راولپنڈی سے لاہور کی طرف جی ٹی روڑ پر سفر کرتے ہوئے سب سے پہلا مقام روات ہے‘ جو ایک مصروف تجارتی مرکز ہے‘ لیکن اس کی اصل پہچان روات کا قلعہ ہے‘ جو یہاں کے مقامی گکھڑ سردار سلطان سا رنگ خان کی جولاں گاہ تھا‘ جس نے شیر شاہ سوری کے مقابلے میں مغلوں کا ساتھ دیا تھا اور جس کی قبر اب بھی قلعہ کی شکستہ عمارت کے صحن میں موجود ہے ۔یہاں سے تقریباً آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر میری والدہ کا گائوں تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب گائوں کی زندگی بہت سادہ تھی۔ شہر سے گائوں تک ایک گاڑی چلتی تھی۔گاؤں میں ابھی بجلی نہیں آئی تھی۔ گھروں میں سرِشام تندور تپ جاتے اور رات کا کھانا جلدی کھا لیا جاتا۔ رات ہوتے ہی لوگ ہاتھوں میں لالٹینیں لیے چوپالوں میں گپ شپ کے لیے اکٹھے ہوتے ۔جہاں دن بھر کی خبریں اور آس پاس کے گاؤں کی باتیں مزے لے لے کے سنائی جاتیں۔کیسی سادہ اور خوب صورت زندگی تھی۔ میں اُن دنوں سکول میں پڑھتا تھا اور مجھے کہانیاں پڑھنے اور سننے کا جنون تھا۔ان دنوںقلعہ روات کے سلطان سا رنگ خان کا کردار مجھے بہت پسند تھا۔ سارنگ خان ‘جس نے شیر شاہ کی فوج کے سامنے ہار نہیں مانی تھی اور اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ جان قربان کر دی تھی۔
اس زمانے میں ہر گائوں میں ایک نمبردار ہوا کرتا تھا‘ یہ ایک اہم عہدہ ہوتا۔ گائوں کے نمبردار کی سب عزت کرتے اور اس کی رائے کا احترام کرتے ۔ ہمارے گائوں کے نمبردار کا نام چوہدری یعقوب تھا ۔اونچا لمبا قد‘ ہونٹوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ‘ وجاہت کا سرتا پا نمونہ۔ محبت میں گندھی ہوئی شخصیت ایسی کہ دلوں میں گھر کر جائے۔ان دنوں میں لال کرتی کے سی بی ٹیکنیکل ہائی سکول کا طالب علم تھا۔سکول میں گرمیوں کی چھٹیاں تھی اور ہم والدہ کے ہمراہ گائوں آئے ہوئے تھے ۔گائوں کی پگڈنڈیاں جیسے آزادی کی شاہراہیں ہوتیں‘جن پر قدم رکھتے ہی ہم گائوں کی آزاد فضائوں کا حصہ بن جاتے ۔یہ آزادی بھی کیا چیز ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خواہش۔ قوموں کی تاریخ کا سب سے بڑا سرمایہ!
ایسی ہی آزادی‘ ہم نے 1947ء میں حاصل کی تھی‘ جب فرنگیوں کے جبر کا طویل دور ختم ہوا تھا‘ لیکن آزادی کی اس جدوجہد کے پیچھے کتنی ہی قربانیوں کتنی ہی تحریکوں کا ہاتھ تھا ۔کیسے کیسے لوگ آزادی کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے ان وادیوں میں اتر گئے‘ جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا۔اس رات گاؤں میں میں نے آزادی کے متوالوں کی کہانی سنی تھی۔اس رو ز میں گائوں کے نمبردار چوہدری یعقوب کے ڈیرے پر اپنے ماموں کے ساتھ گیا تھا‘کیوں کہ مجھے پتا چلا تھا کہ چوہدری یعقوب کسی زمانے میں فوج میں تھے اور پھر وہ انڈین نیشنل آرمی کا حصہ بن گئے تھے۔ میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ انڈین نیشنل آرمی جاپان کی مدد سے بنائی گئی تھی‘ یہ 1942 ء کی بات ہے ؛دوسری جنگ عظیم کا آغاز1939ء سے ہو چکا تھا ۔برٹش آرمی کا سامنا جاپان سے تھا ۔جاپانی فوج کے میجر فوجی وارا جس کا تعلق انٹیلی جینس سے تھا۔ انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے )کا تصور اسی کے ذہن رسا کا نتیجہ تھا۔انڈین نیشنل آرمی کے بانیوں میں موہن سنگھ کا شماربھی ہوتا ہے ۔اس کے قیام کا بڑا مقصد اہلِ عالم کو باور کرانا تھا کہ ہندوستانی شہری ہندوستان میں برطانوی حکمرانی سے تنگ آ چکے ہیں اور انہوں نے آخری کوشش کے طور پر برطانوی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی فوج تشکیل دی ہے ۔اس کا دوسرا مقصد جاپان کا امیج ایک ایسے ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا‘ جو آزادی سے محبت کرتا ہے اور جسے محکوم قوموں کی آزادی کی فکر ہے۔
