جن چند امور کی تلاش مستقل نوعیت کی ہے ‘اُن میں موزونیت بھی شامل ہے۔ کم و بیش ہر انسان مرتے دم تک موزوں ترین حالات کی تلاش میں رہتا ہے۔ معاملات معاشرتی ہوں یا معاشی‘ انسان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ موزونیت تلاش یا پیدا کرنے کا ہے۔ موزوں یا موافق حالات کی تلاش ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ ایسا ہو بھی کیسے؟
چینی کہاوت ہے کہ دانا وہ ہے‘ جو اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے سانچے میں اُسی طور ڈھالے‘ جس طور پانی کسی برتن میں ڈالے جانے پر اُس کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ ڈھنگ سے جینا اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ جب ہم اپنے وجود اور ماحول کے درمیان اشتراکِ عمل یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب ہم کسی بھی حوالے سے بلا جواز اکھڑپن کا مظاہرہ کرنے کی بجائے نرمی اختیار کریں اور جہاں جس قدر تبدیل ہوا جاسکتا ہو‘ تبدیل ہوا جائے!
عمر کے ہر مرحلے میں انسان کو ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ضرورت‘ جس قدر شدید ہو‘ اُسی قدر زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے‘ جو لوگ جامعیت یقینی بنانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں‘ اُنہیں کبھی سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں ملتا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ دنیا ہر آن تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر ماحول میں اتنی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ کوئی بھی معاملہ کسی منزل میں زیادہ دیر نہیں رکتا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ جامعیت یقینی بنانے والوں کا دردِ سر کئی گنا ہوگیا ہے۔ معروف ادیب ڈبلیو سمرسٹ ماہم نے کہا تھا کہ جامعیت دراصل ماحول کے تقاضوں کے مطابق تبدیل ہوجانے کے سوا کچھ نہیں ‘تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحول ہر آن تبدیل ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جامعیت عبوری دور یا مرحلے کی سی حیثیت رکھتی ہے!
آج کی دنیا میں بھرپور موزونیت یقینی بنانا بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے تو یہ طے کرنا ہے کہ موزونیت ہے کیا۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ تادیر یہی نہیں سمجھ پاتے کہ موزونیت ہوتی کیا ہے‘ یعنی کسی بھی ماحول کے مطابق ہونے کے لیے دراصل کرنا کیا ہے۔ ہر شعبے میں تبدیلیاں اتنی تیزی سے رونما ہو رہی ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے تمام تبدیلیوں کو منہ دینا ممکن نہیں رہا۔ کئی شعبوں کا تو یہ حال ہے کہ محض ہفتوں میں صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ ایسے میں موزونیت کا تعین کس طور کیا جائے اور موزونیت کس طور یقینی بنائی جائے؟
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں‘ جس میں قدم قدم پر انتشار کی کیفیت ہے۔ یہ انتشار فکر اور عمل دونوں میں ہے۔ لوگ یومیہ بنیاد پر بھی انتشار کا شکار ہوتے ہیں اور مستقل بنیاد پر بھی۔ انتشار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایک شعبہ بھی کوئی ایک مستقل شکل یا ہیئت اختیار نہیں کر پاتا۔ بہت کچھ ہے ‘جو بدلتا رہتا ہے اور یہ تبدیلیاں معاملات کو کچھ کا کچھ بناتی رہتی ہیں۔ آج اگر کوئی کسی ایک شعبے میں نام کمانا چاہتا ہے تو لازم ہے کہ متعلقہ شعبے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں ‘یعنی پیش رفت پر نظر رکھے اور جہاں تک ممکن ہو‘ ان تبدیلیوں کا ساتھ دے۔
