سورۃ الحجرات میں فرمانِ خداہے ''اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو‘‘۔ سوئٹزر لینڈ‘ جہاں دنیا بھر کے لٹیروں‘ منی لانڈررز اور میگا پراجیکٹس سے وصولیاں کرنے والے کمیشن خوروں کے لوٹے ہوئے اربوں ڈالرز ذخیرہ کئے جاتے ہیں‘ وہاں منعقد ہونے والی ورلڈ اکنامک فورم میں وزیر اعظم عمران خان جب اپنے سامنے بیٹھے ہوئے حاضرین کو بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ اپنے صرف ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں انہوں نے ملک میں بڑی سطح پر ہونے والی کرپشن پر70فیصد سے زیا دہ قابو پا لیا ہے تو ہال ان کے لیے تعریفی تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ ان کا خطاب ختم ہوا تو ان کی شخصیت کے سحر میں ڈوبا ہوا بین الاقوامی میڈیا اور عالمی رہنما ایک خوشگوار احساس لیے بڑی گرم جوشی سے ابھی ان خیالات کو سراہ ہی رہے تھے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے '' سرجیکل سٹرائیک‘‘ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر دیا گیا کہ معزول وزیر اعظم نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان حکومت کے ایک سال میں کرپشن پہلے سے بڑھ گئی ہے ۔ابھی وزیر اعظم عمران خان کی ورلڈ اکنامک فورم کی تقریروں کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے کہرام سا مچ گیا۔ عمران خان حکومت کے مخالفین نے آئو دیکھا نہ تائو اور اس رپورٹ کو لے کر حکومت پر پل پڑے اور اس قدر طوفان اٹھا یا کہ ہر ڈبے سے ایک ہی آواز سنائی دینے لگی کہ ــ '' دیکھا ہم صاف ستھرے اور وہ کرپٹ‘‘۔
اس دوران پاکستان میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ نے وضاحتی بیان بھی جاری کردیا اورواضح کیا کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ نہیں ہوا اور موجودہ حکومت کے بدعنوانی کے خلاف اقدامات قابل ستائش ہیں۔انہوں نے واضح طور پر کہا کہ رپورٹ میں کہیں نہیں کہا گیا کہ 2019ء میں پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔ ان کایہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا سکور ایک درجہ نیچے جانا کرپشن میں اضافے کی نشاندہی نہیں کرتا۔سہیل مظفر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ساکھ کو بدنام کرتے ہوئے ہماری رپورٹ‘ جو دنیا بھر کے اداروں تک پہنچائی جاتی ہے‘ کو غلط طور پر پیش کیا گیا ہے ۔
پاکستان میںایک خاص گروہ‘ جسے موجودہ حکومت پر چلاّنے کیلئے خصوصی تربیت اور مواد مہیا کیا جاتا ہے ‘اس نے جھوٹ کو اپنے سر پر بٹھاتے ہوئے اپنے حامیوں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اور کرپشن کے ثبوت دیتے ہوئے ان پر شدید حملے شروع کر دیے‘ بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایک خاتون اینکر نے مخصوص دھڑے کے لیے ہمدردیاں رکھنے والے ماہرین کو اپنے پروگرام میں مدعو کیا اور عمران خان کے خلاف اس رپورٹ کے نام پر بدعنوانی کے پہاڑ گرانے شروع کر دیئے۔ اور تو اور لندن میں اپنے فلیٹ کے باہر میاں شہباز شریف میڈیا کو خصوصی طور پر بلا کر اپنے ہی دورِ حکومت کا گند عمران خان پر پھینکنا شروع کر دیا۔اس قدر بے خبری اور اس قدر جہالت کا مظاہرہ بھی کیا جا سکتا ہے ‘اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے نمائندے سہیل مظفر نے اپنی پریس ریلیز کے ذریعے تحریک انصاف سے معذرت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہماری رپورٹ تو نواز شریف کی مدتِ اقتدار میں کرپشن کے حوالے سے جاری کی گئی ہے‘ جسے بد قسمتی سے پاکستان کے کچھ سیا ستدانوں اور میڈیا ہائوسز نے اچھالتے ہوئے عمران خان کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔لگتا ہے کہ میڈیا اور اپوزیشن سے متعلق تمام سیا ست دانوں نے اس رپورٹ کو ایک نظر دیکھنے اور پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کے دور حکومت کا معیار کیا ہو سکتا ہے۔
