تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-01-2020

سرخیاں‘ متن اور ابرارؔ احمد کی تازہ نظم

صوبوں کے حقوق چھین لیے گئے‘ حکومتی فیصلے
سہولت کاروں کے لیے ہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''صوبوں کے حقوق چھین لیے گئے‘ حکومتی فیصلے سہولت کاروں کے لیے ہیں‘‘ جبکہ ہمارے سہولت کاروں کی نا صرف پکڑ دھکڑ جاری ہے ‘بلکہ انہیں وعدہ معاف گواہ بھی بنایا جا رہا ہے؛ حالانکہ سہولت کاروں کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے اور ان میں تفریق نہیں کرنی چاہیے‘ کیونکہ اس پر بروزِ حشر اللہ میاں کی پکڑ ہوگی ‘جو حکومت کی پکڑ دھکڑ سے کہیں زیادہ سخت ہو گی‘ جبکہ حکومت سے بھی اس روز پورا پورا حساب لیا جائے گا کہ معززین کو پریشان کرنے سے تمہیں کیا حاصل ہوا ہے‘ بلکہ نواز شریف حکومت کو ایک پیسہ بھی دیئے بغیر لندن میں موجیں کر رہے ہیں اور خاطر جمع رکھئے ہم سے بھی اسے کچھ نہیں ملنے والا ‘کیونکہ خون پسینے کی کمائی میں کسی کو خواہ مخواہ حصے دار نہیں بنایا جا سکتا‘ بلکہ یہ کفرانِ نعمت ہی کہلائے گا‘ جس سے زیادہ ناشکری کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنما سید حسن مرتضیٰ سے ٹیلیفون پر گفتگو کر رہے تھے۔
حکمران ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے بعد کیا منہ دکھائیں گے: شہباز 
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''حکمران ٹرانسپیرنسی رپورٹ کے بعد کیا منہ دکھائیں گے‘‘ جبکہ اسے کہتے ہیں حقِ نمک ادا کرنا اور ہمارے نمک خوار ملک میں ہر محکمے میں بھرے پڑے ہیں‘ اسی لیے ہمیں ہر طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آ رہی ہیں؛ اگرچہ اس موسم میں ٹھنڈی ہوائوں کا کوئی تک نہیں بنتا اور گرم ہوائوں کی ضرورت ہوتی ہے ‘اس لیے نمک خواروں اور وفاداروں کو چاہیے کہ ہوائیں بھیجتے وقت موسم کا لحاظ ضرور رکھ لیا کریں ‘جبکہ موجودہ مذکورہ ہوائوں کی وجہ سے ہم یہاں لندن میں بری طرح ٹھٹھر رہے ہیں‘ بلکہ بھائی صاحب کے تو اس وقت سے دانت ہی بج رہے ہیں اور ان سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اگلے ہفتے نواز شریف کو ہسپتال میں داخل کیا جائے گا: حسین نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مفرور صاحبزادے حسین نواز نے کہا ہے کہ ''اگلے ہفتے نواز شریف کو ہسپتال میں داخل کیا جائے گا‘‘ جس پر وہ تو تیار ہی نہیں ہو رہے تھے‘ پھر ہم نے انہیں سمجھایا کہ جو کچھ ہسپتال سے باہر کیا کرتے ہیں‘ وہ سب کچھ آپ ہسپتال کے اندر بھی کر سکتے ہیں‘ دوڑ لگا سکتے ہیں‘ بیٹھکیں نکال سکتے ہیں‘ ڈنٹرپیل سکتے ہیں‘ کسی ملازم پر ناراض ہو کر اسے زد و کوب بھی کر سکتے ہیں؛ حتیٰ کہ ہسپتال میں اپنا پرہیزی کھانا بھی جاری کر سکتے ہیں‘ نیز آپ کو ہسپتال میں اس لیے بھی داخل کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں آپ کی بیماری کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی کے ورکرز بند کمروں میں ماتم کر رہے ہیں: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی کے ورکرز بند کمروں میں ماتم کر رہے ہیں‘‘ جبکہ ہمارے ورکرز تو سرعام ماتم کرتے ‘ سر پیٹتے اور سر کے بال نوچتے نظر آتے ہیں کہ یہ تو ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی تھی‘ جس پر دوسروں نے قبضہ کر رکھا ہے؛ حالانکہ یہ بات بند کمروں میں بیٹھ کر بھی کی جا سکتی ہیں‘ نیز ہماری قیادت ایک دمڑی تک دینے کو تیار نہیں‘ بلکہ کئی دوسروں کے گِٹوں گوڈں میں بھی بیٹھ جائیں گے؛ حالانکہ بیٹھنے کیلئے انہیں کرسیاں دستیاب ہیں ۔ آپ اگلے روز خیرپور میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرارؔ احمد کی یہ نظم:
کیا کروں---؟
میں اس خامشی کا کروں کیا
جو مجھ سے سدابات کرتی ہے
کرتی ہی رہتی ہے
اور آنسوئوں کا
جوہنستے ہوئے بھی
مری آنکھ میں تیرتے ہیں
میں --- مصروفیت کا کروں کیا
کہ جس میں
فراغت کی نا مختتم بے دلی ہے
کروں کیا‘ میں اس بے گھری کا
جو میرے تعاقب میں
روزِ ازل سے چلی آ رہی ہے
کروں کیا‘ میں اس خالی پن کا
جو کھانے کو آتا ہے
اس شور کا
جس کے باطن میں
گہری خموشی کی ہیبت چھپی ہے
تمہارا کروں کیا
ادھیڑے چلے جا رہے ہو مجھے
کروں کیا
میں اس بے نہایت محبت کا
وارفتگی سے جو بڑھتی ہے
مجھ سے لپٹنے کی خاطر
تو منہ موڑ کر
میں کہیں جا نکلتا ہوں
ویران ٹیلوں کے پیچھے
تڑپتی ہوئی ریت میں
چیخنے کے لیے---!
آج کا مقطع
دہشتِ خلق ہی اتنی تھی ہمارے ہر سُو
ہم نے گھبرا کے ظفرؔ خوفِ خدا چھوڑ دیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved