اُس نے کھانا پینا اور بولناچھوڑ دیا تھا۔ وہ بھی صرف آٹھ سال کی عمر میں۔ وہ بیٹی تھی مغربی تہذیب کی‘ جہاں جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ فِگر (Figure) پہ بھی خاص نظر رکھی جاتی ہے۔ بیٹی کے والدین پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔اُن کی شدید پریشانی کی وجہ ایسپرجر سینڈروم کی ابتدائی بیماری تھی‘ جس میں جلد ہیSelective Mutism اورOCD (Obsessive Compulsive Disorder) کا اضافہ ہو گیا‘ لیکن گریٹا تھن برگ کے جینز ہار ماننے والے نہیں تھے۔ وہ فائٹر اور ہار نہ ماننے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
گریٹا تھن برگ سویڈن کے مشہورِ عالم شہر سٹاک ہوم میں 3جنوری2003ء کو پیدا ہوئی۔ اُس کی ماں میلانا ارنمین ہے‘ جو سویڈن کی ایک مشہوراوپرا سنگر ہے۔ گریٹا کے والدسوانتے تھن برگ ایکٹر ہیں۔ گریٹا کے دادا‘ اولوف تھن برگ مشہور اداکار‘ فلم ڈائریکٹر ہیں‘ اور حیات ہیں۔تھن برگ خاندان کی تاریخ 1903ء سے شروع ہوتی ہے۔ گریٹا کے دادائوں میں سے ایک مسٹرسوانتے ارہینیس تھے‘ جنہوں نے کرئہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی طرف انسانیت کی تو جہ مبذول کروائی تھی۔ گرین ہائوس ایفیکٹ پرقابلِ قدر کام کرنے کی وجہ سے انہیں 1903ء میں نوبل پرائز جیسے اعزاز سے نوازا گیا۔ وہ نوبل پرائز حاصل کرنے والے سویڈن کے پہلے شہری تھے ۔
گریٹا تھن برگ ابھی مشکل سے 12 سال کی ہوئی تھی کہ اُس نے اپنی بیماریوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ اگست 2015ء میں سویڈن کی پارلیمنٹ کے سامنے گلوبل وارمنگ کے خلاف پہلا احتجاج منظم کر دیا۔ گریٹا کے پلے کارڈ پر''سکول سٹرائیک فار کلائمیٹ ‘‘ جیسا دل آویز جملہ تحریر تھا۔ وہ اپنی مادرِ گیتی سویڈن کی بیٹی ہونے سے اُوپر اُٹھی اور 'مدر ارتھ‘ کی بیٹی بن کر آگے بڑھنا شروع ہو گئی۔ گریٹا کی دیکھا دیکھی جلد ہی سویڈن کے سکولوں کے طلبہ اور طالبات اُ س کے ساتھ شامل ہو نے لگے۔ پھر یہ معلوم تاریخ کی سب سے منفرد تحریک بن گئی۔ شروع میں اسے سکول کلائمیٹ سٹرائیک کہا گیا۔ بدلتے موسموں کی طرح یورپ کے بارڈرز اس تحریک کو روک نہ سکے۔ ''فرائیڈے فار فیوچر ‘‘ کے نام سے اس تحریک میں پچھلے دو برسوں میں دو سے زیادہ مرتبہ برطانیہ سمیت مختلف یورپی ملکوں میںایک ملین سے زائد طالب علموں نے اپنے کاغذ‘ پنسل اور کارڈ بورڈ سے اصلی ملین مارچ منعقد کیا۔
بال کی کھال اُتارنے والے مغربی میڈیا اور اس تحریک کے مخالف کاروباری سیٹھوں نے بھی مانا کہ ''فرائیڈے فار فیوچر ‘‘ والے مارچ میں شریک سٹوڈنٹس کی تعداد ایک ملین سے زیادہ رہی۔ گریٹا تھن برگ آج دنیا بھر میں کرئہ ارض کی سب سے بڑی تحریک کی سب سے مؤثر آواز ہے۔ اُس کی بولنے کی معذوری کی گرہ کھل گئی۔ اُس کے قدم اب نہیں لڑکھڑاتے ۔ اُس کے گونگے پن کوHow dare you?کی للکار نے لمحوں میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بھگا دیا۔ گریٹا تھن برگ لیڈر نہیںماحولیات بچائو مہم کی رضا کار ہے‘ لیکن دنیا کے سب سے بڑے ملک کے لیڈر اور دنیا کی سب سے طاقت ور اسلحہ انڈسٹری کے مالک اس لڑکی کی للکار سے لرزتے ہیں۔ تلوار جیسی دھار والی اس للکار کی طرف پھر واپس آئیں گے۔ آئیں‘ پہلے اپنی سر زمین ِپاک پر نگاہ ِ ندامت ڈا ل لیتے ہیں۔
یونائیٹڈ نیشنز فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (UNFAO) کے مطابق سرزمینِ پاکستان سے جنگلات کا صفایا ہو گیا ہے۔ 1947ء سے اب تک ایک لاکھ ہیکٹر سے زائدرقبہ سے جنگلات کاٹے جا چکے ہیں۔ اُن کی تازہ ترین رپورٹ کہتی ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میںصرف 2.2 فیصدایریا پر جنگلات ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہوا صرف 1.6ملین ہیکٹر (Hectare) پر جنگلات بچے رہ گئے ہیں۔ پاکستان کا کل Planted Area 3.4 ملین ہیکٹر ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا کل رقبہ 88.19ملین ہیکٹر ہے۔ اسی حوالے سے ایک انتہائی تشویشناک سروے کے مطابق پاکستان میں جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی کی شرح 0.2سے 0.5 فیصد سالانہ ہے۔
ظلم بر ظلم یہ کہ ہمارے ہاںدرختوں کے قتلِ عام کے بہانے ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ماحولیات اور درخت ہماری سوسائٹی اور سر زمین کاحرفِ غلط ہیں‘جنہیں مٹانا ضروری ہے۔ جنگلات کے بیباکانہ خاتمے کی پاکستانی رفتار دنیا میں بلند ترین شرح شمار ہوتی ہے۔ 2019ء کے ایک سروے کے مطابق ہر سال پوری دنیا کے ہمارے جیسے ملکوں میںملکِ یونان کے کل رقبے کے برابر جنگل کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ ڈی فاریسٹیشن کے اس غیر انسانی عمل کا ردِ عمل Re-forestationکی صورت میں دنیا بھر میں اُجاگر ہو رہا ہے‘ماسوائے پاکستان کے۔
2020ء کے پہلے مہینے میں سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس(Davos) میں برپا ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم کی تازہ ترین میٹنگ کے ایجنڈے نے دنیا کو جگانے کیلئے اہم ترین کوشش کی۔ گلوبل وارمنگ اور ماحولیات اس فورم اور اُس کے پیشِ منظر پر پوری طرح چھائے رہے۔ ساتھ ہی شاخِ زیتون جیسی دھان پان سی گریٹا تھن برگ اور امریکہ کے ''سجن بے پروا ‘‘ برانڈ صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ بھی شہ سرخیوں پر قابض ہیں۔
گریٹا نے عالمی رہنمائوں‘ صنعت کاروں‘ اسلحہ کے سودا گروں اور کنکریٹ کا جنگل اُگانے والوں کو ''دھو‘‘ کر رکھ دیا۔ گریٹا کا پچھلے سال والا جملہ ''تمہیں ماحولیات خراب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی‘‘ ماحول دشمن عناصر کا پیچھا چھوڑنے پر آمادہ نہیں لگتا‘ جن میں صدر ٹرمپ بھی شامل ہیں۔ جب صدر ٹرمپ سے گریٹا تھن برگ کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب سے صاف ظاہر ہوا کہ میڈیا کی ایجاد کردہ ''گریٹا ایفیکٹ‘‘ والی اصطلاح نے امریکن صدر کو بھی affect کیا ہے۔ گریٹا مئی 2019ء میں ٹائم میگزین کے کَور پر آگئی۔ جنوری 2020ء میںگریٹا پھر اُسی کوَر پر ہیں جہاں عمران خان سمیت پانچ ماحول دوست عالمی رہنمائوں کو دکھایا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے گریٹا ایفیکٹ سے بچنے کی اداکاری کی اور گریٹا کا ان لفظوں میںٹھٹھا اُڑایا۔ اپنے مخصوص انداز میں پوچھا:How old is she?۔ گریٹا کی عمر کے بارے میں اس طنزیہ سوال کا جواب دینے کیلئے پچھلے آٹھ سال میں گریٹا کو ملنے والے 8عدد عالمی ایوارڈ کافی ہیں۔
پچھلے سال گریٹا نے دنیا کے بااثر لیڈروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا دلیرانہ پیغام پہنچایا۔ کہا ''یکم جنوری 2018ء کو دنیا بھر میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے قابلِ اخراج ذخائر 450 گیگا ٹن تھے۔ آج 350 گیگا ٹن ہیں۔ اس رفتار سے اگلے 8.5 سال میں یہ ذخائر ختم ہو جائیں گے... دُنیا کے سارے ذی روح Mass Extinction کے دھانے پر ہیں۔ آپ کو دولت اور ہمیشہ بڑھتی معاشی ترقی کی ''فیری ٹیل‘‘ سے فرصت نہیں۔ How dare you?... اگر آپ مسئلے کی سنگینی کو جانتے ہیں۔ اس کے باوجود مسئلہ حل کرنے کیلئے قدم نہیں اُٹھاتے تو آپ اپنی ذات میں مجسم برائی (Evil) ہوں گے۔ لیکن میں یہ ماننے سے انکاری ہوں۔ You are failing us‘ لیکن نوجوان نسل آپ کے دھوکے سے آگاہ ہونا شروع ہو گئی ہے۔ مستقبل کی تمام نسلوں کی نظریں آپ پر ہیں۔ اگر آپ نے دنیا کا آنے والا کل محفوظ نہ بنایا تو ہم آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ اچھا لگے یا بُرا‘ ہم آج‘ یہاں‘ ابھی لکیر کھینچتے ہیں‘‘۔
آئیے غور کریں ہم لکیر کے کس طرف کھڑے ہیں؟ میں ہر سال بڑے ناموں کو شجر کاری پہ کالم لکھنے کیلئے کال کرتا ہوں۔ ''شکم کاری‘‘ کے کالم میں جواب آتا ہے۔ یہ سب پڑھ کر بھی جواب شخصی معیشت کی بحالی والا ہو گا؟
How dare you?