عمران خان کا مقابلہ اس وقت چونکہ مولانا فضل الرحمن‘ نواز لیگ‘ پی پی پی‘ جماعت اسلامی‘ محمود خان اچکزئی اور منظور پشتین گروپ سے ہے‘ اس لیے اکیلی تحریک انصاف اور مخالفین کا مقابلہ آٹھ ایک کے حساب سے کیا جاتاہے ۔ ان سیا سی جماعتوں اور گروہوں نے جھوٹ کے گرو ُکی پیروی کرتے ہوئے اپنے بدن پر لگنے والے کیچڑ کو بھی عمران خان کے بے داغ لباس پر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ سروے کے نام سے پاکستان اورا س سے باہر کام کرنے والے بہت سے اداروں کو پاکستان کی ایک سیا سی قوت35 برسوں سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔ کبھی اسے مقامی سروے کا نام دیا جاتا تو کبھی اسے انٹرنیشنل سروے کی شکل میں اچھالا جاتا رہا ۔ مئی 2013ء کے انتخابات سے پہلے ایک نیم سرکاری سروے کمپنی نے خیبر پختونخو اکے انتخابی جائزے کی اپنی رپورٹ جاری کرتے ہوئے لکھا تھاکہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ نواز کو 35 فیصد عوام کی سپورٹ حاصل ہے ‘ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کو 19 فیصدعوام کی سپورٹ حاصل ہے اور عمران خان کی تحریک انصاف کو کے پی میں کی عوام کی صرف11 فیصد سپورٹ حاصل ہے۔ اس رپورٹ اور سروے کو جس تیزی سے پھیلایا گیا‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ڈھول کی طرح دن رات پیٹنے سے کیا جا سکتا ہے‘ اور یہ جھوٹ کس خوبصورتی سے بولا جاتا رہا کہ ہمارے جیسے لاکھوں لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن نہ جانے ذہن تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہو رہا تھا کہ موجودہ دور میںــ کرپشن نواز اور زرداری دور ِحکومت سے بڑھ گئی ہے۔کچھ بھی ہو ہم سب یہ تسلم کرنے پر تو اب مجبور ہو چکے ہیں کہ گوئبلز کی سوچ موجودہ حکومت کی اپوزیشن اور ان کے حامی میڈیا ہائوسز پر حاوی ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا ہے ایک نیم سرکاری کمپنی تو ایسی بھی گزری ہے جس نے میاں محمد نواز شریف کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے بھی مقبول لیڈر بنا کر پیش کر دیا تھا ‘اسی نے مئی2013 ء کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کیلئے خیبر پختونخوا میں نواز شریف کو سب سے مقبول لیڈر کے طور پر پیش کر کے دکھا دیا‘لیکن جب کے پی کے میں انتخانی نتائج سامنے آئے تو نواز لیگ کا کہیں وجود ہی نہیں تھا اور عمران خان کی تحریک انصاف کا طوطی ہر جانب سر چڑھ کر بو ل رہا تھا‘ بلکہ الیکشن کمیشن کا رزلٹ مسلم لیگ نواز کے کاسہ لیسوں کی جانب سے پھیلائے جانے والی سروے رپورٹس کا منہ اس طرح چڑا رہا تھا کہ بہت سے مسلم لیگی امید واروں کی ضمانتیں تک ضبط ہو گئیں ۔
اسی طرح لاہور کے ضمنی انتخاب میں ایاز صادق کی مقبولیت 60 فیصد اورعلیم خان کی مقبولیت سروے رپورٹس میں 37 فیصد بتائی جاتی رہی تھی‘ لیکن ہزار کوششوں کے بعد دونوں امیدواروں کا 50/49 کا نتیجہ سب کے سامنے تھا ۔اسی ضمنی انتخاب کے حلقہ پی پی147 میں نواز لیگ کے خاندانی امیدوار محسن لطیف کو تحریک انصاف کے ایک کارکن جمشید صدیقی نے شکست دے کر اس رپورٹ کے ایک ایک صفحے کو حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا۔