اس روز گاؤں میں چوہدری یعقوب صاحب کے گھر میں نے ان سے کہا تھا؛مجھے بڑا اشتیاق ہے کہ میں آپ سے انڈین نیشنل آرمی کے بارے میں جانوں ۔مجھے پتا چلا ہے کہ آپ بھی اس آرمی کا حصہ رہے۔ چوہدری صاحب نے اپنی گہری روشن آنکھوں سے مجھے دیکھا‘ پھر خلا میں گھورتے ہوئے بولے؛ پرانا قصہ ہے‘ لیکن یوں لگتا ہے‘ جیسے کل کی بات ہو۔ اس وقت پوٹھوہار کی ریت تھی‘ ہوش سنبھالتے ہی لڑکوں کا پہلا انتخاب فوج ہوتا تھا‘ میں بھی فوج میں چلا گیا۔ دوسری جنگ عظیم جاری تھی۔ ہمیں برما کے محاذ پر بھیج دیا گیا ۔ میں اکثر سوچتا یہ توجاپان اور برطانیہ کی لڑائی ہے‘ ہم کس کے لیے لڑ رہے ہیں؟ وطن سے دورمجھے اپنا گائوں شدت سے یاد آتا تھا‘ پھر ایک روز محاذ پر شدید گولا باری ہوئی میں ایک گولی لگنے سے زخمی ہو گیا‘ خون تیزی سے بہنے لگا اور پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا ‘معلوم نہیں کتنی میں دیر بے ہوش پڑا رہا۔ہوش آیا تو معلوم ہو ا میں جاپانیوں کی قید میں ہوں‘ تب مجھے انڈین نیشنل آرمی کے بارے میں معلوم ہوا۔ میرے پاس اپنے علاقے کے پنجابی بولنے والے فوجی آئے اور بتایا کہ وہ انڈین نیشنل آرمی میں شامل ہو گئے ہیں‘ یہ آرمی انگریزوں کی ہندوستان میں ناجائز حکمرانی کیخلاف بنائی گئی ہے ‘میں بھی اس میں شامل ہو گیا۔انڈین نیشنل آرمی کے کمانڈر ان چیف سبھاش چندر بوس تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس آرمی میں کچھ تو وہ فوجی تھے‘ جو جاپان کی قید میں آ گئے تھے‘ لیکن ایک بڑی تعداد ان فوجیوں کی بھی تھی‘ جو اپنی مرضی سے فرنگی حکمرانوں سے لڑنے کے لیے سبھاش چندربوس کی قیادت میں جمع ہوئے تھے۔بوس ایک سخت گیر منتظم تھا ۔ 1943 ء میں آئی این اے میں شامل ہونے کے بعد بوس نے تنظیم میں نئی جان ڈال دی تھی۔ بوس نے آزاد ہندوستانی عارضی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ جاپان نے اس کے لیے انہیں جزیرہ انڈیمان اور نیکو بار کا علاقہ دے دیا۔ ہندوستان میں برطانوی اقتدار کو چیلنج کرنے کے لیے یہ ایک اہم اقدام تھا ۔
بوس نے پوری کوشش کی کہ آئی این اے کو نظم و ضبط‘ تربیت ‘ اور سازو سامان کے لحاظ سے ایک پیشہ ور فوج میں تبدیل کیا جائے۔ آئی این میں فوج کے 10 ہزار کے قریب جوان موجود تھے ۔ان کے علاوہ ہزاروں شہریوں نے اپنے نام لکھوائے تھے۔ بوس نے جاپانیوں کو راضی کر لیا کہ آئی این آئی کو محض نمائشی فوج کی بجائے باقاعدہ جنگ میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ یہ موقع اس وقت ملا جب آئی این اے نے ایک محاز پر جنگ لڑی اس جنگ میں جاپانیوں اور آئی این اے کو ناکامی ہوئی۔ بعد کے دنوں میں آئی این اے کو ملایا اور سنگاپورمیں تعینات کیا گیا ۔ آئی این اے کی کامیابی کے بارے میں مختلف آرا ہو سکتی ہیں ‘لیکن اس نے ہندوستانی عوام کے حوصلے بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کی ایک اہم وجہ گاندھی کی ہندوستان چھوڑ دو تحریک کا اچانک خاتمہ تھا۔ گاندھی کا مصالحت پسند رویہ سبھاش چندر بوس کے لیے نا قابل قبول تھا اس کا خیال تھا کہ فرنگیوں پر آخری ضرب لگانے کا موقع آ گیا ہے۔ 18اگست1945ء کو سبھاش چندر بوس ایک ہوائی حادثے میں ہلاک ہو گیا۔آئی این اے کے متعدد ارکان پر مقدمے چلائے گئے اور انہیں سخت سزائیں دی گئیں ۔ مقدموں کے دوران بھی آئی این اے کے ارکان کے دلیرانہ بیانات سے لوگوں میں ایک نیا جذبہ بیدار ۔ آئی این اے کی قربانیوں نے ایک طرف تو لوگوں میں آزادی کی جوت جلادی اور دوسری طرف ان کی کاروائیوں سے فرنگی حکمرانوں پر زبردست دبائو پڑاکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے عمل کو تیز کریں ۔
اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں برما کے محاذ پر نہیں‘ اپنے گائوں کے نمبردار چوہدری یعقوب کے گھر بیٹھا تھا ‘رات ڈھل رہی تھی اور میں آزادی کی جدوجہد میں جان دینے والے ان ہزاروں لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھا‘ جن کی قربانیوںنے ہمیں آزادی کی دولت سے روشنا س کرایا تھا۔