپنے حالات کے مطابق منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے۔ محنت کی کمائی کو بے عقلی سے استعمال کرنے کی صورت میں معاملات الجھ جاتے ہیں اور کبھی کبھی کوئی معاملہ ایسا بگڑتا ہے کہ درستی میں زمانے لگ جاتے ہیں۔