تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     25-01-2020

خودکشی… (3)

ذہنی تکلیف کیا ہوتی ہے ‘ یہ وہی انسان سمجھ سکتاہے جو خوداس سے گزرے یاوہ ڈاکٹر جو اس شخص کا علاج کرے۔ اس کے علاوہ وہ شخص بھی کسی حد تک اسے سمجھ سکتا ہے جو ان مریضوںسے مل کر ان کی زندگیوں کا جائزہ لے ۔ شرط یہ ہے کہ اس میں آبزرو کرنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ یہ بات درست ہے کہ خوفناک حالات انسان کی نروز توڑدیتے ہیں‘ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ نفسیاتی بیماریاں جینز میں ہوتی ہیں ۔ ایک شخص ہے ‘ جسے سب کالا‘ موٹا اور بدصورت کہتے رہیں ‘ اسے کوئی پروا نہیں ہوتی۔ دوسراصرف اپنے چھوٹے قد کی وجہ سے ہی مرنے والا ہو جاتا ہے ۔ میں نے ایک عجیب بات یہ نوٹ کی کہ جن لوگوں کی زندگی میں ابنارمل بچوں جیسی انتہائی بڑی آزمائشیں ہوتی ہیں‘ان کی ایک بڑی اکثریت غیر معمولی پُرسکون ہوتی ہے ۔ دوسری طرف بے شمار لوگ ایسے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں پہ زندگی سے تنگ آئے ہوتے ہیں ۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ دیکھنے میں توسب گوشت پوست کے انسان ہیں‘ لیکن خدا نے ہر بندے کی استطاعت(Capacity) اس کے دماغ میں مختلف رکھی ہے ۔پریشانیوں کا وزن اٹھانے کی اس استطاعت کے مطابق ہی خدا انسان پر بوجھ ڈالتا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی دو انسانوں کی یہ استطاعت ایک جیسی نہیں ہوتی ۔ کچھ لوگ تو ابرہام لنکن اور قائدِ اعظم کی طرح پوری قوم کا بوجھ اٹھا لیتے ہیں اور ذاتی زندگی کے حادثات کو ذرّہ برابر اہمیت نہیں دیتے۔ دوسری طرف انسانوں کی اکثریت چھوٹے چھوٹے ذاتی مسائل پہ گریہ کناں رہتی ہے ۔ 
خودکشی کا رجحان رکھنے والوں میں ایک بات سب سے زیادہ اہم ہے ۔ جو شخص خودکشی پر تلا ہوا ہے ‘ وہ کسی اچھے ماہرِ نفسیات کو جا کر بتادے کہ آج میں نے خودکشی کرلینی ہے ‘ زندگی انتہائی حد تک اذیت ناک ہو چکی ‘ اگر خودکشی سے روکنے کا کوئی حربہ آپ کے پاس ہے تو آزما لیجیے ۔ وہ ماہرِ نفسیات اسے مناسب دوافوراً دے دیتا ہے ‘ کچھ دیر میں وہ بندہ مکمل طور پرپرُ سکون ہو جاتاہے ۔ اب وہ اس کی کونسلنگ شروع کرتا ہے ‘ اسے یہ امید دلاتا ہے کہ زندگی دوبارہ سے اچھی ہو سکتی ہے‘ تو اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ وہ خودکشی سے رک جائے گا‘ اس لیے کہ زندہ رہنے کی خواہش جبلی طور پر ہر جاندار میں رکھی گئی ہے ۔ اگر اذیت کم کر دی جائے تو زندہ رہنے کی جبلی خواہش دوبارہ انگڑائی لے کر بیدار ہو جائے گی ۔ 
میڈیکل سائنس تو اللہ کا ایک معجزہ ہے ‘ کرشمہ ہے اور نعمت ہے ۔ ایک وقت تھا جب نظر کمزور ہو جانے والے کو جلد ہی موت کے گھاٹ اترنا پڑتا تھا کہ اس دور میں جسمانی تگ و تاز ہی سب کچھ تھی ۔ آج ہر دوسرا بندہ عینک لگا کر نارمل زندگی گزار رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ٹی بی کا مطلب یقینی موت تھا ۔ میڈیکل سائنس کے وسیلے سے اب غربا کے بچے بھی خیراتی ہسپتالوں سے صحت یاب ہو جاتے ہیں ۔ انسانی ذہن اپنی اس جبلت کے تحت فیصلے صادر کر رہا ہوتاہے ‘ جو اس وقت غالب ہوتی ہے ۔ جتنی دیر غصے کے کیمیکلز ریلیز ہورہے ہوتے ہیں ‘ اتنی دیر سارے فیصلے غصے کی روشنی میں ہوتے ہیں ‘لیکن جب کچھ گھنٹوں بعد غصہ اتر جاتا ہے تو پھر ندامت کیوں ہوتی ہے ؟ وہی بندہ جودوسرے کو دنیا کا ظالم ترین شخص ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا ‘اب اسی سے معافی مانگ رہا ہوتاہے ؟ اسی طرح انسان کے حواس پر خودکشی کا خیال غالب تو ہوتاہے ‘لیکن جیسے ہی ادویات کی مدد سے وہ کیفیت کم ہوتی ہے تو زندگی قائم رکھنے کی ازلی جبلت غالب آجاتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پرُ سکون بھی ہو جاتا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ مناسب ادویات اور کونسلنگ میسر آجائے تو انسان خودکشی سے بچ سکتا ہے ۔ جہاں تک رہی بدنامی کی بات کہ یہ شخص ماہرِ نفسیات سے علاج کرا رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب تو ہر بندہ ہی کچھ نہ کچھ ہلا ہوا ہے ۔ مکمل طور پر نارمل لوگ اگر دنیا میں کثرت سے پائے جاتے تو کیا آج یہ دنیا تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہوتی؟ امریکہ اور روس جیسی دو سپر پاورز کئی دہائیوں تک ہزاروں ایٹمی ہتھیار بنا کر ایک دوسرے کوتباہ کردینے کی کوشش کرتی رہیں ۔یہ ہتھیار اس قدر خوفناک ہیں کہ کرّہ ٔ ارض سے زندگی مٹ سکتی ہے ۔ ایک شخص اپنے بہن بھائیوں کی جائیداد ہتھیا لیتا ہے تو کیا وہ صرف اس وجہ سے نارمل قرار دے دیا جائے کہ وہ کبھی ماہرِ نفسیات کے پاس نہیں گیا۔ کیا لالچ نے اسے پاگل نہیں کر دیا ؟ کیا جنگی جنون میں مبتلا بھارت نارمل ہے ؟ اسے تو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کو جنگ پہ اُکسا کر وہ اپنے ساتھ کیسا عظیم ظلم کرنے جا رہا ہے ۔ 
ماہرینِ نفسیات کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ وہ کتنے مریضوں کو اپنا آپ سنبھالنے کے قابل بنا رہے ہیں ؟ہر مریض کو سلا دینا اور سلائے رکھنا کوئی کامیابی نہیں ۔ بتدریج انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہیے ۔گوکہ دس میں سے دو یا تین مریض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو بہتری کی سٹیج سے گزر چکے ہوتے ہیں ۔ 
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلسل ذہنی دبائو کا حل صرف اپنی قوتِ ارادی کو مضبو ط رکھنا ہے ‘ وہ غلط ہیں ۔ جتنا میں جانتا ہوں ‘ اس کے مطابق بہت سے کیسز میں ذہنی دبائو کینسر یا ذیابیطس کی طرح ہوتاہے ۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ اندر ہی اندر آپ کو کھا تا چلا جائے گا ۔ 
جو شخص ذہنی دبائو یا زندگی میں کسی بھی مسئلے کا شکار ہے ‘ اسے خود کو حالات کے حوالے کرنے کی بجائے ہاتھ پائوں مارنا چاہئیں ۔ حالات کے مارے ہوئے انسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ ایک تاریک غار میں بیٹھ کر وہ اپنے زخم چاٹتا رہے اور دنیا والوں سے کہہ دے کہ ایک دن میں لوٹ کر آئوں گا ۔سب سے بڑ امرہم تو خود وقت ہی ہے ۔ خدا کی یہ عظیم رحمت کہ آہستہ آہستہ غم میں کمی آنے لگتی ہے ‘ بالآخر وہ شخص بھی مسکرانے لگتا ہے جو اپنے بچّے کی موت سے ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔پھر اس کے ہاں ایک نیا مہمان جنم لیتا ہے ‘ زندگی پھر سے گل و گلزار ہو جاتی ہے ۔ 
ایک بہت بڑے ماہرِ نفسیات سے ملاقات ہوئی ۔پوچھا : کیا لوگ آپ کے پاس آنے سے گھبراتے ہیں ؟ کہا :بیمار لوگ میرے پاس اس طرح چھپ کر آتے ہیں ‘ جیسے وہ بازارِ حسن جا رہے ہوں ۔ انہیں معلوم ہوتاہے کہ ریلیف توملے گا‘ لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان کا چہرہ نہ دیکھے۔ ''ـNobody wants to be seen‘‘۔ 
لوگ خودکشی اس لیے بھی کرتے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ اذیت بن چکا ہوتاہے ۔ جس دماغ نے راستہ تلاش کرنا ہے ‘ وہ خود بیمار ہوتا ہے ۔ ان کے اندر جدوجہد کرنے کی کوئی طاقت باقی نہیں ہوتی ۔ علاج سے یہ طاقت واپس آسکتی ہے۔ جب کوئی انسان خودکشی کرتا ہے تو شیطان بہت خوش ہوتا ہے ۔ یہ اس کے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ ایک انسان رحمتِ خداوندی سے مکمل مایوسی کا اظہار اپنی جان دے کے کر دے ۔ شیطان کمزور اعصاب کے لوگوں کو اس بات پہ قائل کرنے کی کوشش کرتاہے کہ تم اتنے بڑے گناہ کر چکے ہو کہ انسانیت کے درجے سے گر چکے ہو ؛لہٰذا اب خودکشی کر لو...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved