اسلام آباد کی نگران حکومت کی منظوری سے سترہ مئی کو دو حکم نامے جاری کیے گئے۔ ایک حکم نامے میں چند اعلیٰ افسران کی تقرری اور تبادلے کے احکامات تھے جس پر چند ہی منٹوں بعد انتہائی سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا لیکن نگران حکومت کے جاری کردہ دوسرے حکم نامے پر خاموشی ہے۔شا ید اس لیے کہ اس میں عوام کے مفاد پر زد پڑی ہے‘ کسی منظور نظر یا چہیتے سرکاری افسر کے مفاد پر نہیں ۔نگرانوں کے جاری کردہ دوسرے حکم نامے کا تعلق اس ماہ آنے والے بجلی کے بلوں میں چھ روپے فی یونٹ قیمت بڑھانے سے ہے۔ اس حکم کا تعلق چونکہ اس ملک کے کچلے ہوئے اور اپنی قسمت اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ کرنے والے عوام سے ہے اس لیے اس پر ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح عوام پر بجلی گراتے ہوئے اس دفعہ بھی وہی گھسا پٹا جملہ لکھا گیا ہے کہ بڑھائی گئی ان قیمتوں سے ان گھروں اور لوگوں پر کسی قسم کا فرق نہیں پڑے گا جو ماہانہ پچاس یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں اور یہ جملہ قوم گزشتہ تیس سالوں سے ہر دور حکومت میں مسلسل سنتی چلی آ رہی ہے ۔ اگر ان سب حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ کیا پورے پاکستان میں کوئی بھی شخص ہاتھ اٹھا کر کہہ سکتا ہے کہ اس کا ہر ماہ بجلی کا استعمال پچاس یونٹ تک ہوتا ہے؟ اگر آپ ایک سو واٹ بجلی کا بلب اور ایک پنکھا استعمال کرتے ہیں تو چوبیس گھنٹوں میں دس گھنٹے بجلی کے استعمال پر بھی صرف شدہ یونٹس کی تعداد پچاس سے کہیں زیا دہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ بجلی کے نرخ بڑھاتے ہوئے ہر حکمران کی جانب سے بولا گیا پچاس یونٹ والا جملہ سوائے عوام کو دھوکہ دینے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ہم پر بجلی گرانے والے ہمارے حکمران اگر اس کی بجائے یہ کہیں تو زیا دہ منا سب ہو گا کہ پانچ روپے اسی پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کے جو نرخ مارچ2012ء سے بقایا جات کے ساتھ بڑھائے گئے ہیں ان کا اطلاق اس ملک کے حکمرانوں‘ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین‘ صنعتکاروں ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، تاجروں، دکانداروں اور رشوت وصول کرنے والے افسران اور اہل کاروں پر نہیں ہو گا کیونکہ ہر صنعت کار، تاجر اور دکاندار نے بڑھائے گئے بجلی کے ان نرخوں کا ملبہ عوام پر ڈال دینا ہے یعنی وہ اپنی تیار کی گئی اور فروخت کی جانے والی اشیا کی قیمتیں بڑھا کر اپنا بل عوام سے وصول کرلیں گے۔یہ بجلی جو نگرانوں کی جانب سے اس ملک کے غریب عوم پر اچانک گرا دی گئی ہے اس کا تعلق مارچ2012 ء سے ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس ماہ بجلی کے جو بل لوگوں کو موصول ہوں گے ان میں آٹھ ماہ پرانے بقایا جات بھی شامل ہوں گے اور یہ ہر ماہ ہمارے ماہانہ بلوں میں علیحدہ سے ہم سے وصول کیے جاتے رہیں گے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین اور وزراء کو تو ہر ماہ ان کی تنخواہوں کے ساتھ یوٹیلٹی بلز علیحدہ سے ادا کیے جاتے ہیں اس لیے انہیں اس سے کیا غرض کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریوں جیسے عوام پر اس حکم نامے سے کیا گذرے گی ۔اس سے پہلے بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام سے فیول ایڈ جسٹمنٹ پرائس کے نام پرگزشتہ پانچ سالوں میں چونتیس روپے فی یونٹ کے حساب سے بقایا جات وصول کیے جاتے رہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اب بقایا جات کے نام پر مزید پانچ روپے اسی پیسہ کے حساب سے ایک سال کا ’’بھتہ ‘‘ وصول کیا جائے گا۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ2009ء سے اب تک پانچ مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر عوام کی کھال اتاری جا رہی ہے۔غریب پاکستانیوں کا دکھ نہ جانے کون بانٹے گا؟۔ آج ایک عام پاکستانی عجیب دوراہے پر کھڑا ہے۔ اگر بجلی آتی ہے تو وہ اپنا آپ بیچ کر بھی بمشکل بجلی کے بل ادا کر سکے گا اور اگر بجلی نہ آئے تو روزگار سے محرومی اور دوزخ کی گرمی میں جلتا رہے گا۔ یہ پاکستانی جائے تو جائے کہاں؟ ۔ ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح نگران حکومت کی جانب سے کیے گئے چند افسران کے تبادلوں پر جناب شہباز شریف نے سیخ پا ہوکراس حکم نامے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ،اسی طرح بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے خلاف بھی آواز بلند کرتے اوراسے چند دنوں بعد آنے والی اپنی حکومت کے قیام تک روک دینے کا مشورہ دیتے۔ کیا مسلم لیگ نواز کی جانب سے یہ مطالبہ آنا منا سب نہیں تھا کہ غریب عوام پر بجلی کے بلوں کا بوجھ بڑھانے کا فیصلہ نگرانوں کے اختیار میں نہیں بلکہ اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف مسلم لیگ نواز لیگ کی د و ہفتوں بعد آنے والی حکومت کو ہے؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہوا‘ چنانچہ یہ بات بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ نگرانوں کی طرف سے ہر ماہ بجلی کے ہر بل پر سینکڑوں روپوں کے اضافہ کا جاری کردہ یہ حکم آنے والوں اور جانے والوں کی ’ ’ باہمی رضامندی‘‘ سے ہی جا ری کیا گیا ہے۔ شاید اس لیے کہ بدنامی نگرانوں کے حصے میں ڈال کر خود سر خرورہیں اور آرام سے کہتے رہیں کہ یہ ہمارا نہیں ان کا کارنامہ ہے۔ہماری بصد احترام گزارش ہے کہ چند اعلیٰ سرکاری افسران کی تقرری اور تبادلے بھی تو نگران حکومت کا ہی کارنامہ تھا جن پر سخت مذمتی بیانات اٹھارہ مئی کی صبح سے شام تک بلکہ رات گئے تک ٹیلیویژن کی سکرینوں پر جگمگاتے رہے۔ ا یک طرف صرف گریڈ اکیس اور بائیس کے دو افسر اور دوسری طرف اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام ‘ لیکن انہیں تبدیل ہونے والے یہ دو افسران تو نظر آ گئے‘ اٹھارہ کروڑ انسان نظر نہیں آئے جن پر بجلی کا بم گرا دیا گیا ہے اور اس بم کے تابکاری اثرات نے چند ہزار گھروں کو چھوڑ اس ملک کے لاکھوں گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے‘ وہ لوگ جن کیلئے دو وقت کی روٹی بھی مشکل ہو گئی ہے‘ وہ آٹھ ماہ کے بقایا جات کی ادائیگیاںکس طرح اور کہاں سے کریں گے ۔ مسلم لیگ نواز جس طرح چند دنوں بعد وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد افسران کے تقرر کا حکم منسوخ کرتے ہوئے اپنی مرضی اور منشا کے مطا بق دوبارہ تقرریاں فرمائے گی ، کیا اسی طرح نواز لیگ سے یہ امید بھی رکھی جائے کہ وہ عوام پر 5.80 روپے فی یونٹ والا بم بھی ایک حکم نامے سے نا کارہ بنادیں گے؟۔۔ عوام بے تابی سے اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے اوران کی خوش حالی کے وعدے کرنے والے ان سے کیا سلوک کرتے ہیں؟!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved