بڑے خواب کے لیے کشتیاں جلانا پڑتی ہیں: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''بڑے خواب کے لیے کشتیاں جلانا پڑتی ہیں‘‘ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ سب سے پہلے اس کام سے فارغ ہوں جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ سخت سردی کے اس موسم میں جبکہ گیس بھی نہیں آ رہی اور بجلی بھی نہ ہونے کے برابر ہے‘ کشتیاں جلا کر یہ آگ سیکی جا سکتی ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ چپُو بھی جلا کر اضافی گرمی اور تپش حاصل کی جا سکتی ہے اور اگر یہ لکڑی ختم ہو جائے تو صبر کریں اور اگر سکون درکار ہو تو مرنے کی تمنا کریں کہ قبر میں جا کر سکون حاصل کر سکیں کیونکہ آخر ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ اور اگر مزید زندہ رہے تو اپنے گناہوں ہی میں اضافہ کرتے رہیں گے اور دوزخ میں اپنا گھر بناتے رہیں گے کیونکہ یہاں پر فیاض حضرات نے پناہ گاہوں کے لیے چندہ وغیرہ بند کر دیا ہے۔ اس لیے اگر پناہ گاہیں اور لنگر خانے بھی بند ہوگئے تو اس صورت میں موت کو گلے لگا لینا ہی بہترین آپشن رہ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز ڈیووس میں گفتگو اور خطاب کر رہے تھے۔
حمزہ شہباز کھڑکیاں دروازے کھولنے کی
باتیں سوچ سمجھ کر کریں: فیاض الحسن چوہان
وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''حمزہ شہباز کھڑکیاں دروازے کھولنے کی باتیں سوچ سمجھ کر کریں‘‘ کیونکہ چوری چکاری کا زمانہ ہے بلکہ راج ہے‘ جس پر حکومت کا بھی کوئی بس نہیں چل رہا اور کھڑکیاں دروازے کھلے رکھنے کا صاف مطلب چوروں‘ ڈاکوئوں کو دعوت دینا یعنی آ بیل مجھے مار ہے‘ جبکہ بیل کو آج کل مارنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘ حالانکہ اس کا اصل کام ہل چلانا یا سہاگہ وغیرہ پھیرنا ہے یا کولہو چلانا ہے جبکہ کولہو کا بیل تو باقاعدہ محاورہ ہو چکا ہے‘ کم از کم ایسے محاوروں کا ہی کچھ خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ہماری اردو زبان تو غلط استعمال سے پہلے ہی ختم ہونے کے قریب ہے اور ٹی وی اینکروں سے لے کر اہلِ سیاست تک سب نے زبان کی اس بربادی میں اپنا حصہ ڈال رکھا ہے جبکہ بیان دیتے وقت حمزہ شہباز کو صحتِ زبان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں حمزہ شہباز کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا جواب دے رہے تھے۔
ٹرانسپیرنسی نے وزیراعظم سے ان کی باتیں چھین لیں: مولا بخش چانڈیو
پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ''ٹرانسپیرنسی نے عمران خان سے ان کی باتیں چھین لیں‘‘ اور یہ سیدھی ڈکیتی ہے اور اگر عمران خان کی حفاظت کا یہ عالم ہے تو عام لوگوں کی حفاظت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے اور اگر ملک کا وزیراعظم اس ڈکیتی کا متحمل ہو سکتا ہے تو یہ بھی ان کی نا اہلی اور نالائقی ہے بلکہ موصوف نے چور اور ڈاکو کی جو رٹ لگا رکھی تھی یہ اس کا بھی رد عمل ہو سکتا ہے‘ حالانکہ ہم دو بڑی پارٹیوں کے سربراہان پر ڈکیتی کا الزام بالکل غلط ہے کیونکہ انہوں نے کسی سے پیسے چھیننے کی بجائے اپنی مہارت اور ہنر مندی کو بروئے کار لاتے ہوئے حاصل کیے ہیں جس کی باقاعدہ داد دینی چاہیے کیونکہ ایک ایک اکائونٹ کو سینکڑوں مرتبہ گھمانا پھرانا کوئی معمولی کام نہیں ہے‘ اس جانکاری پر داد دینے کی بجائے الٹا ان معززین سے حساب مانگا جا رہاہے۔ آپ اگلے روز لاہور کے ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
جناب محمد صغیر قمر نے آج اپنے کالم ''چنار کہانی‘‘ میں احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
سنتے ہیں سمندروں کے اُس پار
اقوام متحدہ کی اک انجمن ہے
اس کا دوسرا مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے جو غالباً اس طرح سے ہے ع
اقوام متحدہ اک انجمن ہے
بلکہ مصرع کا وزن اس طرح بھی پورا رہتا ہے ع
اقوام متحدہ انجمن ہے
اگرچہ اس طرح بھی ''اقوام متحدہ‘‘ وزن میں نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی ''متحدہ‘‘ کی ''م‘‘ زائد ہے۔ قاسمی صاحب ایسی غلطی کر تو نہیں سکتے‘ تاہم ہماری طرح وہ بھی بندہ بشر ہی تھے۔
اور‘ اب آخر میں اسے ہفتے کی تازہ غزل:
نہیں کہ ہم کوئی شے واجبی نہیں رکھتے
زیادہ چاہیے ہے جو وہی نہیں رکھتے
تو پھر یہ نالہ و فریاد کس لیے ہے جو ہم
کوئی امیدِ ملاقات بھی نہیں رکھتے
جو حوصلہ ہے ترے ساتھ بات کرنے کا
کبھی تو رکھتے ہیں لیکن کبھی نہیں رکھتے
ہم اس کے پھولنے پھلنے سے ڈرتے رہتے ہیں
سو‘ آپ شاخِ تمنّا ہری نہیں رکھتے
چھپا رکھا ہے اسے دوسری ضرورتوں میں
وہ خاص ایک ضرورت کھُلی نہیں رکھتے
اثر نہ ڈال سکے کوئی رنگ بھی ہم پر
جناب‘ ایسی بھی ہم سادگی نہیں رکھتے
ہمارے پاس وہ ہوتے ہی کب ہیں‘ جانِ عزیز
ہم اپنی جیب میں پیسے تبھی نہیں رکھتے
ہمارے پاس ہے جو کچھ وہ آپ ظاہر ہے
نہیں جو رکھتے ہیں وہ واقعی نہیں ہے
فضول شور مچایا ہوا ہے کیا یہ ظفرؔ
کہ سب کا سب تو یہاں پر سبھی نہیں رکھتے
آج کا مقطع
یہاں پہ جھوٹ ہی و ہ سکۂ رواں ہے، ظفر
جو ایک بار نہیں بار بار چلتا ہے