ہر دور چند خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی بھی اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔ اس صدی میں سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ انسان کی تین ساڑھے تین ہزار سال کی علمی و فنی میراث کا نچوڑ سمجھی جانے والی اکیسویں صدی در حقیقت ماضی کی پوری میراث پر پانی پھیرتی بھی دکھائی دے رہی ہے۔ آج بیشتر شعبے شدید انتشار کی زد میں ہیں۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیش رفت کی رفتار اس قدر ہے کہ کسی بھی شعبے کو تادیر متوازن رکھنا ممکن نہیں رہا۔ جو پیش رفت کسی بھی شعبے کی ترقی کی ضامن ہوا کرتی تھی‘ وہی اب انتشار اور زوال کا باعث بن رہی ہے۔ کسی بھی شعبے میں چند ایک بڑے اداروں کے سوا کسی کیلئے قدم جمائے رکھنا ‘انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔
ایک دور تھا کہ ماہرین بھرپور ترقی کے لیے نظم و ضبط کی پابندی لازم قرار دیا کرتے تھے۔ نظم و ضبط کا پابند ذہن ایک ڈگر پر چلنا ممکن بناتا تھا۔ یہ سب کچھ اب نہیں چل سکتا۔ آج نظم و ضبط کی کچھ خاص ضرورت نہیں رہی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پورا ماحول ہی آزاد انداز کا ہے۔ کسی بھی شعبے میں نظم و ضبط کی پہلی سی سختی اور پابندی زیادہ کارگر نہیں رہی۔ جیمز تھربر کہتے ہیں کہ آج کے انتشار زدہ اور نظم و ضبط سے عاری دور میں وہ ذہن زیادہ اچھی طرح کام کرسکتا ہے ‘جو نظم و ضبط کے بندھن میں زیادہ جکڑا ہوا نہ ہو‘ ایسا ذہن حالات کے مطابق خود کو زیادہ تیزی سے تبدیل کرسکتا ہے۔
ہم ایک ایسے عہد کے امین ہیں ‘جس میں کسی بھی معاملے کی نوعیت یا حیثیت مستقل نہیں۔ منظر نامے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ایسے میں ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ جامعیت کی تلاش رہتی ہے۔ اپنے وجود کو ماحول کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اب سبھی کیلئے ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ کوئی امیر ہو یا غریب‘ آجر ہو یا اجیر ‘ سبھی کے لیے لازم ہے کہ اپنے آپ میں ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابقت پیدا کریں!
اب یہ بات تو طے ہے کہ بہت کچھ ہے ‘جو ہماری مرضی کے مطابق نہیں۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں ‘وہ سب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہماری خواہشات کچھ ہوتی ہیں اور ماحول کے تقاضے کچھ اور۔ یہ اختلاف ہی دنیا کو آگے بڑھاتا ہے۔ اس دنیا میں جو کچھ بھی پایا جاتا ہے‘ وہ سب کا سب ہمارے ذوق کے مطابق نہیں ہوسکتا۔
معاملات بہتر بنانے کا آغاز نئی نسل سے کیا جانا چاہیے۔ آج کی نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اس لیے اُسے بھی ہر سطح پر اور ہر طرح کی تبدیلی کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ بچوں کو ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی تربیت دینا قدرے آسان ہے۔ وہ نئے سانچے میں تیزی سے ڈھل جاتے ہیں‘ اگر بچوں کو مستقل بنیاد پر سمجھایا جاتا رہے کہ اُنہیں ہر معاملے میں بے جا اختلاف کے اظہار سے گریز کرکے ماحول سے مطابقت اور موزونیت پیدا کرنی چاہیے‘ تو اُن کی بہتر تربیت ممکن ہوسکتی ہے اور وہ مستقبل کیلئے زیادہ اچھی طرح تیار ہوسکتے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں‘ جس میں اختلاف کی گنجائش ضرور موجود ہے‘ مگر اس قدر نہیں کہ انسان اپنی بات پر اَڑ جائے تو اَڑا ہی رہے۔ لازم ہے کہ وقت کے تقاضوں کو نبھانے کی بھی بھرپور کوشش کی جائے اور حالات سے مطابقت پیدا کرنے پر غیر معمولی توجہ دی جائے۔ یہ مسئلہ دنیا کے ہر انسان کا ہے۔ معاشی اور معاشرتی حیثیت خواہ کچھ ہو‘ ہر انسان کو ماحول کی آواز پر متوجہ ہونا ہی پڑتا ہے۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ نہ کرے اور کامیابی کی راہ پر تیزی سے بڑھتا چلا جائے۔ آج کی دنیا ہم آہنگ ہونے والوں کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ کاروباری دنیا میں اس بات کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کہ غیر ضروری طور پر اختلافِ رائے رکھنے والوں کو کسی بھی حال میں سیٹ اپ کا حصہ نہ بنایا جائے۔ غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ غیر ضروری اختلافِ رائے رکھنے والوں کو تو ہر دور میں ناپسند کیا جاتا رہا ہے۔ ایسے میں آپ کے پاس موزونیت ‘یعنی حالات کے مطابق‘ تبدیل ہونے کے سوا کوئی بھی پُرکشش آپشن نہیں بچتا!!